ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت مجلس مذاکرہ
’’پاکستان میں ڈومیسٹک ورکرز رائج لیبر لاز اور سوشل سیکورٹی سے یکسر محروم ہیں۔ باوجود اس کے کہ ڈومیسٹک ورکرز ہماری غیر رسمی اکانومی کا ایک بڑا حصہ ہیں ان کے بارے میں موجود قوانین عمل درآمد کا مکینزم نہ ہونے کے سبب غیر مؤثر ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت منعقدہ ڈسکشن فورم میں شامل شرکا نے کیا۔
’’ڈومیسٹک ورکرز پروٹیکشن لاز پر عملدرآمد کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مجلس مذاکرہ میں صدارت کے فرائض ہیومن رائٹس سندھ کی سیکرٹری تحسین فاطمہ نے انجام دیے جب کہ مہمانانِ خصوصی مس اکرم خاتون کے علاوہ محترمہ نزہت شیریں، شمیم ممتاز، شاہدہ ساجد، فرزانہ مناف، درخشاں صالح، منگلا شرما، نسیم بخاری، ناہید ناصر، حمیرہ اطہر، رفیعہ تاج، طلعت یاسمین، دردانہ تنویر، امبر نیازی، آسیہ گل، درخشاں صالح، ماریہ اسماعیل، شازیہ، اسما ادیب، رعنا خان اوردیگر شامل تھیں۔ سینئر صحافی شہر بانو نے وائس نوٹ کے ذریعے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
مجلس مذاکرہ کا آغاز رومیصا زاہدی کی تلاوت سے ہوا افراح عبدالقادر نے پریزنٹیشن کے ذریعے شرکا کو بتایا کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد کا مکینزم موجود نہیں۔ صوبے اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔کوئی مصدقہ ڈیٹا موجود نہیں ہے ، عملاً دیہی علاقوں میں بالخصوص ان ورکرز کو غلاموں کی طرح برتنا معمول ہے، جان لیوا تشدد کے واقعات بھی عام ہیں تاہم با اثر افراد جبر اور دباؤ کے ذریعے لین دین کر کے بچ جاتے ہیں۔
مجلس مذاکرہ میں شریک نمائندہ خواتین نے کہا کہ گھریلو ملازمین پاکستان میں بہت سے گھرانوں کے روزمرہ کے کام کاج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی اہم شراکت کے باوجود انہیں اکثر کام کرنے کے سخت حالات، کم سے کم قانونی تحفظ اور سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو ملازمین کو اکثر لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے فوائد سے باہر رکھا جاتا ہے۔ مخصوص قانون سازی کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ ان کے پاس رسمی معاہدوں، کم از کم اجرت کے تحفظات اور ملازمت کے تحفظ کی کمی ہے۔ بہت سے گھریلو ملازمین کو لگا تار کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، اکثر اوقات چھٹی بھی نہیں دی جاتی۔ یہ جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے بالخصوص وہ کم سن لڑکے اور لڑکیاں جو کسی قرض کی ادائی کے بدلے میں یا کسی غلطی پر بہ طور سزا رکھے جاتے ہیں‘ اُن کے حالات نا قابل بیان ہوتے ہیں۔
شرکا نے اس بات کو بھی تشویش ناک قرار دیا کہ دن رات رہنے والے گھریلو ملازمین اکثر غیر معیاری زندگی گزارتے ہیں‘ جنہیں عام طور پر بہت کم اجرت دی جاتی ہے، جو ان کی اپنی اور اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ تاہم اس میں کچھ استثنیٰ بھی ہے۔
شریک خواتین نے اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ جسمانی، جذباتی اور بعض اوقات جنسی استحصال کی رپورٹیں تکلیف دہ حد تک عام ہیں۔ بہت سے کارکنان انتقامی کارروائی یا ملازمت سے محرومی کے خوف سے ایسے واقعات کی اطلاع دینے سے کتراتے ہیں۔ گھریلو کام کی اکثر کم قدر کی جاتی ہے اور اسے ’ہنرمند مزدور‘ کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پیشے سے وابستہ افراد کی عزت اور وقار میں کمی ہوتی ہے۔شرکائے مذاکرہ نے اپنی سفارشات میں کہا کہ:
٭حکومت کو چاہیے کہ وہ جامع قوانین متعارف کرائے اور ان کو نافذ کرے جو خاص طور پر گھریلو ملازمین کے حقوق اور تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوں۔ اس میں معیاری معاہدوں، کم از کم اجرت کے ضوابط اور سماجی تحفظ کے انتظامات شامل ہونے چاہئیں۔
٭ گھریلو ملازمین کو پیشہ وارانہ تربیت تک رسائی فراہم کرنے سے ان کی مہارت کو بہتر بنانے اور ان کی ملازمت میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں انہیں ان کے حقوق کے بارے میں تعلیم دینا‘ انہیں منصفانہ سلوک کا مطالبہ کرنے کا اختیار دے سکتا ہے۔
٭عوامی بیداری کی مہمات کے ذریعے گھریلو ملازمین کے ساتھ سماجی رویوں کو تبدیل کرنے، ان کے تعاون کے احترام اور پہچان کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
٭گھریلو ملازمین کے لیے امدادی مراکز اور ہیلپ لائنز کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی اطلاع دے کر مدد حاصل کر سکیں۔
٭حکومت کو چاہیے کہ وہ گھریلو ملازمین اور ملازمت دینے والے گھرانوں کی باقاعدہ نگرانی اور معائنہ کے لیے کوئی میکانزم نافذ کرے تاکہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے لیے یو سی کی سطح پر رجسٹریشن کا نظام بنایا جائے رجسٹر ڈ ایجنسیوں کے ذریعے تقرریاں بھی مؤثر ہو سکتی ہیں۔
٭ غیر سرکاری تنظیمیں اور کمیونٹی گروپ گھریلو ملازمین کے حقوق کی وکالت کرنے، قانونی امداد فراہم کرنے، اور تعلیمی اور صحت کی خدمات تک رسائی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
٭ منصفانہ اجرت کی پالیسیوں کو نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کو یقینی بنانا گھریلو ملازمین کے مالی استحکام کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اسے مالیاتی خواندگی کے پروگراموں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے تاکہ ان کی کمائی کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد مل سکے۔
٭ایسے خاندان جہاں مرد عورتوں کو کمائی کا ذریعہ بنا کر ٹھیکے پر دیتے ہیں ان کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے۔
سینئر صحافی شہر بانو نے عدت میں ہونے کی وجہ سے موضوع پر اپنے آڈیو پیغام میں موجود اور ضروری قانون سازی کا تجزیہ پیش کیا۔ ساؤتھ پنجاب کی شہرت اس حوالے سے بالخصوص سرائیکی پٹی کی بہت قابل گرفت ہے۔
سیکرٹری ہیومن رائٹس سندھ محترمہ تحسین فاطمہ نے کہا کہ ہم ان شاء اللہ اس معاملے پر ہر ممکن تعاون کریں گے آپ اپنی سفارشات کے ساتھ میرے پاس آئیں ہم مل کر اس پر حکمت عملی بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے میں ایک دوسرے کے محتسب اور معاون بن جائیں تاکہ اپنے معاشرے کو ترقی کی راہ پر لے جا سکیں۔
مجلس مذاکرہ میں نظامت کے فرائض ٹرسٹ کی نائب صدر ریحانہ افروز نے انجام دیے۔ اختتامی کلمات کہتے ہوئے حمیرہ قریشی نے شدید گرمی کے باوجود بڑی تعداد میں شرکت پر تمام خواتین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا موضوع اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ کسی نہ کسی درجے میں ہم سب ڈومیسٹک ورکر کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں چنانچہ ریاست اور حکومت کو اپنی ذمے داریاں نبھانے پر متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر آگاہی مہمات کے ذریعے ہر دو فریقین کو اپنے رویوں‘ معاملات، صلاحیتوں میں اضافے اور اصلاح پر کام کرنا ہو گا۔ ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ ان شاء اللہ اس ضمن میں مزید اقدامات اور مسلسل کام جاری رکھے گا۔