بکرا نامہ

182

پاکستان میں عام آدمی سال بھر، بلکہ زندگی بھر قربانیاں دیتا رہتا ہے مگر افسوس کہ ان قربانیوں کو کسی قطار شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ اس کا دُکھ اس وقت دوچند ہو جاتا ہے جب سال میں ایک بار ذبح ہونے والے جانوروں کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور ان کی ایک بار کی قربانی کے تذکرے کا بازار مہینوں گرم رہتا ہے!

اگر آپ نے قربانی کا جانور خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو آپ کی ہمت کی داد دینا ہی پڑے گی کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جانور خرید کر ذبح کرنے کے تصور ہی سے گلے پر چُھری پھرتی محسوس ہوتی ہے!

ویسے ہمارے مال کی آزمائش کے معاملے میں عیدالفطر بھی خیر سے کم نہیں۔ عید الفطر اب بیشتر پاکستانی اہل ایمان کو فطرہ وصول کرنے کی سطح تک لے آتی ہے! عید کا چاند دن میں تارے دکھا دیتا ہے مگر خیر انسان جان سے تو نہیں جاتا۔ ہاں، عیدِ قرباں مکمل قربان کرکے، کھال میں بھوسا بھرکے چھوڑتی ہے!

اہل ایمان اور بالخصوص شادی شدہ اہل ایمان کے لیے تو قربانی خیر سے سال بھر کا ایونٹ ہے کہ وہ وقت بے وقت کسی جواز کے بغیر ذبح ہوتے رہتے ہیں! یہ گویا ’’ذبیحۂ جاریہ‘‘ ہوا۔

سال بھر ذبح ہوتے رہنے والے دو ٹانگوں والے جانوروں کو اس بات کا شکوہ رہتا ہے کہ ان کی وہ توقیر نہیں جو قربانی کے روایتی جانوروں کی ہے! ان کا شکوہ بجا ہے۔ ہم چونکہ شادی شدہ ہیں اِس لیے ہر شادی شدہ انسان کی قربانیوں کو سمجھتے ہیں اور اُسے گھاس ڈالتے ہیں یعنی عزت دیتے ہیں!

جیسے ہی عید الاضحیٰ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، گھر والے قربانی کے جانور کے لیے، دیسی گویّوں کی طرح، وقت بے وقت فرمائشی راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں!

بچے اٹھتے بیٹھتے پوچھتے رہتے ہیں ’’امی! ہمارے ہاں قربانی کا جانور کب آئے گا؟‘‘ اور ماں انھیں ہر روز حقیقت پسندانہ تسلّی دیتی ہے ’’بیٹا! شام کو دفتر سے آئے گا!‘‘ قربانی کا یہ جانور روزانہ گھر آتا ہے مگر بچے بے چارے معصوم ہوتے ہیں، اُن کی نظر میں قربانی کا جانور وہ ہے جس کے سینگ اور دُم ہو اِس لیے قربانی کے غیر روایتی جانور کو وہ شناخت نہیں کر پاتے!

بچوں کو کیا معلوم کہ حالات کا مقابلہ کرتے کرتے ’’ابّوؤں‘‘ کی دُمیں جھڑ چکی ہیں! اور رہے سینگ؟ تو بچوں کو اب کون سمجھائے کہ گدھوں کے سَر پر بھی کہیں سینگ ہوا کرتے ہیں!

جب بچوں کی ضد بڑھ جاتی ہے تو خاتون خانہ بھی روزانہ بچوں کی طرح ضد کرنے لگتی ہیں ’’اجی! آپ جانور کب لائیں گے؟‘‘

شوہر بے چارہ اُلجھ جاتا ہے کہ اہلیہ کی بچگانہ ضد یا فرمائش کیا جواب دے؟ اگر وہ کہتا ہے ’’کیا اپنے سُسرال سے کوئی جانور لے آؤں؟‘‘ تو بیگم ناراض ہوتی ہیں۔ اور اگر شوہر کہتا ہے ’’اب مُجھی کو ذبح کر ڈالو‘‘ تو بیگم کہتی ہیں ’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟ گدھوں کی صرف کمائی جائز ہے، قربانی نہیں!‘‘

لیجیے صاحب، گھر والے حسب روایت اِس بار بھی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوئے (ظاہر ہے یہ تو ہونا ہی تھا اور یہ تو ہوتا ہی ہے!) اور آپ جیسے تیسے مزید قربانی دینے یعنی قربانی کا جانور خریدنے کے لیے راضی ہوگئے!

ہر سال یہی تو ہوتا ہے۔ پہلے آپ آنا کانی کرتے ہیں اور پھر اچانک راضی ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ میں ’’سیاسی اداکاری‘‘ اور ’’سفارت کاری‘‘ کے جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں!

