ابو! اب اس دنیائے فانی میں نہیں رہے ، اب اُن کی یادیں اور باتیں ہی ہمارا سہارا ہیں۔ کچھ میری یادوں کا حصہ ہیں اور کچھ لوگوں کی زبانی ابو کی شخصیت کے کئی پہلو ہم تک پہنچے۔
والد صاحب کی پیدائش لیاقت آباد کی ہے۔ وہ اپنے والد کے 90 گز کے مکان میں رہتے تھے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ انٹر کے بعد ملازمت کا آغاز کیا۔ پھر گریجویشن کے بعد ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔
ہمارے بچپن کے ایام میں جماعت کا کوئی بھی پروگرام ہوتا، وہ مجھے اور مجھ سے چھوٹے بھائی عمیر کو لازمی ساتھ لے جاتے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں دو یا تین دن (جب بعد نمازِ عصر جماعت کا پروگرام نہیں ہوتا تھا) ہمیں پارک لے کر جاتے، ہمارے ساتھ کبھی فٹ بال کھیلتے، کبھی ریس لگاتے اور اکثر ہار جاتے، اور ہمیں لگتا کہ ہم نے انہیں ہرایا ہے، لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو اندازہ ہوا کہ وہ ہمیں خوش کرنے کے لیے ہار جاتے تھے۔ پارک سے واپسی پر مٹھائی کی دکان سے ریفریشمنٹ لے کر آتے اور گھر پر ٹی پارٹی ہوتی۔ سب مل کر کھاتے تو بہت مزا آتا تھا۔
اسی طرح خاندان میں کوئی بھی معاملہ ہو، شادی بیاہ کا معاملہ ہو یا کسی کی صلح کروانی ہو، سبھی والد صاحب سے رجوع کرتے اور والد صاحب جس قدر ممکن ہوتا ان کی مدد کرتے۔
نماز و مسجد سے تعلق شروع ہی سے مضبوط تھا۔ نماز کی بروقت ادائی کرتے نظر آئے۔ جس ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت شروع کی، اُس میں نماز کی جگہ مختص نہیں تھی اور ملازمت کے اوقاتِ کار میں کمپنی سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ پہلے ہی دن ظہر کا وقت ہوا تو دفتر کے ساتھی سے پوچھا کہ مسجد کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ کمپنی میں مسجد نہیں ہے اور باہر جانا منع ہے، اگر آپ باہر گئے تو سخت ایکشن ہوسکتا ہے اور آپ کی ملازمت بھی جاسکتی ہے، لہٰذا کوئی ملازم نمازکے لیے باہر نہیں جاتا۔ لیکن ابو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نماز کے لیے کمپنی سے تھوڑے فاصلے پر واقع مسجد چلے گئے۔ اس خلاف ورزی پر ایم ڈی صاحب نے طلب کرلیا، وضاحت طلب کی تو بغیر ہچکچائے کہا ’’سر! نماز کے لیے گیا تھا اور آئندہ بھی جائوں گا کیوں کہ کمپنی میں با جماعت نماز کی کوئی جگہ نہیں ہے، اگر کوئی جگہ کمپنی میں مختص کردی جائے تو بہت سارے افراد نماز ادا کرسکیں گے۔‘‘
ایم ڈی صاحب اُن کے نماز سے اس تعلق سے بہت متاثر ہوئے اور اس طرح کمپنی میں نماز کے لیے جگہ مختص ہوگئی، جس سے ان کے کولیگ حیران تھے کہ ملازمت کے پہلے ہی دن ایم ڈی صاحب سے مسجد کی جگہ مختص کروالی! سب نے مبارک باد دی اور اس طرح کمپنی میں مسجد کا قیام عمل میں آیا۔
نماز اور مسجد کے تعلق ہی کی وجہ سے وہ جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے۔ محلے کی مسجد میں نماز کے بعد جماعت کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں یہ ملاقاتیں ایسی بڑھتی چلی گئیں کہ ذمہ داریاں ملتی گئیں اور انہی ذمے داریوں کو ادا کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔
1990ء کے عشرے میں جب ایم کیو ایم کی دہشت گردی عروج پر تھی۔ بوری بند لاشیں اور بھتہ خوری عام بات تھی اور لیاقت آباد کو ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، ایسے میں لیاقت آباد میں جماعت اسلامی کے لیے کام کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ لوگوں نے بھی لکھا اور ہمارا بھی مشاہدہ تھا کہ آپ جب ناظمِ علاقہ لیاقت آباد تھے، الیکشن کے مواقع پر جب ایم کیو ایم لیاقت آباد سے جیت جاتی تھی تو رات گئے ایم کیو ایم کے کارکنان ہمارے گھر کے باہر خوب نعرے بازی کرتے اور جماعت کے خلاف اول فول بکتے، ہوائی فائرنگ کرکے خوف ہراس پھیلاتے۔ وہ ایک مشکل دور تھا، ایسی صورتِ حال میں کہ جب ہر وقت موت سر پر منڈلا رہی ہو اور صرف اپنی جان کا معاملہ ہو تو الگ بات ہے، لیکن پوری فیملی ہی خطرے میں ہو اس کے باوجود ثابت قدم رہنا آسان نہیں تھا۔
میں آج بھی اُس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ کیسے گزر گیا اور ہم کیسے نکل گئے؟ یہ بس اللہ کا فضل اور عنایت تھی کہ ابو ثابت قدم اور ڈٹے رہے۔
2001ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے، اس میں والد صاحب لیاقت آباد ٹائون کے نائب ناظم منتخب ہوئے۔ ٹائون ناظم ڈاکٹر پرویز محمود شہید تھے۔ جماعت اسلامی نے جب آپ کو امیدوار بنایا، اُس وقت آپ ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کررہے تھے۔ آپ نے ملازمت چھوڑ کر ٹائون کو وقت دینا شروع کردیا۔ ٹائون کی ذمہ داریوں کے بعد علاقے کی ذمہ داری۔ اپنی علالت تک چیئرمین یونین کونسل 7 لیاقت آباد و ناظمِ علاقہ لیاقت آباد ڈاک خانہ کی ذمہ داری بہ حسن و خوبی ادا کی۔ اسپتال میں راشد نسیم، منعم ظفر، مسلم پرویز، ٹائون چیئرمین سمیت جماعت کے مختلف ذمہ داران نے عیادت کی۔ جماعت کے علاوہ مختلف طبقاتِ فکر و مسالک اور مختلف مساجد کے امام و کمیٹی ممبرز عیادت کے لیے اسپتال تشریف لائے اور ہر ایک نے اپنا تعلق والد صاحب سے بھائیوں والا بتایا۔ والد صاحب بھی صبر و شکر والے تھے، دورانِ علالت جس کسی نے بھی اسپتال میں ان سے پوچھا کیا حال ہے؟ انہوں نے ’’الحمدللہ‘‘ کہا۔ اتنی بیماری و تکلیف میں بھی مسکرا کر بات کرنے کی کوشش کی۔ دورانِ علاج طبیعت مزید خراب ہونے پر آئی سی یو منتقل کیا گیا جہاں سے آپ جہانِ فانی منتقل ہوگئے۔ اللہ میرے والد کی مغفرت فرمائے، آمین۔