آب بحر

156

نقرئی کنٹھی میں جڑے نیلگوں پتھر پر اس کی نگاہیں جمی تھیں، قطروں کی شکل میں وہ کسی جَل پری کا زیور لگتی تھی۔ خود وہ بھی پری جیسی نازک تھی۔ جوہری جان چکا تھا کہ پسند کی قیمت لینے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔

’’یہ ایکوا میرین ہے، آپ اسے اپنی زبان میں آبِ بحر کہیں یا بیروج۔ نام جو بھی دیں لیکن فوائد بہت ہیں۔‘‘ بندہ دیکھ کر تجارتی جملے تھے۔ شے کی یا شخصیت کی مدح سرائی اس وقت کام نہیں آئی، حالانکہ وہ بے شک اچھا بیوپاری تھا۔

وہ نہ جانے کہاں تھی، سن بھی رہی تھی یا نہیں! وہ سمجھ رہا تھا کہ مال منہ مانگی قیمت پر بس بکا ہی چاہتا ہے، لیکن کہاں جانتا تھا کہ اس مالا کے ہر قطرے پر وہ شفاف سی نیلی پتلیاں اسے دِکھ رہی تھیں جن میں غم اور دہشت کے رنگ آتے جاتے اس نے دیکھے تھے، وہ آنکھیں بالکل ایسے ہی رنگ کی تھیں، اتنی ہی حسین بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

پچھلے ماہ ہی تو اس کے ساتھی فوٹو گرافر نے لائیو وڈیو میں اس کی ملاقات رفح کے کیمپ میں موجود بچوں سے کرائی تھی۔ تباہی کے اس کھنڈر میں حوصلے، پاکیزگی اور حُسن اس درجے پر ان ننھے انسانوں کو خدا اس فراوانی سے دے سکتا ہے، اسے حیرت تھی۔

’’کون کہتا ہے موت دہشت ہے؟‘‘ اس نے آنکھ کی نمی کو آستین سے صاف کرتے ان نیلگوں، سبز اور زرد آنکھوں والے بچوںکو وڈیو میں دیکھتے سوچا۔

ہر طرف ملبہ اور اضطرابی کیفیت کا سماں تھا۔ انسان خوف میں گھر جاتے اور پھر اللہ ان پر سکینت نازل کرتے تسلی دیتا۔ وہ راکھ بنتے طوفان اٹھانے کو تیار ہوجاتے۔

دو دن وڈیو میں سعد اللہ سے بات کرکے وہ ڈپریس ہوگئی۔ اس چھ سالہ بچے کا پورا خاندان لاتعداد خاندانوں کی مانند ہلاک ہوچکا تھا۔ جب وہ اپنی کہانی سنا رہا تھا تو اس کی آواز آنسوئوں میں ڈوب جاتی اور ساتھ سننے والوں کا دل بھی۔

جتنا وہ سنتی، اتنی ہی وحشت اسے اپنی رگوں میں اترتی محسوس ہوتی۔ دس دن بعد اس کی شادی تھی، ماں باپ کو اس کا ہر وقت لیپ ٹاپ سے جڑے رہنا سخت ناپسند ہورہا تھا۔ ’’ہمدردی کرنا غلط نہیں لیکن اپنے کام چھوڑنا بہت غلط ہے‘‘۔ ماں دن میں کئی بار اسے سناتی۔ ’’غزہ پر تمہاری ان رپورٹس سے کیا تبدیلی آجائے گی؟‘‘ پورا گھر اس کے الجھے بالوں اور ملگجے کپڑوں پر ناپسندیدہ نظر ڈالتے کہتا، مگر اسے تو جیسے کسی کی پروا ہی نہ رہی تھی۔

’’شاید میں کچھ کرسکوں… شاید دنیا کے ظالموں کے تخت کی ایک کیل اکھاڑ دوں تو پھر سعد اللہ کو بتاؤں، اس کی آبی پتلیاں شاید قرار کا کوئی رنگ پالیں۔‘‘

اگر اس کی شادی طے نہ ہوچکی ہوتی تو وہ رپورٹنگ کرنے خود اس سرزمین پر جاتی جہاں اس کا ساتھی جا چکا تھا، جس نے ہر دن اس سے وڈیو رابطہ کرکے وہاں کے مناظر دکھائے۔ وہاں ہر بچہ سعد اللہ تھا، آگ تھی اور عشق کے امتحان۔

