عید قرباں : مجھے قصائی مل گیا

142

’’ہمارے گھر بھی قربانی کا جانور آگیا‘‘۔ بچوں کی خوشی قابلِ دید ہے، ہر کوئی اپنے اپنے تئیں اس کی خدمت کرنے لگا۔ گڈو نے چارہ کھلانے کا ذمہ لے لیا، جبکہ طلحہ صفائی ستھرائی میں مگن تھا۔ گھر کے بچوں کو تو جیسے کھلونا مل گیا ہو۔ صبح سے رات گئے تک بچھڑا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ گھر والے جانور تو لے آئے لیکن سب سے اہم کام ابھی باقی تھا یعنی قسائی کا بندوبست کرنا۔ ظاہر ہے عیدالاضحی پر قربانی کے جانور سے زیادہ اہمیت قسائی کی ہوتی ہے، یا یوں کہیے کہ عیدِ قرباں پر قسائی کو ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، اور جب بڑے بھائی ناکام کوشش کر بیٹھے ہوں تو اس مشن کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ خیر ہم بھی کب ہار ماننے والے تھے، اپنے پرانے دکان دار رشید قریشی کے پاس جا پہنچے۔ رشید بھائی بھی خوب ہیں، اُن کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی منطق ہوتی ہے۔ پیشے کے اعتبار سے تو وہ گوشت کا کام کرتے ہیں لیکن باتوں سے ماہر نفسیات یا کسی بھی ایف سی پی ایس ڈاکٹر سے کم نہیں، لوگوں کے گھریلو مسائل سے لے کر ان کی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا علاج کرنا ان کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ پچھلے دنوں میں ان کی دکان پر جا بیٹھا، کمر کے درد میں مبتلا گاہک کو مفت قیمتی مشورہ دیتے ہوئے بولے:

’’ارے میاں اس عمر میں ہی جھکنے لگے ہو! کھاتے پیتے نہیں ہو کیا؟ میاں مال کھاؤ مال، پھر اگر کبھی کمر میں درد ہوجائے تو رسید بھائی کا نام بدل دینا، مر مجبوط کرنے کے لیے پٹ کا گوش کھاؤ پٹ کا گوش، کمر کو لوہا لاٹ کردیتا ہے، دیکھتے نہیں بیل کی پیٹھ کتنی مجبوط ہوتی ہے اور بچھڑے سارا دن کھڑے رہنے کے باوجود نہیں تھکتے! تم یہ بتاؤ پٹ کا گوش کتنا دوں، ابھی پکوا کر کھا لینا، شام تک نتیجہ دیکھ لینا، یہ تجربے کی باتیں ہیں لالا، ڈاکٹر واکٹر تو بے وقوف بناتے ہیں، بے فجول لوگوں کو دوائیوں پر لگادیویں۔ بس دو گولیوں کے نام یاد کرکے ڈاکٹر بن گئے ہیں، سارے مریضوں کو ایک ہی لال سربت دے کر پیسے بنا رہے ہیں۔ ہر ڈاکٹر آپریشن نہیں کرسکتا، مگر قصاب روج جانور کاٹے ہیں، یہ ہمارا کھاندانی کام ہے، ہمارے گھر کا بچہ بچہ جانور کے ایک ایک جوڑ کے بارے میں جانے ہے، جو الات(اعضاء) جانوروں میں ہوتے ہیں وہی تو انسانوں میں بھی ہوتے ہیں، تبھی تو ہمارا تجربہ زیادہ ہے، اسی لیے کہتا ہوں کہ ان کا پیچھا چھوڑو اور میری بات مانو! اور ہاں اگرجوڑوں میں درد ہو تو ہڈی گڈی لے جائو، ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چڑھا دو، یخنی تیار ہوجائے تو دو پیالے پی لو، جوڑوں کے درد سے ہمیسہ کے لیے جان چھوٹ جاوے گی، ساتھ میں اگر دو نلیاں بھی ڈال دو تو کیا کہنے۔ ایک اور کام کی بات بتاؤں، دھیان سے سنو، اگر کسی کو سوگر ہو تو اُسے بکرے کا تازہ لببا (لبلبا)کھلائو، سنو! جب کسی انسان کا لببا خراب ہوجائے تو سوگر ہوجاتی ہے، لببا کھانے سے سوگر بالکل ٹھیک ہوجاتی ہے۔‘‘

