’’جلدی کریئے بی بی‘‘۔
’’اچھا۔ اچھا‘‘۔
مالا بڑی مصروفیت سے دروازے کا پردہ اٹھا کر باہر نکل جاتی ہے۔
وہ مسہری سے اُتر کر ننگے پائوں بڑے دریچے میں جاتی ہے۔ نیچے باغ پر گہرے بادل جھکے کھڑے ہیں۔ یہ برسات بھی گزرنے والی ہے۔ گزر جائے گی۔
بجلی چمکتی ہے۔
ان مادنی سودا منی ردنگ بھرے نرتیہ کورے۔ ادمبر تلے۔ انجم آرا کی سُریلی آواز اب نچلی منزل سے آرہی ہے۔ فریدہ اور دوسری لڑکیوں کے قہقہے۔
وہ آگئے۔ وہ چند لمحوں قبل کی اپنی حماقت پر تلخی سے مسکراتی ہے۔ اتنے برس۔ اتنے اشاڑھ اتنے شرابن، اتنے بہادرد، اتنے موسم نکل گئے۔ وہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ اب کیا آئیں گے۔
دریچے سے ہٹ کر وہ غسل خانے میں جاتی ہے۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپکے مار کر واپس آتی ہے۔ الماری کی طرف بڑھتی ہے۔ الماری کے قد آدم آئینے میں اپنے بھیگے ہوئے چہرے کا عکس دیکھتی ہے۔ یہ میں ہوں۔
وہ الماری کاپٹ کھولتی ہے۔ مرشد آبادی ریشم کی ایک بیش قیمت گلابی ساڑھی نکال کر باندھتی ہے پھر وہ سوئینگ باکس کھولتی ہے۔ (یہ سوئینگ باکس اسے دن میں کتنی بار کھولنا بند کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو فولاد کی طرح مضبوط بنالیا ہے)۔ اس میں سے وہ برما کے گلابی موتیوں کا ہار اٹھا لیتی ہے۔ جو شام اس نے امی کے سیف میں سے نکلوایا تھا۔ تصویر کو اس نے مختلف چیزوں کے نیچے اچھی طرح چھپا کر رکھا ہے۔ برسوں سے وہ تصویر اسی طرح بیدکی اس صندوقچی کی تہہ میں رکھی ہے۔ اتنی مدتوں بعد بھی اسے یقین ہے کہ اگر اس پر اُس کی نظر پڑ گئی تو اس کے دل کی حرکت بند ہوجائے گی۔
وہ بال گوندھ کر گہنے پہن کر کمرے سے مسکراتی ہوئی نکلتی ہے اور نیچے قہقہوں اور شادمانیوں کی دنیا میں شامل ہونے کے لیے اپنے مہندی لگے ہاتھ کو جنگلے پر ٹکاتی ہوئی سیڑھیاں اُترنے لگتی ہے۔
آشاڑھے نوبو آنند دآتشونوبو۔
میری ہرلحظ، ہر آن جلتی ہوئی چتا کس نے دیکھی ہے؟
نواب قمر الزماں چودھری کی بڑی صاحبزادی جہاں آرا بیگم۔
نیچے برساتی میں سترہ سالہ یاسمین مجید خوش اور بشاش، جارجٹ کی ہری اور لال چُنری ساری پہنے، دو چوٹیاں گوندھے، زیور پہنے، موٹر سے اُتری ہے اور برآمدے میں کھڑی فریدہ اور اختر آراء کے ساتھ قہقہے لگا لگا کر نیر الزماں کو تنگ کررہی ہے۔ خوش اور بشاش۔
اُس کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟
اور وہ اجنبی، بھولی لڑکی، جو ان پُرشور، دریائوں، طوفانی راستوں کے اس پار، دیناج پور کے ایک دور افتادہ گائوں میں اجنبیوں کے اس قافلے کی، ایک اجنبی انسان کی آمد کی منتظر ہے۔ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟
دھان کے پودوں کی آواز سنو۔ جوہرے سناٹے میں آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں۔
(19)
بھیربی کا خواب
کس کی دلہن ہے یہ، بیکراں، بھیانک رات نے پوچھا۔ جو بھیربی کی طرح بال بکھرائے، پریشان سوتی ہے؟
