خوب صورت پھولوں سے آراستہ اسٹیج، اے سی کی ٹھنڈک سے یخ ہوتا شادی ہال، دیدہ زیب کپڑوں میں ملبوس مرد و خواتین کے ہنستے مسکراتے چہرے، بھاگ دوڑ کرتے بچے۔ تھوڑی دیر کے لیے احسن اپنی زندگی کی سب تلخیوں کو بھول کر دوستوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ شہر کے سارے خوش باش لوگ اس چھت کے نیچے جمع ہیں۔
دفعتاً ہال کی تمام لائٹیں بند کردی گئیں، ہلکی موسیقی کا والیوم بڑھا دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ دلہا، دلہن کی انٹری ہورہی ہے۔ خاصے رومانوی انداز میں نوبیاہتا جوڑا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خراماں خراماں آگے بڑھ رہا تھا۔ مخصوص زاویے سے روشنی صرف ان دونوں پر ڈالی جارہی تھی۔ کیمرہ مین اور مووی میکر ہر، ہر زاویے سے ان یادگار لمحوں کو محفوظ کررہے تھے۔ جیسے ہی دلہا، دلہن اسٹیج پر آئے ان پر پھولوں کی بارش کی گئی، Snow Spray کیا گیا، اور بھی بہت کچھ۔
چند رومانٹک پوز بنوائے گئے تب کہیں جاکر دلہا، دلہن کو بیٹھنے کی اجازت ملی اور شادی ہال کی روشنیاں آن کردی گئیں۔
احسن بہت دل چسپی سے یہ مناظر دیکھ رہا تھا۔ ویٹروں نے تیزی سے بوفے ٹیبل پر کھانا لگانا شروع کردیا۔ تکے، بریانی، قورمے کی اشتہا انگیز خوشبو نے احسن کو بھوک کا احساس دلایا۔ گھر میں تو وہ لوگ رات کا کھانا جلدی کھا کر دس بجے تک سو جاتے تھے، جب کہ یہاں رات کے گیارہ بج گئے تھے۔
ویٹروں نے ڈشوں کے ڈھکن ہٹائے اور سب لوگ اپنی اپنی پلیٹ لے کر بوفے ٹیبل کی جانب لپکنے لگے۔ احسن بھی پلیٹ لے کر بریانی کی ڈش کی طرف مڑا اور ایک ویٹر سے ٹکرا گیا جو بریانی ڈال کر مڑ رہا تھا، دونوں نے بے ساختہ ایک دوسرے کو سوری کہا۔ احسن پلیٹ واپس رکھ کر شادی ہال سے باہر نکل گیا۔
’’امی! آج میرے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے، آپ اور ابو 11 بجے اسکول آجایئے گا۔‘‘ احسن نے اسکول کے لیے نکلتے ہوئے فاکہہ کو یاد دلایا۔
’’ہاں بیٹا! مجھے یاد ہے۔‘‘ فاکہہ نے جواب دیا۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کے سربراہ صفدر حسین ایک دفتر میں کلرک تھے۔ ان کی بیوی فاکہہ، بچے احسن‘ علی اور سنابل اس گھر میں رہتے تھے۔ احسن ان کی پہلی اولاد تھی اس وجہ سے اسے اچھے پرائیویٹ اسکول میں داخل کروایا۔ چند سال بعد علی اس دنیا میں آیا، جب اُس کے اسکول میں داخلے کا وقت آیا تو بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً اُسے محلے کے عام سے پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ بعدازاں سنابل پیدا ہوئی تو تین سال بعد اس کو بھی علی کے اسکول میں ہی داخل کروا دیا گیا۔
احسن ماں باپ کا بے حد چہیتا تھا۔ پہلے تو صفدر اور فاکہہ ہر اتوار کو بچوں کو پارک یا فن لینڈ ضرور لے کر جاتے تھے، پھر جیسے جیسے مہنگائی زیادہ ہونے لگی تو اب صرف مہینے میں ایک بار اتوار کو کسی تفریحی مقام پر جاتے تھے۔ گزشتہ مہینے بجلی کا بل اتنا زیادہ آگیا کہ مجبوراً اس مہینے کی تفریح ملتوی کرنا پڑی۔