اب آپ جانور خریدنے جارہے ہیں۔ یہ بھی بڑا عجیب لمحہ ہے۔ آپ کے گھر کے سامنے خاصی بھیڑ ہے۔ رسموں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اللہ بخشے، تین مرتبہ تو آپ کی نظر اتاری جاچکی ہے۔ گھر کے علاوہ خاندان اور محلے کی بڑی بوڑھیوں کا مینا بازار سا لگا ہے اور وہ کئی دعائیں پڑھ کر آپ پر دم کر رہی ہیں۔ آپ کو خواہ مخواہ یہ احساس ہو رہا ہے کہ آپ کی بھی کچھ ویلیو ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ جھاڑ پُھونک صرف اس لیے ہے کہ منڈی میں آپ جانور بیچنے والوں کے جھانسے میں نہ آئیں!

ایک تعویذ اس بات کے لیے بھی باندھا جارہا ہے کہ جو بولی آپ لگائیں وہ بلا حیل و حجت قبول کرلی جائے! آج کل یہ کام تعویذ سے لیا جارہا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ آنے والے دور میں اس مقصد کے لیے کسی مستند اور ’’پہنچے ہوئے‘‘ عامل بابا سے اُلّو کا عمل کرانا پڑے تاکہ آپ جانوروں کی منڈی میں اُلّو بننے سے محفوظ رہیں!

موقع اور حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ احتیاطاً دو چار دوائیں بھی ساتھ رکھتے ہیں تاکہ جانوروں کی (انتہائی غیر متوقع یعنی خاصی بلند) قیمت سُن کر غش آجائے اور احساس کمتری سے دل بیٹھنے لگے تو اُسے سنبھالا جاسکے!

قربانی کا جانور منتخب کرنا اور خریدنا اب باضابطہ فن ہے اور ممکن ہے بہت جلد اس فن پر کتابیں بھی بازار میں دست یاب ہوں!

اگر ہم مغرب کے نقش قدم پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب قربانی کے جانوروں کو سمجھنے کے لیے حیوانیات اور جانوروں کے بیوپاریوں کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے ماہرین سے مشاورت لازمی سمجھی جائے!

ہمارے ایک دوست فکشن رائٹر ہیں۔ عیدِ قرباں نزدیک آتی ہے تو یہ مویشی منڈی کے دو چار چکر ضرور لگاتے ہیں اور وہاں جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اسے تین چار ماہ تک کہانیوں کی شکل میں بیان کرکے فکشن کی دنیا میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرتے ہیں!

اگر آپ نے قربانی کا جانور خریدنے کا ارادہ سب کے سامنے ظاہر کردیا تو سمجھ لیجیے اپنی موت کو یعنی مفت مشورہ دینے والوں کو دعوت دے دی! مشورہ دینے والوں کی بہتات ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ آپ کو قربان ہونا تو یقیناً آتا ہے مگر قربانی کا جانور خریدنا شاید ہی آتا ہو! بعض افراد قربانی کا جانور خریدنے کے معاملے میں واقعی اس قدر اناڑی پن دکھاتے ہیں کہ لگتا ہے گائے کو گدھا خرید رہا ہے!

اگر آپ اپنے بارے میں اس نوعیت کا کوئی تاثر دینے سے بچنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ چند ’’منڈی دیدہ‘‘ شخصیات کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے نکلیں۔ ویسے منڈی میں بھی ’’رضا کاروں‘‘ کی کمی نہیں ہوتی۔ ایک کپ چائے کے عوض یہ لوگ آپ کو دنیا بھر کے جانوروں کی خصوصیات گنوا سکتے ہیں!

اہل کراچی کے لیے قربانی کے جانوروں کی منڈی شہر سے باہر لگتی ہے۔ اِس میں بھی ایک مصلحت ہے۔ شہرِ قائد میں انسان اور جانور کا فرق کم ہوتا جارہا ہے! حکومت چاہتی ہے کہ دو اور چار ٹانگوں والے جانوروں میں فرق نمایاں ہو۔ اب یہ کوئی اچھی بات تو نہ ہوگی کہ ایک بین الاقوامی شہر کو مویشی منڈی سمجھ لیا جائے! سُنا ہے جب منڈی شہر میں ہوا کرتی تھی تب جانور بہت پریشان رہتے تھے۔ اُن کے لیے اپنی شناخت برقرار رکھنا بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا!

منڈی سُپر ہائی وے پر ہو تو قیمتیں سُپر ہائی وے والی اسپیڈ سے سفر کیوں نہ کریں؟ منڈی میں پہنچ کر جانوروں کو بھی اپنی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے اور اپنی ذات پر فخر کا موقع ملتا ہے! ثابت ہوا کہ شہر سے باہر مویشی منڈی کا قیام جانوروں پر اچھے نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے! شاید اِسی لیے کراچی سے باہر سُپر ہائی وے پر اب لوگ تیزی سے آباد ہوتے جارہے ہیں!

اگر آپ کو دنگل دیکھے ہوئے زمانے گزر چکے ہیں تو دل چھوٹا نہ کریں، مویشی منڈی کا رخ کریں۔ ہم خدا ناخواستہ دیسی پہلوانوں کو جانوروں سے مشابہ قرار نہیں دے رہے! (ویسے آپس کی بات ہے، ایسی قابلِ رشک صحت جانوروں کے نصیب میں کہاں؟ قربانی کے مسٹنڈے جانور بھی اگر کسی دیسی پہلوان کو دیکھ لیں تو شرم سے پانی پانی ہو جائیں، اپنی ہی نظروں سے گر جائیں!) ہم نے تو بزرگوں سے سنا ہے کہ قربانی کا جانور مناسب ترین قیمت پر خریدنا دنگل جیتنے سے کم نہیں! بعض لوگ قربانی کا جانور (اپنے خیال میں) موزوں قیمت پر خرید کر خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتے اور اِس طرح بھنگڑا ڈالتے ہیں کہ جانور بھی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں!

بہت سے لوگ مویشی منڈی میں سودے بازی کا ہنر سیکھنے کے بعد اسٹاک ایکس چینج میں بھی بہت نام اور دام کماتے ہیں!

بہتر حکمرانی کے رموز اور سفارت کاری کے آداب سکھانے والے اداروں کی توجہ شاید اب تک اس طرف نہیں گئی کہ جو لوگ منڈی میں بہتر ڈھنگ سے بھاؤ تائو کرکے مناسب قیمت پر جانور خریدنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ کامیاب سفارت کار ثابت ہوسکتے ہیں! سفارت کاری سکھانے کا یہ انداز یا طریقہ کسی بھی اعتبار سے ناقابلِ قبول نہیں۔ آج کل بیشتر سفارت کار جو کچھ کر رہے ہیں اُسے فکر و عمل کے اعتبار سے ریوڑوں کا سودا کرنے ہی کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے!

ہمارے کئی دوست عیدِ قرباں کی آمد پر کامیڈی ڈرامے دیکھنے پر مویشی منڈی جانے اور جانوروں کی خرید و فروخت کا منظر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں! قربانی کے جانور کی قیمت کا تعین ایک دلچسپ ڈرامے کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو دیکھنے کے لیے جو تماشائی منڈی میں موجود ہوتے ہیں انہیں دیکھنا بھی تفریح سے کم نہیں! ویسے بہت سے جہاں دیدہ ’’منڈی دان‘‘ کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور کی خریداری کے عمل میں منڈی جس ماحول سے گزرتی ہے وہ خود جانوروں کے لیے بھی تفریح سے کم نہیں!

ہمارے معاشرے میں شادی کو لائف ٹائم ایونٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کچھ کچھ یہی حال قربانی کے جانور کی خریداری کا بھی ہے۔ حکومت چاہے تو اسے ایک ماہ کے باضابطہ ’’کیٹل فیسٹیول‘‘ کا درجہ دے کر لوگوں کے لیے مستقل سالانہ تفریح کا اہتمام کرسکتی ہے!

اگر آپ نے قربانی کا جانور خرید ہی لیا ہے تو ابھی سُکون کا سانس مت لیجیے۔ آپ کی پریشانیاں ابھی کہاں ختم ہوئی ہیں؟ جانور کو گھر تک لے جانا کوئی بچوں کا کھیل ہے؟ یہ ایک باضابطہ مشن ہے، آپریشن ہے! شادی کے موقع پر آپ نے رخصتی کا منظر تو دیکھا ہوگا۔ منڈی سے جانور کی رخصتی بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کرتی ہے۔

لیجیے صاحب، جانور کو خریدے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا ہے مگر اب تک کسی گاڑی والے سے ڈیل نہیں ہو پائی! کوئی بھی گاڑی والا صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے تک دو ہزار روپے سے کم میں جانے پر راضی نہیں۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ گاڑی والا بھی انسان ہے، کوئی قربانی کا جانور تو ہے نہیں پھر کیوں اس بات پر تُلا ہوا ہے کہ اُس کی ناز برداری کی جائے؟