رشید بھائی کے فلسفے کے مطابق جو بھی چیز بطور غذا کھائی جاتی ہے انسانی جسم میں اُس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں، یعنی ایک طرف اگر کمر درد کے لیے پٹ کا گوشت فائدے مند ہے تو دوسری طرف ہڈی گڈی کا سوپ جوڑوں کے درد کے لیے پین کلر ثابت ہوتا ہے۔

رشید بھائی کو اُس روز یوں مسلسل بولتے دیکھ کر مجھے بھی اندازہ ہونے لگا تھا کہ ضرور اُن کی پسندیدہ ڈش زبان فرائی اور مغز نہاری ہی ہوگی۔

خیر یہ تو گئے دنوں کی بات تھی۔ آج رشید بھائی کی دکان پر پھیپھڑوں کی تیزی سے ہوتی فروخت کو دیکھ کر مجھ سے خاموش نہ رہا گیا، لہٰذا میں نے اُن سے اُنھی کی منطق کے مطابق سوال کر ڈالا:

’’میں خاصی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی دکان پر آنے والا ہر دوسرا گاہک پھیپڑے ہی خرید رہا ہے، کیا انہیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ شہر میں سانس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے؟‘‘

’’نہیں تمہیں کچھ نہیں پتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ لوگ پھیپھڑوں کا صدقہ دیتے ہیں، پھیپھڑے کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بناکر صدقہ خیرات کے نام پر چیل کوّوں کو کھلاتے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کا پیٹ بھرنا ثواب ہے، اس عمل سے آنے والی بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں‘‘۔ یوں رشید بھائی نے مجھے بلائیں ٹالنے کا مروجہ طریقہ بھی بتا دیا۔

یہ بلائیں بھی خوب ہیں جو نظر تو نہیں آتیں لیکن ٹل جاتی ہیں۔ ہم بچپن سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ کرنے سے آفتوں اور بلاؤں کو ٹالا جاسکتا ہے۔ صدقے کا سنتے ہی ہمارے ذہن میں کالا بکرا، کالی بکری یا کالی مرغی گھومنے لگتی ہے۔ صدقے کا بکرا اور بکری تو اس قدر مشہور ہوئے کہ ہمارے ملک میں کام کرتی اکثر ویلفیئر آرگنائزیشن اسی نعرے کے تحت کھا کما رہی ہیں۔ آپ اپنے اطراف نظر دوڑا کر دیکھ لیں، محلے میں گھومتی کالی مرغی کو کوئی بھی اس ڈر سے ہاتھ نہیں لگاتا کہ کہیں یہ صدقے کی نہ ہو، آپ کسی سفر پر جائیں، اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو اسے کسی بڑی مصیبت کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ ایک طرف کالا رنگ افضل ترین تو دوسری طرف نحوست کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ میں تو آیا تھا قربانی کا جانور ذبح کروانے کی بات کرنے، مگر رشید بھائی کی باتوں میں ایسا الجھا کہ موضوع ہی تبدیل ہوگیا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، میرا مطلب ہے کہ صدقے کے نام پر قربان کیے جانے والے بکرے اور پرندوں کو کھلانے سے بلائیں ٹلنے تک آن پہنچی۔ چلو اسی پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔ آپ بکرا ذبح کریں، غریبوں کو ایک وقت کا کھانا کھلائیں، نیٹی جیٹی کے پل پر کھڑے ہوکر سمندر میں مچھلیوں کی خوراک گرادیں، چیونٹیوں کو آٹا ڈالیں اور چیل کوّوں کو پھیپڑے کھلا دیں، اللہ اللہ خیر صلا۔ ہوگیا دین کے بتائے ہوئے طریقے کے عین مطابق صدقہ وخیرات۔