احسن شروع سے اپنے ابو کے زیادہ قریب رہا تھا، حالانکہ اب وہ میٹرک کا طالب علم تھا مگر اب بھی ابو کی توجہ چاہتا تھا۔ چند مہینوں سے صفدر صاحب نے بچوں کو نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا۔ صبح بھی جلدی گھر سے نکل جاتے اور رات کو بھی دیر سے گھر آتے، بچوں سے ان کی ملاقات اتوار کو ہی ہوتی تھی۔ احسن بھی شکوہ کرتا تو اس کے جواب میں وہ ’’دوستوں کے ساتھ تھا‘‘، کبھی ’’دفتر کا کام تھا‘‘، کبھی ’’ایمرجنسی ہوگئی تھی‘‘، کہتے۔
احسن دل ہی دل میں ابو سے ناراض رہنے لگا تھا۔ اتوار کو بھی ابو سودا سلف میں مصروف ہوجاتے، کسی اتوار کو الیکٹریشن کا کوئی کام ہوتا، کبھی پلمبر کا کام، کبھی خاندان کی خوشی غمی میں شرکت کے لیے امی کے ساتھ چلے جاتے۔ بچے گھر میں ہی ہوتے تھے۔
اس دن PTM میں فاکہہ اکیلی ہی گئی تھیں جب کہ سب بچوں کے امی، ابو آئے تھے۔ گھر آکر احسن یونی فارم بدلے بغیر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔
’’احسن بیٹا! کھانا کھا لو، میں دستر خوان بچھا رہی ہوں۔‘‘ امی نے آواز لگائی۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے، آپ لوگ کھا لیں۔‘‘
’’کیا بات ہے احسن؟‘‘ امی نے اس کی آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ اکیلی اسکول آگئیں، ابو کیوں نہیں آئے؟ میرے لیے تھوڑا سا ٹائم نہیں نکال سکتے تھے؟‘‘ حسن پھٹ پڑا۔
’’بیٹا آفس سے چھٹی نہیں ملی ہوگی، کوئی ضروری کام ہوگا جب ہی وہ نہیں آئے۔ تم ناراض نہ ہو، کھانا تو کھا لو۔‘‘ امی نے پیار سے کہا۔
’’مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔ ابو مجھ سے پیار نہیں کرتے۔ بس آفس، دوست، گھر کے کام… یہ سب عزیز ہیں انہیں۔‘‘ احسن کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
’’اچھا… اچھا ٹھیک ہے، میں رات کو ضرور بات کروں گی، اب آئندہ وہ تمہارے اسکول بھی آئیں گے اور تمہیں ٹائم بھی دیں گے۔ چلو میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہوں۔‘‘ فاکہہ نے لقمہ بنا کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔
رات ایک بجے صفدر گھر میں داخل ہوئے۔ فاکہہ نے گہری نیند سے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ کھانے کا پوچھا۔ صفدر نے انکار کردیا تو فاکہہ دوبارہ سوگئیں۔ صبح فجر کے وقت فاکہہ اٹھیں، صفدر کو ناشتا دیا اور کل اسکول نہ آنے کی وجہ پوچھی۔
’’باس نے نیا شوشا چھوڑا ہے کہ جو بھی دفتر سے ایک گھنٹے کے لیے کسی ذاتی کام سے جائے گا اس کی تنخواہ سے 500 روپے کی کٹوتی ہوگی، اس وجہ سے میں نہیں آیا۔ پہلے ہی مشکل سے گزارا ہوتا ہے، خوامخواہ 500 روپے کٹ جائیں گے تو مزید پریشانی ہوگی۔‘‘ صفدر جلدی سے نکل گئے۔
