آخر شب کے ہم سفر

135

قسط:25

باغ چاروں طرف ڈول سا رہا تھا۔ دیپالی نے بروکیڈ کے بلاوز کی ایک آستین کا کنارہ موڑ کر سوئی کھوپنی جہاں آرا باورچی خانہ سے لوٹ کر کب آئی اور اس کے نزدیک بیٹھ کر کب سلائی کرنے لگی۔ اسے پتہ بھی نہ چلا۔ باغ بڑے سے جہاز کی طرح ڈول رہا تھا۔

سیمل کے نیچے سے روزی اٹھ کر گلاب خاص کے نیچے ’’’سنگھاسن‘‘ پر آن بیٹھی۔ یاسمین اب بندریا کی طرح تخت کی پشت کے برابر اکڑوں بیٹھ کر جنگلے میں بنی مورتیوں پر انگلیاں پھیرنے لگی۔

سیتل پاٹی پر بیٹھی لڑکی نے دلہن کا بلاوز تراشنا شروع کیا۔

’’اللہ کرے اب جلدی سے جہاں آرا بی بی کے جوڑے بھی سِِِلیں‘‘۔ قریب بیٹھی ملازمہ مالا نے ایک انگلی سے کپڑے کا کونا دباتے ہوئے کہا۔ جہاں آرا نے سر اٹھا کر غصے اور کرب سے اس پر نظر ڈالی اور اپنی سِلائی پر جھک گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ جنہیں اس نے چپکے سے اپنی ساری کے سُرخ کنارے سے پونچھ لیا۔

دیپالی نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔

’’اپنی شادی کے ذکر پر نہ جانے کیوں اس کا یہی ری ایکشن ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ میرے سامنے بھی رونے لگی تھی۔ جانے کیا بات ہے۔ کبھی کچھ بتاتی بھی نہیں‘‘۔ روزی نے چپکے سے اس کے کان میں کہا۔ دیپالی اپنے ہاتھوں کا رعشہ چھپانے کے لیے ذرا دوسری طرف مڑ گئی۔ مگر اس طرف گلابی کریب ڈی شین کے بکھرے ٹکڑوں میں سے کھلنا میں بنی سیتل پاٹی پر چھپا ہوا گلدار ہرن اُسے جھانکنے لگا۔

فریدہ ہار مونیم بند کرچکی تھی، باغ پر ایک دم بڑا سناٹا سا چھا گیا۔ ساری لڑکیاں سر جھکائے اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں۔

چند منٹ بعد باتونی اور بے چین یاسمین نے اس خاموشی کو توڑنا۔ کیسا FUNNY تخت ہے‘‘۔ اس نے جنگلے پر طبلہ بجاتے ہوئے اظہار خیال کیا۔

’’سنگھاسن بتیسی…!‘‘ گھاس پر بیٹھی ملازمہ مالا نے کھیسیں نکال کر کہا۔

’’کون چیز…؟‘‘ یاسمین نے پوچھا۔

’’راجہ بکرم جیت کا سنگھاسن‘‘۔ فریدہ نے سر اٹھا کر جواب دیا۔

’’اوہ…‘‘یاسمین نے مورتیوں کو غور سے دیکھتے ہوئے سر ہلایا۔

سیتل پاٹی پر بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے بھی دفعتاً باتیں شروع کردیں۔

’’امی ایک جوڑا فرشی پانجانے کا بھی رکھ رہی ہیں‘‘۔ اختر آرا فریدہ سے کہہ رہی تھی۔

’’اُدھر ہندوستان میں تو صرف غرارہ ہی پہنا جاتا ہے۔ ابا بتارہے تھے‘‘۔ انجم آرا نے جو کوٹھی سے واپس آچکی تھی۔ گھاس پر دو زانو بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’آپ کے پاس تو کئی فرشی پانجامے ہیں… ہیں نا آپا…؟ مگر آپا پہنتی ہی نہیں‘‘۔ اختر آرا نے کہا۔

’’اب بڑھاپے میں کیا خاک پہنوں گی‘‘۔ جہاں آرا نے تلخی سے کہا۔

’’اے لو… اور سنو…‘‘ فریدہ نے ذرا کھوکھلی آواز میں بُرا مانا۔

’’یاد ہے ایک دفعہ آپا نے عید پر غرارہ پہنا تھا…؟ جب ہم لوگ سب خالو جان کے ہاں نرائن گنج گئے تھے‘‘۔ اختر آرا نے انجم آرا سے کہا۔

(اُس عید پر اس نے کلکتہ سے حسب معمول شرارتاً ایک بے حد واہیات سا عید کارڈ بھیجا تھا۔ جس پر ہلال، کھجور کے درخت اور اونٹ کے منظر کے نیچے دو ہاتھ (ایک نسوانی ایک مردانہ) مصافحہ کررہے تھے اور برابر میں دو موٹے مسخرے نفیریاں بجا رہے تھے۔ کارڈ کی پشت پر اس نے اردو میں ایک سخت بازاری شعر لکھا تھا۔’’عید کا دن ہے، پتہ نہیں کیا… مجھے مصرعہ یاد نہیں ہے۔ گلے مل لو صاحب۔ رسم دنیا بھی ہے۔ موقع بھی ہے دستور بھی ہے‘‘۔ اس کی اردو ہینڈ رائیٹنگ کتنی کچی اور بچگانہ تھی۔ جہاں آرا ایک گھٹنے پر سر رکھ کر سلائی میں مصروف رہی۔)