آپ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ اتنا کرایا دے کر تو آپ خود بھی کبھی ٹیکسی میں نہیں بیٹھے! شاید آپ کا حافظہ کام نہیں کر رہا۔ ذرا یاد کیجیے کہ آپ کبھی قربانی کے باضابطہ جانور رہے ہیں؟ نہیں نا! تو پھر آپ کی اِتنی ویلیو کیسے ہوسکتی ہے؟

قربانی کے جانور کو شاندار گاڑی میں لے جانا آپ کے لیے محض معاشی مسئلہ ہوگا، خود جانور کے لیے تو یہ status اور نفسیاتی برتری کا معاملہ ہے! اگر آپ اِسے کسی ٹوٹی پھوٹی گاڑی یا گدھا گاڑی میں گھر لے گئے تو محلے کے دوسرے جانوروں کے سامنے اُس کی ناک نیچی نہیں ہوجائے گی؟

قربانی کے جانور کو عمدگی سے گھر تک لے جانا بھی ایک ایسا مشن ہے جس کے لیے پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ بعض لوگ اِس کے لیے امریکی صدر والا پروٹوکول تجویز کرتے ہیں!

قربانی کے جانور کی سمجھ میں بھی اِتنی بات تو آتی ہے کہ اُسے گود میں اٹھایا نہیں جاسکتا ورنہ وہ پیدل چلنے سے انکار کردیا کرتا۔ مگر خیر، پیدل چلنے کے معاملے میں بھی اُس کے چند اصول ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ میلوں پیدل چلے جارہے ہیں۔ بس ایک دو گلیوں کی سیر قربانی کے جانور کو بھاتی ہے۔ اِس سے آگے کا قصد کیجیے تو سینگ مارنے لگتا ہے! اگر آپ قربانی کے جانور کو منڈی سے گھر تک پیدل لے جانے کا قصد کریں گے تو لوگ آپ کو عقل سے پیدل تصور کرنے لگیں گے! سوال فاصلے کا نہیں، ذہنی سطح کا ہے۔ اور ذہنی سطح بھی آپ کی نہیں، قربانی کے جانور کی! بہت سے لوگ یہ تجربہ کرکے بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔ اگر آپ قربانی کے جانور کو منڈی سے گھر تک پیدل لے جائیں گے تو خود آپ کا اِتنا برا حال ہوجائے گا کہ آپ دونوں کو دیکھ کر لوگ فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ …

ایک صاحب اس تجربے کا ایسا خطرناک خمیازہ بھگت چکے ہیں کہ اُسے الفاظ میں بہتر انداز سے بیان کیا ہی نہیں جاسکتا۔ جب وہ صاحب مویشی منڈی میں کامیاب ڈیل کے بعد بکرے کو لے کر پیدل گھر پہنچے تو معاملہ یہ تھا کہ ’’محمود و ایاز‘‘ ایک ہوچکے تھے اور اُن کے بیٹے نے دونوں کو گھر کے دروازے پر دیکھ کر صدا لگائی ’’امی! بکرا آگیا، مگر پتا نہیں کیوں رَسّی ابّو کے گلے میں پڑی ہے!‘‘

ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ عیدالاضحی سے ایک ماہ قبل جانور خرید کر لاتے تھے تاکہ اُسے کچھ پیار سے رکھ سکیں، لگاؤ پیدا کرسکیں۔ اب قربانی کے جانور سے لگاؤ پیدا کرنے کی کوشش میں آپ کو وہ حال ہو جائے گا کہ اپنے آپ پر ترس آنے لگے گا!

لوگ جیسے تیسے، جگاڑ کرکے پیسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور جانور لے آتے ہیں مگر اُس کے ناز اٹھانے کا بجٹ جیب میں نہیں ہوتا۔ اب حالت یہ ہے کہ دو چار قربانی کے بکرے کے ناز اٹھانے کی کوشش میں بکرے کے مالک کا پہاڑی بکرے جیسا منہ نکل آتا ہے کیوں کہ بکرے کو چارا ڈالنے کے چکر میں وہ خود بے چارا یعنی بھوکا رہ جاتا ہے!

بیگمات کو اِس بات کی توفیق کم ہی ملتی ہے کہ دن بھر محنت مشقت کرنے والے شوہر کے لیے کچھ خاص پکالیا جائے مگر بکرے یا دُنبے کو کھلانے کے لیے کچھ خاص اہتمام کی اُنہیں زیادہ فکر لاحق رہتی ہے! بچے غلطی سے بکرے کے سامنے پالک، سرسوں کا ساگ، چولائی کی بھاجی، مولی کے پتے یا ایسی ہی کوئی اور سبزی ڈالیں تو خواتین خانہ چیخ چیخ کر پورا گھر سر پر اٹھالیتی ہیں ’’یہ قربانی کا جانور ہے، اِسے کوئی بھی ایسی گھٹیا چیز مت کھلاؤ جسے انسان کھاتے ہوں!‘‘ لیجیے، انسان اور قربانی کے جانور کا فرق مزید واضح ہوگیا!