فاکہہ نے بچوں کو اٹھاکر اسکول کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کی اور جلدی سے ناشتا بنا کر دستر خوان پر رکھا۔
احسن تیار ہوکر آیا تو اسے صفدر صاحب کا جواب سنا دیا۔ احسن خاموش ہوگیا۔
’’امی! اس اتوار کو ہم ’’ونٹر لینڈ‘‘ ضرور جائیں گے، آپ ابو سے کہہ دیں، کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ میرے اسکول کے سب دوست ونٹر لینڈ جا چکے ہیں، بس میں ہی رہ گیا۔‘‘ احسن نے دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے امی سے کہا۔
’’ہاں ہم ضرور جائیں گے امی۔‘‘ علی اور سنابل بھی احسن کے ہم آواز ہوگئے۔
’’ہاں… ہاں ٹھیک ہے میں تمہارے ابو سے کہہ دوں گی۔‘‘
رات کو فاکہہ نے صفدر کو بچوں کے پروگرام سے آگاہ کیا۔ صفدر نے حساب لگایا تو خاصا خرچا تھا۔ ’’اللہ مالک ہے‘‘ کہہ کر وہ بستر پر دراز ہوگئے۔
’’امی! ریفریجریٹر کی لائٹ نہیں جل رہی، بوتلیں بھی زیادہ ٹھنڈی نہیں، جب کہ بجلی تو آرہی ہے۔‘‘ علی نے باورچی خانے میں روٹیاں پکاتی فاکہہ سے کہا۔
’’صبح تو ٹھیک تھا، میں ابھی دیکھتی ہوں۔‘‘ کچن کے کام سے فارغ ہوکر فاکہہ نے سوئچ بورڈ چیک کیا، تار اور پلگ چیک کیا… سب ٹھیک تھا۔ احسن کو بھیج کر فریج ٹھیک کرنے والے لڑکے کو بلایا۔
’’کمپریسر کام نہیں کررہا فریج کا، اور گیس بھی کم ہوگئی ہے، 8 ہزار کا خرچا ہوگا، دونوں کام کردوں گا۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’اچھا بیٹا! ابھی تم جائو، احسن کے ابو رات کو آئیں گے تو میں اُن سے بات کروں گی، پھر وہ تم کو بلا کر ٹھیک کروا لیں گے۔‘‘ فاکہہ نے کہا۔
’’لو بیٹھے بٹھائے یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا، اچھا خاصا ٹھیک چل رہا تھا فریج، اتنی گرمی میں فریج کے بغیر گزارا بھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ فاکہہ پریشان ہوگئیں۔
’’چلو اللہ مالک ہے، تم تینوں اسکول بیگ لے کر آجائو اور اپنا ہوم ورک کرلو۔‘‘ فاکہہ نے بچوں سے کہا۔
کچھ رقم صفدر کے پاس تھی، باقی دوست سے ادھار لے کر اتوار کو فریج ٹھیک کروایا اور ونٹر لینڈ کا پروگرام اگلے مہینے کے کسی اتوار پر ٹل گیا۔ احسن پھر اداس ہوگیا۔ فاکہہ نے اس کی پسند کے چائنیز رائس اور چکن شاشلک بناکر اس کا موڈ ٹھیک کیا۔
احسن کے دوست فہد کی بہن کی شادی تھی، اس نے سب دوستوں کو اصرار کرکے بلایا تھا۔ سب دوست وقت پر تیار ہوکر ٹیکسی لے کر شادی ہال پہنچ گئے تھے۔ سب دوست بہت خوش تھے اور انجوائے کررہے تھے۔ کھانا کھلا تو سب اپنی پلیٹوں میں بریانی، تکے لے کر واپس اپنی سیٹ پر آئے تو احسن نظر نہیں آیا۔ سب نے ایک دوسرے سے پوچھا مگر سب ہی لاعلم تھے۔ احسن کا موبائل بھی بند تھا۔
احسن بائیکیا سے گھر پہنچا، امی کچن سے برتن دھو کر اب سونے جارہی تھیں۔ گھنٹی بجی تو دروازہ کھولا۔