’’چلو لڑکیو۔ دستر خوان لگ گیا…‘‘ برآمدے میں سے ایک بوڑھی ملازمہ نے پکارا۔

روزی ’’سنگھاسن‘‘ سے اُتر کر چیزیں سمیٹنے کے لئے سیمل کے نیچے چلی گئی۔

یاسمین ابھی تک سنگھاسن بتیسی کے تصور میں محو تھی۔ اس نے اچانک سر اُٹھا کر جہاں آرا اور دیپالی کو مخاطب کیا۔

’’آہا… آپا… دیدی۔ تم دونوں اور میں اس تخت پر بیٹھے ہیں نا۔ تو یہ PRETEND کرو کہ ہم تینوں پایوں والی مورتیاں ہیں جو راجہ بھوج اس لائق نہ ہوگا ہم اُسے اس تخت پر قدم بھی نہ رکھنے دیں گے‘‘۔

’’کیا دیوانی لڑکی ہے!‘‘ جہاں آرا نے ہنس کر کہا۔

دیپالی بلائوز ختم کرکے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تب جہاں آرا نے پہلی بار اس کی وحشت زدہ شکل دیکھی۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ ’’ارے دیپالی تمہیں کیا ہوگیا؟‘‘۔

کچھ نہیں بھائی۔ میرے سر میں بڑا سخت درد ہورہا ہے‘‘۔ اس نے شدید اُکتاہٹ اور تکان کے ساتھ اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔

’’ارے تو اوپر جا کر ذرا لیٹ رہو… کھانا پھر کھالینا‘‘۔

’’نہیں۔ میں اب گھر جائوں گی‘‘۔

’’ابھی سے؟ تمہیں ہو کیا رہا ہے بیٹھے بٹھائے؟‘‘

’’جہاں آرا‘‘۔ دیپالی کی آواز میں التجا تھی۔ ’’مجھے اب گھر جانے دو۔ اتوار کو بولپور واپس جانا ہے۔ اس کے لیے پیکنگ بھی…‘‘ وہ بات پوری کئے بغیر تھک کر چپ ہوگئی۔

’’ایک تو اتنے دنوں بعد آئیں۔ ساری چھٹیاں جانے کہاں کہاں سیر سپاٹے کرتی پھریں۔ اب بھاگی جارہی ہو۔ یہ کیا دھاندلی ہے۔ اطمینان سے بیٹھ کر آج گپ بھی نہیں ہوسکی‘‘۔ جہاں آرا نے دیپالی پر دوبارہ نظر ڈالی…‘‘ تم واقعی بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔ چلو جلدی سے چل کر کھانا کھا لو۔ پھر چلی جانا۔ مالا۔ اس نے ملازمہ کو آواز دی… ’’ڈرائیور سے کہو موٹر ادھر لا کر لگادے۔ دیپالی بی بی کو جلدی گھر جانا ہے۔ آئو…‘‘ اس نے دیپالی سے کہا۔

باقی لڑکیاں کام سمیٹ کر کوٹھی کے پچھلے دالان تک پہنچ چکی تھیں بوندا باندی شروع ہوگئی بارش کے پہلے قطرے تالاب کی سطح پر ننھے منے بھنور بنارہے تھے۔

روزی بھاگی ہوئی دیپالی کے پاس آئی… ’کیا ہوا…؟ کیا ہوا جہاں آرا؟‘‘

’’کچھ بھی تو نہیں…‘‘ دیپالی نے ذرا درشتی سے کہا۔ یہ میں کیا اپنا تماشہ بنارہی ہوں۔ اِس نے دل میں کہا۔ اور ’’راج سنگھاسن‘‘ سے اُتری… چلو دیپالی اُٹھو… اس نے حسب عادت خود کو مخاطب کیا… پھر بولپور پہنچنا ہے۔ چلو دیپالی سرکار دوسرا قدم آگے بڑھائو۔