صاحب خانہ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں کہ کاش انہیں بھی کبھی ایسا پروٹوکول ملا ہوتا! وہ ترستے ہی رہتے ہیں کہ اُنہیں بھی گھاس ڈالی جائے۔ گھاس کیوں نہیں ڈالی جاتی؟ کبھی گھاس کے دام پوچھ کر تو دیکھیے، لگ پتا جائے گا!

قربانی کے جانور کو باحفاظت رکھنا اب ایک ایونٹ کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اس فیلڈ میں بھی ایونٹ مینیجمنٹ کے ادارے قائم ہوں گے۔

ہم ایسے فیشن زدہ دور میں جی رہے ہیں کہ شاید اِس دور میں زندہ رہنا بھی محض فیشن ہے! آپ کو قربانی کے جانور کی خریداری تک محدود نہیں رہنا ہے بلکہ قربانی کے جانور کے حُسن اور ’’گریس‘‘ کا بھی خیال رکھنا ہے۔

منڈی سے گھر تک لاتے لاتے جانور شہر کے کئی علاقوں (یعنی کئی دنیاؤں!) سے گزرتا ہے اور ہر علاقے کے ماحولیاتی اثرات قبول کرتا جاتا ہے! دُھول مٹی میں اَٹی ہوئی ڈیڑھ لاکھ کی گائے بھی گھر پہنچتے پہنچتے پہاڑی بکرے جیسی دکھائی دینے لگتی ہے! قربانی کے جانور کو منڈی سے براہ راست گھر لائے جانے پر بہت سی خواتین اِسی لیے سیخ پا ہوکر کہتی ہیں’’بچھیا کو سیدھے گھر کیوں لے آئے؟ کونے پر سلیم صاحب رہتے ہیں نا؟ اُن کی بیٹی سلمیٰ نے میک اپ کا کورس کیا ہوا ہے۔ اُس سے فیشل کرا لاؤ۔ دیکھو تو سہی، منہ پر کتنی مٹی جمی ہوئی ہے! محلے والے دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے؟ اور ہاں، چار گلیاں چھوڑ کر دھوبی پاڑے میں سلیمان بھائی جانور نہلانے کے ایکسپرٹ ہیں۔ اُن کے پاس لے جاؤ، وہ نہلائیں گے تو کچھ اندازہ ہوسکے گا کہ یہ ہے کِس رنگ کی؟‘‘

گندمی رنگ کا شوہر حالات کے ہاتھوں بینگنی رنگ کا ہو جائے تو بھی بیگمات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی! اُنہیں تو قربانی کے جانور کی رنگت کا غم کھائے جاتا ہے!

وہ دن اب زیادہ دور نہیں لگتا جب قربانی کی گایوں کے لیے بیوٹی پارلر اور بیل بچھڑوں کے لیے سیلون قائم ہوں گے۔ بیوٹی پارلر چلانے والوں یا چلانے والیوں کو زیادہ دِقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ گائے بھینسوں اور بکروں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بیوٹیشینز بہت سی ’’بھینسوں‘‘ کا میک اپ تو روزانہ کرتی ہی ہیں! اور اِس کا بِل چُکانے بے چارے قربانی کے بکرے ہی تو ہوتے ہیں!

پھر یہ ہوا کرے گا کہ منڈی سے گائے یا بکرا خرید لیا ہے تو سیدھے گھر نہ جائیں بلکہ طارق روڈ کے کسی بیوٹی پارلر کا رخ کریں جہاں فیشل کرانے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ جو جانور آپ نے خریدا ہے، اہل محلہ اس کے حُسن کی تاب لا بھی سکیں گے یا نہیں!