’’احسن بیٹا! اتنی جلدی آگئے! ابھی تو بارہ بھی نہیں بجے۔‘‘ فاکہہ کے سوال کا جواب دیے بغیر وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا، پھر کپڑے بدل کر بستر پر دراز ہوگیا۔ فاکہہ سمجھیں تھک گیا ہے، وہ بھی اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئیں۔
احسن کو کسی کروٹ چین نہیں آرہا تھا۔ بار بار کروٹیں بدل کر بھی تھک گیا تھا۔ رات کے دو بجے تھے جب دروازے کی گھنٹی بجی۔ فاکہہ نے دروازہ کھولا، صفدر اندر آگئے۔
’’کھانا لائوں آپ کے لیے؟‘‘ فاکہہ نے روز والا سوال دہرایا۔
’’کھانا تو یہ شادی ہال سے کھا کر آئے ہوں گے؟‘‘ احسن کی آواز آئی۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو احسن! یہ تو دوستوں کے پاس گئے تھے، نہ کہ شادی میں؟‘‘ فاکہہ نے حیرت سے کہا۔
’’پوچھیں ان سے، یہ شادی ہال میں کیا کررہے تھے؟‘‘ احسن نے طنزیہ انداز میں کہا۔
فاکہہ کبھی صفدر کو دیکھتیں کبھی احسن کو۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ صفدر چپ تھے۔
’’میں بتاتا ہوں، فہد کی بہن کی شادی میں یہ ویٹر کا لباس زیب تن کیے کھانا سرو کررہے تھے۔‘‘ احسن نے انکشاف کیا۔
’’کیا…؟‘‘ حیرت سے فاکہہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
صفدر مجرموں کی طرح صحن میں پڑے تخت پر بیٹھ گئے۔
’’صفدر کچھ بولیں نا، احسن کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ فاکہہ نے التجا کی۔‘‘
’’اچانک احسن، صفدر کے قدموں کے پاس بیٹھ گیا اور ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر رونے لگا۔
’’ابو! آپ ہمارے اسکول کی فیس اور گھر کے اخراجات کی وجہ سے یہ پارٹ ٹائم جاب کررہے ہیں اور ہم سب بے خبر یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ دوستوں میں وقت گزاری کرنے جاتے ہیں، اور میں دل ہی دل میں آپ سے ناراض تھا۔ ابو! بتائیں آپ نے ہم کو بے خبر کیوں رکھا؟ اکیلے سارا بوجھ اٹھاتے رہے۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر آپ کی مدد کرتا۔‘‘ احسن دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔
’’نہیں بیٹا! تم ابھی چھوٹے ہو، یہ سال تمہاری پڑھائی کے لیے بہت اہم ہے۔ میٹرک میں اچھے گریڈ سے پاس ہوگئے تو آگے اچھی تعلیم کے مواقع ملیں گے، اس لیے میں نے کسی کو نہیں بتایا۔‘‘ صفدر نے احسن کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’صبح اتنی جلدی آپ گھر سے نکل کر کہاں جاتے ہیں؟‘‘ فاکہہ نے سوال پوچھا۔
’’صبح فجر کی نماز کے بعد دو گھنٹے بائیکیا چلاتا ہوں، اس طرح چار، پانچ سو روپے مل جاتے ہیں، پھر دفتر جاتا ہوں۔‘‘ صفدر نے آہستہ سے کہا۔
’’بس ابو اب آپ اتنی محنت نہیں کریں گے، میرے میٹرک کے امتحان ہوجائیں تو میں کوچنگ سینٹر میں ٹیوشن پڑھا کر آپ کا ہاتھ بٹائوں گا۔‘‘ احسن کے لہجے میں کچھ کرنے کا عزم تھا۔
صفدر نے اسے گلے سے لگا لیا۔