اس سے پہلے کہ بات مزید آگے بڑھے، میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں یعنی رشید بھائی کو اپنا جانور قربان کرنے کے لیے منانے پر۔ قصہ مختصر یہ کہ رشید بھائی نے خاصی دیر ناز نخرے دکھانے کے بعد جانور ذبح کرنے کی ہامی بھرلی۔ ان کی ہاں سنتے ہی میں گھر لوٹ آیا۔ یوں میرا مسئلہ تو حل ہوگیا لیکن قربانی سے جڑے ایک واقعے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دوسرے دن میرا گزر انڈسٹریل ایریا کورنگی کے اُس سیکٹر سے ہوا جہاں میرے دوست کی فیکٹری ہے۔ چونکہ میرے کئی دوست انڈسٹری سے وابستہ ہیں، اُس دن کچھ فراغت تھی اس لیے میں ان سے ملاقات کی غرض سے ندیم کی فیکٹری کی جانب چل پڑا۔ فیکٹری کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی گارڈ روم ہے، کیونکہ میرا اکثر وہاں آنا جانا رہتا ہے اس لیے فیکٹری میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں سمیت تمام افراد سے میری اچھی خاصی سلام دعا ہے۔ جیسے ہی اندر داخل ہوا، میری نگاہ گارڈ روم کے ساتھ بنے شیڈ میں بندھے جانوروں پر پڑی۔ فیکٹری میں درجن بھر بکروں اور بچھڑوں کی موجودگی میرے لیے نئی بات نہ تھی، ظاہر ہے عیدِ قرباں کے قریب اتنی تعداد میں جانوروں کی موجودگی کا مطلب صاف تھا کہ یہ قربانی کے لیے لائے گئے ہیں۔ میں ابھی شیڈ کے قریب بھی نہ پہنچا تھا کہ ایک سیکورٹی اہلکار نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:

’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو تھوڑی دیر ہم سے بھی گپ شپ کرلیں۔‘‘

میں بھلا کون سی فیکٹری کا مالک تھا! اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں طبقاتی تفریق تو مالک اور مزدور کے درمیان ہوا کرتی ہے، لہٰذا میں اس کے ساتھ گارڈ روم میں جا بیٹھا۔

عبداللہ انتہائی شریف النفس، مذہبی اور محبت کرنے والا شخص ہے، لیکن اس دن وہ خاصا بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ طبیعت کے بارے میں پوچھنے پر کہنے لگا: ’’ساری باتیں چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ یہ جانور کس لیے کاٹے جائیں گے؟‘‘

میں نے ازراہِ مذاق کہا: ’’مجھے کیا خبر، میں تو ابھی آیا ہوں، اور ویسے بھی میرا آنا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، تم یہاں نوکری کرتے ہو، تمہیں مجھ سے زیادہ معلوم ہوگا‘‘۔ میں نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا۔

’’یہ سب آپ کے دوست کروا رہے ہیں۔ ہر سال اسی طرح بارہ بکروں اور بچھڑوں کو قربان کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ صدقے کے نام پر بھی جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ صدقہ دینے کا عمل فیکٹری کی ترقی، اور اسے بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے، اور جانور کی قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے، اس مشق کے بعد سارا گوشت ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے، کسی مزدور کو گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیا جاتا۔ مزدوروں کا کام تو صرف فرش کی دھلائی وصفائی کرنا ہے، آپ یقین کریں میں ایک عرصے سے یہی کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں، دین کے نام پر یہاں جو کچھ بھی کیا جارہا ہے اس کا مقصد فیکٹری کے اندر جانوروں کا خون بہانا ہے۔ دوسرے مزدوروں کی بات چھوڑیے، میں اپنے گھر کی ہی مثال دیتا ہوں۔ میرے بچوں نے ایک سال قبل پچھلی بقرعید پر محلے سے آیا ہوا گائے کا گوشت کھایا تھا۔ گھر کی صورتِ حال یہ ہے کہ کبھی چٹنی تو کبھی پیاز کھا کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ میری تنخواہ 24000 روپے ہے، بارہ گھنٹے ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد اتنی ہمت نہیں رہتی کہ کوئی دوسرا کام کرسکوں۔ اب اس تنخواہ میں بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست کروں یا دوا دارو کروں! بچے محلے کے مدرسے میں جاتے ہیں، اسکول بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب جیب ہی خالی ہو تو اسکول کی فیس اور کاپیوں، کتابوں کے اخراجات کہاں سے ادا کروں گا؟ اس سے بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ فیکڑی میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کو ہم اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر ویلفیئر ٹرسٹ کی گاڑیوں میں لوڈ کرواتے ہیں، لیکن ایک پاؤ گوشت کے بھی حق دار نہیں! بڑے لوگ بھی اُن اداروں کو ہی صدقہ، خیرات، یہاں تک کہ عید پر قربان کیے جانے والے جانوروں کا گوشت دیتے ہیں جو پہلے ہی کروڑوں روپے کے بنک بیلنس رکھتے ہیں، جن کا کام سڑکوں کے کنارے دسترخوان لگا کر کھانا کھلانے کے نام پر غریبوں کی عزتِ نفس مجروح کرنا اور لوگوں کو بھکاری بنانا ہے، مجھے یقین ہے کہ حشر کے روز رب کے حضور ایسی قربانی کرنے والے ضرور جواب دہ ہوں گے۔‘‘