جانور کپڑوں سے کیوں محروم رہیں؟ جانوروں کو برہنہ گھمانا تہذیب اور شائستگی کی نشانی تو ہرگز نہیں! لوگ کیا کہیں گے، دو لاکھ کا جانور خرید لیا مگر اِس کے پانچ ہزار کے کپڑے نہ بنواسکے۔

دوسرے بہت سے معاملات کی طرح جانور کپڑوں کے معاملے میں بھی خاصے حساس اور باشعور ہوتے ہیں۔ وہ خود کہہ دیا کریں گے ’’ہمیں وہ سوئیٹر مت پہنانا جو پُرانی پاکستانی فلموں میں ہیرو کی ماں پہنا کرتی تھی!‘‘

پنجابی فلموں کی ہیروئن کے زرق برق ملبوسات قربانی کے جانوروں سے دور رکھیے کیونکہ وہ بدک اور بھڑک سکتے ہیں! اور ذرا سوچیے کہ اُنہوں نے پنجابی فلموں کی ہیروئن کی طرف جمپ مارنا شروع کردیا تو اُنہیں کون کنٹرول کر پائے گا؟ ایسی حالت میں آپ قربانی نہیں کر پائیں گے کیونکہ اِس ٹائپ کے جانوروں کو لکی ایرانی سرکس والے لے اُڑتے ہیں۔

لیجیے صاحب، اللہ اللہ کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ جس دن کے لیے دن گِنے جاتے تھے زندگی میں آج وہ دن بھی آہی گیا۔ قربانی کا بکرا یعنی واقعی اور اصلی بکرا آپ کی ہم رکابی کرتا ہوا، مستانی چال چلتا ہوا گھر آچکا ہے اور اب اُس کی رُونمائی کا مَحَل ہے یعنی ’’مُنہ دِکھائی‘‘ کی رسم ادا کی جارہی ہے! کپڑے کی پوٹلی میں ثابت سُرخ مرچیں جلاکر نظر اتاری جارہی ہے۔

مُحلّے بھر کے بچے بکرے کے گرد جمع ہیں اور اُسے اِس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے آسمان سے پہلی بار بکرا اُتارا گیا ہو! نئی دُلھن کو بھی بچے اِسی طرح ٹریٹ کرتے ہیں! سِگمنڈ فرائڈ سمیت نفسی امور کا کوئی بھی ماہر آج تک یہ بھید بیان نہیں کرسکا کہ بچے قربانی کے جانور اور نئی دُلھن کو اِس قدر حیرت، مسرت اور تجسس سے کیوں دیکھتے ہیں!

بکرا جب بچوں سے فراغت پائے گا تب مُحلّے بھر کی عورتیں جمع ہوں گی اور باضابطہ رسم کے سے انداز سے بنی اسرائیل کی ایک روایت کو زندہ کریں گی یعنی قربانی کے بکرے میں ’’خامیوں‘‘ کی نشاندہی کریں گی! لازم ہے کہ آپ کے پاس پتنگ کی ڈور والی چرخی ہو تاکہ باتوں اور تبصروں کی ڈور لپیٹنا آسان ہو!

جب عورتیں بکرے کو دیکھ چکیں گی تب مُحلّے بھر کے بچے ایک بار پھر اسمبلی کریں گے اور دوسرے مُحلّے کے بچوں پر رُعب جمانے (یا جھاڑنے) کے لیے بکرے کو گھمائیں گے۔

اب قربانی کے جانور کی تصاویر بھی موبائل فون کی مدد سے خاندان بھر میں بھیجی جاتی ہیں تاکہ تمام رشتہ داروں کو اندازہ ہو کہ اِس بار کون کیسے جانور کے ہاتھ لگا ہے! اِس صورت میں سب کو ایک دوسرے کی ’’قربانیاتی‘‘ حیثیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے!

خدا سچ ہی بُلوائے، قربانی کے جانور کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ ایسی آؤ بھگت تو آج کل دولھے راجہ کی بھی نہیں ہوتی! سُنا ہے قربانی کے جانوروں کی مثالی عزت افزائی کو پیشِ نظر بہت سے لڑکے والے رشتہ طے کرتے وقت لڑکی والوں کے سامنے یہ شرط بھی رکھتے ہیں کہ جب ہم بارات لے کر آئیں تو دولھا کو وہی عزت دینا جو قربانی کے جانور کو دی جاتی ہے! اِس پر لڑکی والوں کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ دولھا بے چارہ تو قربانی کا بکرا ہی ہوتا ہے!

بعض بکرے وی وی آئی پی کلچر میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ وہ شور شرابہ پسند نہیں کرتے۔ جب وہ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب اِس بات کا اہتمام کرنا پڑتا ہے کہ کوئی انھیں پریشان نہ کرے۔ قریب ہی ’’برائے مہربانی خاموش رہیے‘‘ کا بورڈ لگانا پڑتا ہے! ویسے بکرے کی اِس خواہش کا سب سے زیادہ احترام خود صاحبِ خانہ کرتے ہیں کیونکہ وہ بکرا خرید کر پہلے ہی ذبح اور ’’سُکوت رسید‘‘ ہوچکے ہوتے ہیں!