بوندوں کی لڑیاں سری سدن کے باغ پر ٹپ ٹپ گرتی سُرخ مٹی میں جذب ہوگئیں۔ عمارت کے ایک کمرے میں، کھڑکی کے نیچے، پلنگ پردہ بے چینی سے کروٹ بدلتی ہے۔ سارا باغ جگنوئوں سے جگمگا رہا ہے۔ وہ بھوج پتروں کے ڈھیر پر چڑھی بیٹھی ہے۔ میں جگنوئوں کی روشنی میں زعفران سے تمہیں خط لکھوں گی اور پون ددت کے ذریعے بھجوائوں گی۔ جس طرح ہم اپنے الفاظ ہوا کے حوالے کردیتے ہیں۔ اگر نہ بولیں تو کیا ہو؟ جگنو اور بھوج پتر اچانک غائب ہوگئے۔ گورکھ املی کا ٹیڑھی میڑھی شاخوں والا خوفناک درخت اس کے سر پر جھومے جارہا ہے۔ بھوانی کا بوڑھا مندر جڑ سے اکھڑ گیا۔ اس سال بڑا بھاری سائیکلوں آیا تھا بھائی۔ کتب خانے میں دروازے نہیں ہیں۔ صرف دیواریں۔ صرف دیواریں کوئی راستہ نکلنے کا نہیں۔ کھڑکھڑکھڑ۔ بھوج پتروں کے نیچے سے وہ نمودار ہوتا ہے۔ بڑی چالاکی سے، چوہے کی طرح چلتا وہ سامنے آگیا۔ بھکشو۔ سرمنڈا۔ عینک لگائے۔ کھڑائوں پہنے، کھٹ کھٹ کھٹ کھیسیں نکال کر وہ ایک بھوج پتراس کے حوالے کردیتا ہے۔
(یہ بھکشو چائنا بھون میں پڑھاتا ہے) وہ غور سے پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ بڑی عجیب زبان ہے۔ سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ فائنل امتحان اسی زبان میں ہوگا۔، بجلی کڑکی۔
بھکشو بھی غائب۔ وہ چائنا بھون کے برآمدے میں کان لگا کر سن رہی ہے‘‘۔ میری آواز تمہاری کڑک۔ میرے آنسو تمہاری مسلسل جھڑی۔ میرے من کی آگ تمہاری بجلی۔ میرے دل میں اس کا چہرہ ہے اور تمہاری آغوش میں چاند۔ میں اور تم یکساں ہیں۔ل بھائی بادل۔ پھر مجھے کیوں تنگ کرتے ہو‘‘۔
بڑا مدھم، سہانا اجالا سارے میں پھیل گیا۔ پھول بن میں چمپک کے شگوگوں کا چراغاں سا ہورہا ہے۔ ندی کے کنارے کنارے چلتا وہ خراماں خراماں اس کی سمت آرہا ہے۔
وہ چکوروں کا محبوب، لمبے بالوں، کالی آنکھوں والا، ہاتھ میں کنول سنبھالے، انگلیوں سے امرت گراتا۔ اولوکتیشور، پدم پانی۔
وہ کلابھون کے باغ میں موجود ہے۔ مسرور، محفوظ، نندلال بوس برآمدے میں ترکی ٹوپی اوڑھے نقرانی پیچوان گڑگڑا رہے ہیں۔ ہر طرف تصویریں ہی تصویریں۔ جو ان گھاس پر چلتا اشوک کے پھول کا تاج پہنے وہ اس کی جانب آرہا ہے۔ لوک ناتھ۔ لوکیشور۔
وہ خوشی سے کھلکھلا کر ہنستی ہے۔ وہ پین کی طرح منہ اٹھا کر بانسری بجاتا ہے۔ وہ چاندی سے بنا، سیاہ بادلوں سے نکلتا سورج۔ امیتابھ۔
بیکراں نور۔ بیکراں رحم۔ بیکراں محبت۔
بالکل قریب آکر اس نے عینک اتار لی اور گھور کر اُسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر آنکھیں ہی نہیں تھیں۔ آنکھ، ناک، منہ، کچھ بھی نہیں۔ خالی چہرہ، بالکل خالی چہرہ… انڈے جیسا۔ اس چہرے کو جیسا چاہو بنالو۔ بھکشو نے غرا کر کہا۔ وہ دہل کر چیخی۔
یہ لو۔ بھکشو نے کہا۔ اور خالی ہاتھ اس کی طرف بڑھادیا۔
یہ کیا ہے؟