عبداللہ کی باتوں نے تو میرے ذہن کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ میرے پاس اُس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کبھی سوچتا کہ اگر بقرعید واقعی بکرے کا گوشت کھانے کا نام ہے تو اس نعمت سے عبداللہ سمیت دوسرے مزدور محروم کیوں؟ کبھی خیال آتا کہ چلو ویلفیئر ٹرسٹ کو گوشت دینے سے کسی غریب کو تو پیٹ بھر کھانا مل جاتا ہے۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود میرے ذہن میں ابھرتے سوالات نہ تھمے۔ فوراً ذہن میں آیا کہ اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ سو، قرآن کا سہارا لیتے ہی ایک ایک بات کھل کر  سامنے آنے لگی۔ بے شک قرآن ہی وہ کتاب ہے جس میں ہدایت ہے، قرآن میں جہاں جہاں صدقہ و قربانی کا ذکر آیا ہے قرآن وہاں آخرت کا تذکرہ کرتا ہے۔ اسلام میں قربانی کو عظیم عمل قرار دیے جانے کے بعد یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قربانی میں غربا، مساکین، ناداروں کا حق رکھا ہے۔

عبداللہ کی دکھ بھری داستان سن کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ آخر ہم کیوں نہیں سمجھتے یا کیوں بھول جاتے ہیں کہ قربانی دراصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، اور راہِ خدا میں اپنی محبوب ترین شے یا جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘(سورۃ الحج: 37)۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِ قرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں مگرعیدالاضحی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک عیدِ قرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کرکے گوشت جمع کرنا ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ اللہ بندوں کی شکل صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے نہ قربانی کی۔ جبکہ ہماری عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا، اور مختلف پکوان پکا کر مزے اڑانا ہے۔ ہماری یہ سوچ نہیں کہ درحقیقت یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر کیوں ہم صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرکے اُن سے میل جول بڑھاتے ہیں! اگر دیکھا جائے تو غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا ویسے بھی انتہائی غیر اخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔ یاد رکھیے اللہ عیدِ قرباں پر صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لامحدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ِابراہیمی کو پورا کرنے کے لیے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں،کوتاہیوں اور خطائوں کی قربانی ضروری ہے۔ عید ِ قرباں کے موقع پر سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللہ کی راہ میں جانور تو قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں اور دوست احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقے پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔ اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کررہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے، اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے۔

ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے تو زیادہ اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی تو نبی ﷺ نے دریافت کیا: اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا اسے ضائع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا۔ جو اللہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ جن کے پاس تیل مصالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقے کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلۂ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ آخر میں یہی فکر کھائے جارہی ہے کہ رشید بھائی ہمارا جانور ذبح کرنے وقت پر پہنچیں گے کہ نہیں، یا پھر دوسرا قسائی تلاش کرنا ہوگا!

حصہ