ابھی ایک اور جاں گسل مرحلہ باقی ہے۔ کبھی آپ نے دو ممالک کے درمیان پیچیدہ امور پر مذاکرات دیکھے ہیں، اُن کی تفصیل پڑھی ہے؟ اگر نہیں پڑھی تو ضرور پڑھیے۔ اب آپ کو اِسی نوعیت کے مرحلے سے گزرنا ہے۔

بات قربانی کی ہو اور معاملات چُھری، بُغدے اور مِڈّھی تک نہ پہنچیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس قصائی کو آپ روزانہ دیکھتے ہیں وہ عیدِ قرباں کے زمانے میں کیسا دکھائی دیتا ہے؟ گھر میں قربانی کا جانور بندھا ہو تو ہر قصائی سے پورے خلوص اور مٹھاس کے ساتھ بات کرنی پڑتی ہے! اگر عیدالاضحیٰ سے تین چار دن قبل تک کسی قصائی سے آپ کی ڈیل نہیں ہو پائی تو سمجھ لیجیے کہ قربانی کا جانور اُس بیٹی جیسا دکھائی دینے لگے گا جس کی عمر تیزی سے ڈھل رہی ہو!

کہتے ہیں قربانی کا جانور آپ کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے پُل صراط سے گزرے گا مگر قصائی سے معاملات طے کرتے وقت ہر پَل آپ کو یہ احساس ہوگا کہ شاید اِس ڈیلنگ ہی کو پُل صراط سے گزرنا کہتے ہیں! یقین کیجیے قصائی سے مذاکرات کرتے وقت آپ کو اپنے آپ پر فخر محسوس ہوگا کہ معاشرے کے ایک انتہائی اہم فرد سے ڈیلنگ کا موقع مل رہا ہے!

قصائی سے بات چیت کے دوران آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ زندگی میں اداکاری کی کس قدر اہمیت ہے! یہ مذاکرات خالص سفارتی سطح کے دکھائی دیتے ہیں! فریقین اپنے اپنے موقف پر اڑے اور ڈٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی کوئی بھی فریق ہار مانتا دکھائی نہیں دیتا مگر پھر ایک فریق پلک جھپکتے میں ہتھیار ڈال دیتا ہے! قصائی سراسر امریکہ ثابت ہوتا ہے! اور آپ؟ ظاہر ہے، پاکستان!

قصائی سے معاملات طے کرتے وقت غیر معمولی ذہانت اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر قصائی قربانی کے جانور کے ساتھ ساتھ اُس کے مالک کو بھی پچھاڑنے کے لیے بے تاب رہتا ہے! چوہا جب کسی سوئے ہوئے شخص کو کاٹتا ہے تو ہر ’’چَک‘‘ کے ساتھ میٹھی میٹھی، ٹھنڈی ٹھنڈی پُھونک بھی مارتا جاتا ہے! بعض قصائی بھی چوہوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور آپ کے گلے پر خاصی میٹھی اور ٹھنڈی چُھری پھیرتے ہیں!

اور بُغدے، مِڈھی کی منزل بھی آ پہنچی۔ قربانی کا جانور ذبح کیا جاچکا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مرحلہ بھی کچھ کم دشوار نہ تھا۔ بہت سے گھرانوں میں شادی کے موقع پر بُزرگوں کے درمیان اِس بات پر تنازع جنم لیتا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیگ پر کون بیٹھے گا! بیک وقت کئی بزرگ دیگ سے کھانا نکالنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر ’’پہلی دام میری، اللّہ سے بڑا کوئی نہیں!‘‘ کی تکرار سُنائی دیتی ہے! قربانی کا جانور ذبح کرنے کے موقع پر معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ آپ اپنے خاندان یا مُحلّے کے کسی بھی بُزرگ کو بدکتے، بھڑکتے جانور کے نزدیک پَھٹکتا ہوا نہیں پائیں گے!

اِس موقع پر صاحب خانہ خود کو ہاتھ پاؤں بندھی لاش جیسا محسوس کرتے ہیں اور جانور کے پاؤں باندھنے اور گردن دبوچنے کے لیے نوجوانوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں! اِس ٹائپ کے نوجوان بس تھوڑی سی دوڑ دھوپ سے مل جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ ملیں، ’’بعض‘‘ آنکھوں کو اپنا زورِ بازو دکھانے کے لیے وہ اِس دن کا سال بھر انتظار کرتے ہیں!

لیجیے صاحب، قربانی کے جانور کی کھال اُتاری جاچکی ہے۔ آپ کا ذہن اب تقسیم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ گوشت کی تقسیم کا مرحلہ نزدیک آرہا ہے! اگر آپ اِس مرحلے سے ڈھنگ سے نہ گزرے تو کئی داستانیں جنم لیں گی جو ’’منہ بہ منہ’’اور ’’کان بہ کان‘‘ سفر کرتی رہیں گی اور آپ suffer کرتے رہیں گے!