دودھ کا گلاس۔ جائو جا کر پرستش کرو۔ کیسی کمیونسٹ ہمدرد ہو۔ پوجا پاٹ نہیں کرتیں کہیں بیٹی تم کمیونسٹ تو نہیں ہوگئیں؟
کس کی پرستش؟
اپنی… ہم سب اپنی اپنی پرستش کرتے ہیں۔
مگر آج تو ناگ پنچمی ہے۔
ہاں۔
کون سی؟ کس صدی کی ناگ پنچمی…؟
ازل سے ابد تک۔ محض ایک لمحہ… وہ اُنگلی اُٹھا کر مسخروں کی طرح ناچنا شروع کردیتا ہے۔
وہ خالی ہاتھ اس طرح اُٹھائے گویا انچلی تھامے ہو۔ وزنی قدموں سے پھر گورکھ املی کی سمت چلی۔ جنگل کا جنگل جگمگا رہا ہے۔
اوجگمگانے والو… جاگو… تھرڈ ایر کی لڑکیوں نے قطار میں کھڑے ہو پڑھنا شروع کیا۔ وہ حسب معمول ڈائریکٹ کررہی ہے۔
اوجگمگانے والو… چبوترے پر کھڑی دبلی پتلی اور نو عمر اور حسین سردجنی دیبی کی آواز۔
جاگو… کہ ہم گپھائوں اور ٹیلوں اور مقدس برگد کی جڑوں میں چھپے تمہارے مندر ڈھونڈتے آئے ہیں۔ ابدی خرد کے مراقبے سے اپنے پھن اُٹھائو۔ جاگو۔ بانسری کی دُھن پر وجد کرو۔ ہم تمہارے لیے دودھ اور باجرہ اور جنگلی انجیر اور سنہرے شہد کی انجلی لائے ہیں۔ ہم نے عوددلوبان سے فضا کو متبرک کیا ہے۔ ہماری لاچار زندگیوں اور باصبر مشقت اور ہماری نیندوں اور ہماری مضطرب تمنائوں کی حفاظت کرو۔ ندی کی طرح تیز اور شبنم کی طرح خاموش، بجلی کی طرح سُبک، اور آفتاب کی طرف درخشاں… عارفو… تم کہ اس قدیم خاموشی کی علامت ہو۔ جس میں موت و حیات، رنج و غم ایک ہو… اسٹیج دھڑام سے گر پڑی۔ گورکھ املی کی شاخیں زور زور سے سرسرانے لگیں… سیکڑوں برس پرانا، بوڑھا جوگی درخت اُس کے سر پر کھڑکھڑا رہا ہے۔ پرتیوں کا بسیرا… ’’پچھلے آٹھ سو برس کی ہماری تہذیبی تخلیق…‘‘ اداس روحوں کا مسکن… بوڑھے مندر کے کنارے مندر کا اندھا پردہت (یہی ہے، اس نے میرا بیاہ کرایا تھا) منڈیر پر کھڑا دہاڑ رہا ہے۔ شرم رام اور سیتا مہارانی، بندھیاچل کے بنوں میں کھو گئے۔ ہری ہر… ہری ہر… ہری ہر… دُہائی ہے۔ دُہائی… گورکھ املی نے زور کا ہنکارا بھرا۔ اس کی ڈرائونی چھائوں میں کپالی بیٹھے ہیں۔ کپالیوں کی آل انڈیا کانفرنس، ڈائس پر تنترک عملیات کا عود سُلک رہا ہے۔ اَن گنت کپالی۔ ایک کپالی کھڑکی میں سے اندر کود آیا۔ لودم لگائو۔ نو، تھینک یو۔ میں نے آج تک سگریٹ بھی نہیں چکھا۔ سگریٹ پیا جاتا ہے۔ چکھا نہیں جاتا۔ بیوقوف۔ لو ایک سُوٹا۔ لگے دم۔ مٹے غم۔ معاف کیجئے گا آپ مداری یا دیشنو؟ الکھ نرنجن۔ آما پرانیر آرام مونیر آنند۔ آتما رہتیا۔ اکسکیوزمی۔ آپ کی داڑھی تو بالکل پٹ سن کی معلوم ہوتی ہے۔ ہاہاہا۔ نقلی سادھو۔ نقلی راجہ، نقلی سنگھاسن۔ آآآ۔ سب جگ نقلی۔ سب جگ دھوکا۔ ساری دنیا گورکھ دھندا۔ اُلجھن میں لے کام سمجھ سے۔ کھل جائے گا پھندا۔ ہارمونیم خوب زور سے بج رہا ہے۔ مائی نیم مِس ہری متی۔ سارے کپالی کھوپڑیوں کی مالائیں پہنے، ترنگے، ہرے اور لال پھریرے اڑاتے گھنٹیاں بجاتے، انڈر گرائونڈ مٹھ میں اُتر گئے۔ تم نے آنند مٹھ پڑھا ہے؟ ترکی ٹوپی والا جوکر۔
