احمد فراز
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا
آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا
وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں
ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا
قابل اجمیری
دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہو گا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہو گا
ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے
مگر طوفان جا پہنچا لبِ ساحل تو کیا ہو گا
شرابِ ناب ہی سے ہوش اڑ جاتے ہیں انساں کے
ترا کیفِ نظر بھی ہو گیا شامل تو کیا ہو گا
ابھی تو راہرو محوِ سفر ہیں شوقِ منزل میں
مگر جب سامنے آ جائے گی منزل تو کیا ہو گا
یہ دریائے محبت ہے یہاں اہلِ سفینہ کو
غمِ طوفاں نہیں ہوتا غمِ ساحل تو کیا ہو گا
خود اس کی زندگی اب اس سے برہم ہوتی جاتی ہے
انہیں ہوگا بھی پاسِ خاطرِ قابل تو کیا ہو گا
یزدانی جالندھری
صحنِ چمن میں ہر سو پتھر
پھول تو پھول ہے خوشبو پتھر
آج اک ایک کرن پتھرائی
سورج تارے جگنو پتھر
پتھرائے پتھرائے چہرے
آنکھیں پتھر آنسو پتھر
میری جانب ہر جانب سے
آئے ہیں بے قابو پتھر
راہِ وفا پر چلنا مشکل
ہر سو کانٹے ہر سو پتھر
اہلِ جفا سے ہاتھ ملاتے
ہو گئے میرے بازو پتھر
اس ماحول میں گر جینا ہے
یزدانیؔ ہو جا تو پتھر
اعجاز رحمانی
اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے
کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھا
معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے
وہ شخص جو کسی مسجد میں جا نہیں سکتا
تو اپنے گھر میں ہی کچھ روز اعتکاف کرے
وہ آدمی تو نہیں ہے سیاہ پتھر ہے
جو چاہتا ہے کہ دنیا مرا طواف کرے
وہ کوہ کن ہے نہ ہے اس کے ہاتھ میں تیشہ
مگر زبان سے جب چاہے وہ شگاف کرے
میں اس کے سارے نقائص اسے بتا دوں گا
انا کا اپنے بدن سے جدا غلاف کرے
جسے بھی دیکھیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے
کوئی تو ہو مری وحشت کا اعتراف کرے
میں اس کی بات کا کیسے یقیں کروں اعجازؔ
جو شخص اپنے اصولوں سے انحراف کرے
اجمل سراج
بجھ گیا رات وہ ستارا بھی
حال اچھا نہیں ہمارا بھی
یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں
اس میں کچھ دخل ہے تمہارا بھی
ڈوبنا ذات کے سمندر میں
ہے یہ طوفان بھی کنارا بھی
اب مجھے نیند ہی نہیں آتی
خواب ہے خواب کا سہارا بھی
لوگ جیتے ہیں کس طرح اجملؔ
ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی
اے جی جوش
گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
عمرِ خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن
جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن
اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے
کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن
پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل
کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن
جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں
ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن
اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا
اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن
وحید الہ آبادی
کچھ کہہ کے اس نے پھر مجھے دیوانہ کر دیا
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
وہ شب کو بے حجاب جو محفل میں آ گئے
کیا نور تھا کہ شمع کو پروانہ کر دیا
اس دل کی ہے بہار و خزاں ان کے ہاتھ میں
گلشن بنا دیا کبھی ویرانہ کر دیا
چاہا جسے کہ دل سے یہ ہو جائے آشنا
دونوں جہان سے اسے بیگانہ کر دیا
کیا میرے دل کے ساتھ کیا عشق نے سلوک
اک آشنا تھا اس کو بھی بیگانہ کر دیا
پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی
ورغلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
شامیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
لان میں تین گدھے اور یہ نوٹس دیکھا
گھاس کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے یہ خبر سنائی
ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بے اجازت جو مچاؤ تو بصد شوق مچاؤ
غل مچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اٹھتے اٹھتے وہ مجھے روز جتا دیتے ہیں
روز آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی
پھر تو تم سر پہ اٹھا لو گے زمانے بھر کو
سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
آپ کا گھر ہے، رہیں شوق سے اس میں، لیکن
بیچ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اپنی کُشتی ہو میاں لاکھ فری اسٹائل
کاٹ کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بس تمہیں اتنی اجازت ہے کہ شادی کر لو
شاخسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے تجدیدِ تمنا کی ہوا آتی ہے
دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
مکتبِ فکر ہے اسکول نہیں ہے صاحب
قومیانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے مورال مسلمان کا گر جاتا ہے
دال کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ان کے ارشادِ گرامی کو عنایتؔ سن کر
مسکرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی