فیروز ناطق خسرو کے اعزاز میں تقریب پذیرائی

116

طارق جمیل ایک علم دوست شخصیت ہیں‘ انہوں نے بزم شعر و سخن کے زیر اہتمام اپنے ساتھیوں کے تعاون سے لاتعداد مشاعرے اور ادبی پروگرام آرگنائز کیے‘ اس کے علاوہ وہ بزمِ مکالمہ کے تحت ہر ماہ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کرتے ہیں جس میں کسی بھی اہم موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک سال قبل ایک اور ادبی تنظیم حلقۂ اربابِ تخلیق کی جس کے سربراہ خالد میر ہیں۔ اسی تنظیم کے تحت طارق جمیل کے مکان پر فیروز ناطق خسرو کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس کے علاوہ انہوں نے فیروز ناطق خسرو کے بارے میں کہا کہ فیروز ناطق خسرو کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے‘ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ ان کی تمام شاعری میں زندگی رواں دواں ہے۔ انہوں نے زندگی کے حقائق بیان کیے ہیں‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ وہ جدید لفظیات استعمال کر رہے ہیں‘ ان کے کلام میں ندرت اور غنائیت پائی جاتی ہے۔ اس تقریب پزیرائی میں کلام مجید کی تلاوت اور نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی۔ طارق جمیل نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آج کی شام فیروز ناطق خسرو کے نام ہے جو کہ ادبی منظر نامے کا اہم حصہ ہیں۔ وہ طویل عرصے سے شاعری کر رہے ہیں‘ ان کا کلام زندگی کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے معاشرتی مسائل کے علاوہ غم جاناں بھی لکھا ہے‘ وہ زندگی کے تلخ و شیریں روّیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کی شاعری ہماری ذہنی آسودگی کا سامان ہے۔ انہوں نے افسانوں میں ہمار سلگتے ہوئے مسائل لکھے ہیں ان کے افسانوں کے تمام کردار اپنے لب و لہجے کے اعتبار سے زندہ معلوم ہوتے ہیں۔

خالد میر نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے ہے‘ ان کی زندگی علم و ادب کی خدمت میں گزری ہے‘ ان کی تمام کتابیں اردو ادب کے لیے اہم ہیں‘ ان کے افسانے ہماری روز مرہ کی زندگی سے مربوط ہیں‘ ان کی شاعری میں سچائیاں جلوہ گر ہیں۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو قادرالکلام شاعر ہیں‘ وہ دبستان کراچی کے معتبر شاعر ہیں۔

زاہد حسین جوہری نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو نے زندگی بھر علم و ادب کی ترویج و اشاعت کی انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ معاشرے میں امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ان کے افسانے زندگی کے مختلف مناظر کی عکاسی کرتے ہیں‘ وہ آسان الفاظ میں روانی کے ساتھ اشعار کہہ رہے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کی شاعری میں موسمِ بہار ہے وہ زندہ دل شاعری کر رہے ہیں‘ وہ منفی روّیوں کے خلاف ہیں‘ وہ پختہ قلم کار ہیں۔ انہیں شاعری ورثے میں ملی ہے۔ انہوں نے غزل کو آگے بڑھایا ان کے اشعار تازگی کا احساس دلاتے ہیں وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو لکھتے ہیں جن سے دوسرے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔

انجم عثمان نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو ہمارے دور کے اہم قلم کار ہیں۔ فیروز ناطق کی شاعری میں رومان پرور اشعار بھی ملتے ہیں اور موسمِ ہجر کے معاملات بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی کے تمام موضوعات کو زیر بحث بنایا ہے‘ وہ رثائی ادب میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔ انہوں نے واقعاتِ کربلا نظم کیا جس میں یہ پیغام دیا کہ حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کی قربانیاں پیش کیں لیکن یزیدیت کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے اشعار میں زندگی کے نشیب و فراز پائے جاتے ہیں۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کے یہاں ابلاغ کے مسائل نہیں ہیں ‘ وہ آسان زبان اور جدید اسلوب میں اشعار کہہ رہے ہیں‘ وہ اپنے خول میں بند نہیں ہیں بلکہ زندگی کی سچائیاں سے آشنا ہیں۔ وہ ایک مقبول شاعر ہیں‘ وہ اپنے کلام میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ آسان الفاظ میں زندگی کے مسائل پر اظہار خیال کر رہے ہیں‘ ان کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شاعری میں روایت‘ تہذیب اور شائستگی کا امتزاج نظر آتا ہے‘ ان کے ہاں غزل کا نیا آہنگ بھی نظر آتا ہے۔

فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ وہ حلقۂ اربابِ تخلیق کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے محفل سجائی۔ بلاشبہ یہ ادبی ادارہ قلم کاروں کی پزیرائی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ایک ایسا فن ہے جو کہ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں سب سے اہم ہے۔ شاعری کے ذریعے ہم معاشرے میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ اب شاعری میں زندگی حقائق لکھے جا رہے ہیں جن سے انسانیت آگے بڑھ رہی ہے۔ اس موقع پر فیروز ناطق خسرو کے صاحب زادے خرم علی پاشا نے کہا کہ ان کے والد نے ہمیں زندگی میں بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں انہوں نے ہمیں زندہ رہنے کا ہنر سکھایا۔ اختر سعیدی نے فیروز ناطق خسرو کے فن اور شخصیت پر منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بہت شان دار اشعار کہے۔ اس موقع پر فیروز ناطق خسرو کو شیلڈ اور اجرک پیش کی گئی۔ انہوں نے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر خوب داد وصول کی۔

حصہ