چلتی چلتی وہ دریا پر آگئی۔ سامنے سُرخ لہروں پر ہری نائو بنا پتوار بہے جاتی ہے۔ نائو پر انگریزی میں لکھا ہے۔ ’’ایس ایس علادل‘‘۔ بھئی واہ۔ نائو بہے جارہی ہے۔ بے آواز۔ منظر میں سے سائونڈ غائب۔ بھیانک۔ وہ خودکشتی میں بیٹھی ہے۔ اچانک دھماکہ۔ اب دِنگ میں سے لالن شاہ گاتا ہوا نمودار ہوتا ہے۔ لالن شاہ جادوگر۔ سیکڑوں برس ہوئے مر گیا۔ پھر بھی گا رہا ہے۔ دھندلی شکل ہیولا۔ کتنا ہی غور سے دیکھو۔ صاف نظر نہیں آئے گا۔ میں عشق ہوں۔ ناقابل فہم۔ غیر مرئی۔ گرفت سے باہر۔ لالن شاہ ڈائیلاگ بول رہا ہے۔ اس کے دھواں ایسے ہاتھ میں کدم کا پتہ ہے۔ دل کی شکل والا کدم کا پتہ۔ کیا گاتا ہے۔ لالن شاہ کہ میرے پاس شیشے کا ایک گھر ہے۔ اس میں میرا پڑوسی رہتا ہے۔ اسے میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ میرے اور اس کے درمیان گہرا دریا حائل ہے۔ اس دریا کو کیسے پار کروں۔ کاش وہ خود ہی میرے پاس آجائے۔
ادبھائی رے۔
اب وہ دوسری طرف کروٹ بدلتی ہے۔ سامنے گھڑیاں ہی گھڑیاں۔ گھڑیالوں کی فوج۔ ہر گھڑیال کی پشت پر ایک ایک سیلولائیڈ کا کام دیو سوار (گھڑیال کام دیو کی سواری ہے) ہے۔ جاپانی کام دیو۔ بوگس۔
تاریک طویل رنگ برنگی سُرنگ، اندھکار، سمدر، میں اس دریا میں ڈوب جائوں تو مجھے جل سمادھی دینا۔ ہے (کرشن جی) بن مالی۔
پتوار بغیر نائو کے بہہ گئی۔ نائو ندی کے رواں ہے۔ چراغ بنالو کے روشن ہے۔ لو بنا چراغ کے جل رہی ہے۔
جنگل کا جنگل چل رہا ہے۔ ندی کے مانند بہتا ہے۔ اور ندی ساکت ہے اور انسان درختوں کی طرح جمے کھڑے ہیں۔
ہاتھی۔ سیاہ ہاتھیوں کی قطار۔ مٹی کا کالا ہاتھی، سُرخ تالاب کے کنارے کھڑا احمقوں کی طرح کان ہلارہا ہے۔ دھماکہ۔ دِنگ میں چھپالالن شاہ پھس پھسی آواز میں (گاتے گاتے اس کا کلا بیٹھ گیا) کہتا ہے۔ جہاں آرا آدھی رات کو اسی تالاب میں ڈوب کر مر گئی۔ اب لالن شاہ انگریزی میں انائونس کررہا ہے۔ نواب زادی جہاں آرا بیگم کو قتل کردیا گیا۔ مرڈراِن کولڈ بلڈ… زندہ ہے مگر جیتے جی مر گئی۔ ایک اور دھماکہ… رعد کی کڑک۔
وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ باہر زور سے بجلی چمکی۔ بادل گرج رہے تھے۔ اُس کا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس نے پیشانی پر ہاتھی پھیرا۔ دہشت سے چاروں طرف نظر ڈالی۔ اس کی روم میٹ ابانی دوسری کھڑکی کے نیچے اپنے پلنگ پر بے خبر سورہی تھی۔ وہ چند منٹ تک ساکت وصامت بیٹھی رہی۔ باہر تاریک آسمان پر بادل پھٹے اور چاند کی جھلک دکھائی دی۔ پھر چاند کھڑکی میں سے اس طرح جھانکنے لگا۔ جیسے بادلوں میں سے پھسل کر کمرے میں آن گرے گا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید چاند مجھے کوئی جواب دے۔ رات کوئی فیصلہ سنائے۔ اس نے رات کی گرج دار سمفنی پر کان لگادیئے۔ نہیں۔ اس نے پلکیں جھپکائیں۔ نہیں۔ میں اپنے جسم، اپنے دماغ، اپنے پریشان خوابوں میں مقید ہوں۔(جاری ہے)