’’مما! کیا انسان سرزمین سے ایسا عشق کرسکتا ہے جیسے فلسطینی کرتے ہیں؟ یہ دیوانگی نہیں؟‘‘

‘‘مجھے عشق وشق کا نہیں پتا لیکن ان کے حوصلے انسانی نہیں۔‘‘ ماں کے لہجے میں بے زاری لیکن بات میں سچائی ہوتی۔ وہ اعلیٰ سرکاری آفیسر کی بیوی تھیں جس نے اُن سے مذہب کے اختلاف کے باوجود شادی کی تھی۔ دو مختلف مذاہب کے ماں، باپ کے درمیان پل کر جوان ہوئی اولاد کسی ایک عقیدے کو بھی حتمی طور پر اپنا نہ سکی۔

ماں، باپ کے لیے کوئی اولاد دردِ سر نہ بنی سوائے اُس کے، جو صحافی بھی بنی تو حق اور انصاف کی باتیں زبان سے کم اور جان سے زیادہ کرتی۔ ان کو ڈر تھا یہ ’’انتہا پسندی‘‘ کی طرف جاکر اپنا شاندار مستقبل داؤ پر نہ لگا دے۔

اس کی شادی بھی مسئلہ بن چکی تھی، پورا مہینہ ہوچکا تھا وہ براہِ راست رابطے پر مبنی رپورٹس لکھنے میں دن رات مصروف تھی۔ اس نے ہر اُس در تک پہنچنا چاہا جہاں وہ اپنے باپ کی طاقت اور اختیار کے بل پر جا سکتی تھی، طاقت ور زبان میں لکھا، مدلل انداز میں لکھا، ضمیر جھنجھوڑے، روح کو آواز دی، لیکن پھر بھی سعداللہ نہ بچ سکا، کیمپ پر آگ برسا دی گئی اور زندہ انسان شعلوں میں بھون ڈالے گئے۔

سعداللہ کی نیلگوں آنکھیں جو آبِ بحر جیسی تھیں، بلند شعلوں کے درمیان چھپ گئیں اور وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آسمانوں میں چھپ گیا۔

وہ یہ سب مناظر دیکھ کر روتی رہی، لوگ اس کو خبطی کہنے لگے۔ ہونے والے سسرال تک یہ باتیں پہنچیں تو انہوں نے شاپنگ کے بہانے اسے ٹٹولنا چاہا، وہ خول میں اس طرح بند رہی کہ کوئی نہ جان سکا وہ کیا سوچ رہی ہے۔

طوفان آیا تو کب آیا جب سنار نے زیورات کے نمونے سامنے رکھتے اس کی مومی رنگت اور جامد تاثرات میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے اپنا ہنر آزمایا، پرکشش نمونے اور ترغیب دلاتے جملے۔

ایکوا میرین پتھر کی وہ مالا جس کی تاجر کو منہ مانگے داموں بکنے کی امید تھی اسے سسکا گئی۔ وہ اچانک کھڑی ہوگئی۔

’’نہیں لینا۔‘‘

آگے پیچھے دیکھے بنا وہ دکان سے نکل گئی۔

دھماکے، سسکیاں، آگ، چیخیں اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔

وہ نیلے قطرے

سعداللہ کی آنکھیں!

اس کا شہر!

اس کا یقین!

اس کی جنت!

سب اس کے وجود سے لپٹ رہا تھا… وہ ہانپ رہی تھی۔

سب حیران بھی تھے اور ناراض بھی۔ ممی پاپا کو سمدھیانے کے سامنے سخت شرمندگی ہوئی۔ پہلی بار پاپا نے اس کو عاق کرنے کی دھمکی دی تو وہ سن سی ہوگئی۔

دنیا میں رہنے کی قیمت اگر ظلم پر خاموش رہنا ہے تو بہتر راستے پر چلنے کی قیمت ادا کرنی تھی۔ اس نے یہ قیمت ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آسمان کی طرف ڈبڈبائی نظریں ڈالتے پہلی بار وہ یہ فیصلہ کرسکی کہ اسے کس دین پر قدم جمانے ہیں۔ اسے لگا سعداللہ کی نیلگوں آنکھیں اسے دیکھ کر خوش ہیں۔

حصہ