جس طرح مشاعروں میں حفظِ مراتب کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کِسے پہلے اور کِسے آخر میں پڑھوانا ہے بالکل اُسی طرح قربانی کے گوشت کی تقسیم میں بھی حفظِ مراتب اور اُس سے کہیں بڑھ کر رشتہ داری اور اسٹیٹس کا خیال رکھنا پڑتا ہے! فرق صرف یہ ہے کہ مشاعرے میں بلند ترین حیثیت کے شاعر کو آخر میں زحمتِ کلام دی جاتی ہے جبکہ گوشت کی تقسیم میں اہم ترین شخصیات کو پہلے بُھگتایا جاتا ہے!

گوشت کے معاملے میں آپ کسی اہم شخصیت کو بھول گئے تو سال بھر اُن کی جَلی کٹی باتیں آپ کے ذہن کی بوٹیاں نوچتی رہیں گی! اور آپ خود کو بے کوئلہ ہی بُھنتا ہوا پائیں گے!

جب آپ دوسرے بہت سے معاملات میں بیگم کی مرضی پر بخوشی کاربند رہتے ہیں تو پھر بَھلا قربانی کے متبرک موقع پر کِسی بھی قسم کی حُجّت بازی کیوں پسند کریں گے؟ پس طے پایا کہ سب سے پہلے بیگم صاحبہ کے میکے میں گوشت جائے گا! اور وہ بھی اچھا والا، ورنہ بیگم کی یہ بات بُغدے کی طرح آپ کے جذبات اور اعصاب کے دو ٹکڑے کردے گی کہ ’’تمھارے گھر والے تو اُڑائیں چانپ کے مزے اور میرے گھر والوں کے لیے کیا کَلّے اور پردے کا گوشت رہ گیا ہے!‘‘

میاں بے چارا کرے تو کیا کرے! اُس کا معاملہ تو ایسا ہی ہے جیسے اِدھر پہاڑ اور اُدھر کھائی! اگر بیگم کو منانے کے چکر میں وہ قربانی کا گوشت صرف سُسرالیوں میں بانٹتا ہے تو اُس کے اپنے رشتہ دار ناراض ہو جاتے ہیں! اور اگر اپنوں کو راضی رکھنا چاہتا ہے تو ’’سُسرائیل‘‘ سے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں! ہر شریف آدمی قربانی کے گوشت کی تقسیم کے موقع پر اپنے خونی رشتہ داروں کے مفادات کا بھی خون کردیتا ہے! اللہ تعالٰی اُس کی یہ قربانی بھی قبول فرمائیں، آمین۔

اب سب کمر کَس کر بیٹھ گئے ہیں۔ بوٹیوں کو پیٹ میں دھکیلنے کے لیے ’’ٹھنڈی والی کولڈ ڈرنکس‘‘ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے! احتیاطی تدبیر کے طور پر ہاضمے کے چُورن کا فیملی پیک بھی خریدا گیا ہے! ویسے بدہضمی قریب بھی نہیں پھٹکتی کہ لوگ تو اُسے بھی ڈکارنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں!

کراچی میں ویسے تو صرف ایک چَمڑا چورنگی ہے مگر عیدالاضحٰی کے موقع پر بہت سے لوگ اتنا گوشت کھا لیتے ہیں کہ دور ہی سے چَمڑا چورنگی جیسے دکھائی دینے لگتے ہیں! شہر بھر کی چورنگیاں حکومتی مشینری نے ختم کی ہیں اور قربانی کے گوشت سے بننے والی اِنسانی چَمڑا چورنگیاں ختم کرنے کا فریضہ ڈاکٹر صاحبان ادا کرتے ہیں! بدہضمی اور زہر خورانی کے علاج کے نام پر رہی سہی کھال ڈاکٹرز لے اڑتے ہیں!

(بکرا نامہ ختم ہوا مگر بکرے ہرگز ختم نہیں ہوئے۔ جن کے نصیب میں عیدالاضحیٰ کے تین دنوں میں ذبح ہونا لکھا تھا وہ بکرے تو رخصت ہوئے۔ باقی جو ’’بکرے‘‘ رہ گئے ہیں اُنہیں، قربانی کا شرف پائے بغیر، سال بھر ذبح ہوتے رہنا ہے! آئندہ عیدالاضحیٰ تک اپنے قلم کو بُغدے میں تبدیل نہ کرنے کے وعدے کے ساتھ ہم آپ سے اجازت کے طالب ہیں!)

حصہ