وہ جہاں آرا اور روزی کے ساتھ کوٹھی کی سمت روانہ ہوگئی۔

(17)
گوڑ ملہار
جل تھل، نبھ، تال، بن اُپ بن، ندی، نالے، گری، گوہا، سب ہی کچھ، سارا بنگال دیس برکھارت میں ایک بیکراں دریا بن چکا ہے۔ شہر کی گلیوں میں نوکائیں چل رہی ہیں۔ کالے بادلوں کے نیچے طوفانی ندیاں بہتی ہیں۔ کائنات پھیل کر وسیع تر ہوگئی۔ فصلیں بونے اور بالیدگی اور تجدید اور شادابی کا موسم، پٹ سن کٹنے والا ہے، تنکے کی نوکیلی چھمبے دار ٹوپیاں اوڑھے کسان کھیتوں مین دھان بو رہے ہیں، محلوں دو محلوں، مکانوں اور جھونپڑوں میں ڈھولک بج رہی ہے۔ آبی راستوں کے چومکھے بلوریں جال پر باراتیں رواں ہیں۔ بانسریاں بجتی ہیں۔ امراء کی دلہنوں کی پالکیاں کشتیوں اور اسٹیھروں پر چڑھائی جارہی ہیں غریب باراتی شکستہ چھتریاں لگائے گاتے بجاتے شمپانوں میں لدے ایک گائوں سے دوسرے گائوں جارہے۔ برکھارُت، شادیوں کی رُت ہے، ہر برسات کی مانند اس برس بھی کتنے بندھن بندھیں گے۔ ان سب دلہنوں کی قسمتوں میں کیا لکھا ہے؟

گھر کی لکشمی، ہزار برس کی نیو بہوئوں نے سندھیا کال اپنے اپنے آنگنوں میں لکشمی کی اوتار تلسی کے گملوں کے سامنے چراغ جلادیئے۔

پچھلی صدیوں کی وہ سدا سہاگنیں جو زبردستی ستی ہونے چلیں اور اپنے گھروں کے دروازوں پر ریت کے مطابق لاکھ کے رنگ میں ڈبو کر اپنے داہنے ہاتھ کا نشان لگاتی گئیں، اندھیرے، جنگلوں میں دور افتادہ گاوئوں میں پرانے بوسیدہ مکانوں کے دروازوں کی چوکھٹوں پر ان کے چھوٹے سے پنجے کے سُرخ نشان ٹمٹارہے ہیں۔ تاریک بنوں میں ان بے چاری ستی ساوتریوں کی سمادھیوں کے گول، نیچے لرزہ خیز گنبد، بارش میں بھیگتے ہیں۔

شعراء کی موضوعِ سخن، افسانہ نگاروں کی ہیروئن، جذباتی چتر کاروں کی تصویر۔ بنگال کی عورت، سدا دکھ سہنے والی، صابر و شاکر بے چاری۔

میندور اور مہندی کی سُرخی، لاکھ کے رنگ کی سُرخی۔

بوندوں کی لڑیاں، زندگی، موت، زندگی کی پھول مالا گوندھتی جارہی ہیں۔

جب بارش تھمتی ہے تو بادلوں کے اودے شامیانے کے نیچے مور ناچنا شروع کردیتے ہیں۔ کنجوں میں جو تھیکا کھل ہے۔ بنوں میں سال کے پھول مہک اُٹھے، بھیگی، گھپ اندھیری رات میں جگنو چمک رہے ہیں۔ جن کی روشنی میں کبیوں نے کہا۔ ’’ابھیساریکا۔ اپنے محبوب سے ملنے جاتی ہے، ندی کنارے بید کے پھول کھلے ہیں، ہرے اور سیاہ پروں والی مرغابیاں چلا رہی ہیں… ہرن درختوں کے نیچے چپ چاپ کھڑے ہیں، چھپر ٹپکنے لگے۔

پودے بڑھ رہے ہیں، کھیت لہلا اٹھے۔ بانس کے سرسراتے جھنڈ میں ہاتھی بارش سے بچنے کے لیے کھڑے کان پھٹپھٹا رہے ہیں۔ بگلے مچھلیوں کے تعاقب میں ہیں جن سے تال اور ندیاں لبریز ہوگئیں۔

پروائی میں کیتکی مہک رہی ہے۔ بانس کے جھرمٹ میں سانپ سوتا ہے‘‘۔

ندی پرے بارات آرہی ہے۔ بارات آنگن کے دوار پر اُتر گئی۔ تلسی کے سامنے چراغ جل رہا ہے۔

یہ کس کا گھر ہے اور دولہا کون ہے؟ اور کہاں ہے؟ کس کی دلہن ہے جو اٹاری پریوں بال بکھرائے پریشان سوتی ہے؟

(18)
میگھ رنجنی راگنی
آدھی رات کے بعد بارش تھمی۔ سیمل کے خنک پتوں میں سے ٹپ ٹپ کرتی بوندیں باغ کی نم، سوندھی مٹی پر گرتی رہیں۔ مینڈکوں کا شور ایک دم تیز ہوگیا۔ محل میں روشنیاں جل اٹھیں گہما گہمی، ہنسی مذاق، شور، قدموں کی چاپ۔

دوسری منزل کی طویل گیلری میں سے گزرتی انجم آراء لہک لہک کر ٹیگور کا گیت الاپ رہی ہے۔

استھولے جولے نبھ استھولے بنے اُپ بنے ندی نادلے۔ گرمی گوہا پارا ہارے۔

آشاڑھے نوبو آنند واُتشبو نوبو۔

اتی گمبھیراتی، گمبھیرنیل ادمبرے ڈمر دباجے۔

وہ بے چینی سے مسہری پر کروٹ بدلتی ہے، شنکری (کالی) ناچے۔ شنکری ناچے۔ پبن ملار گیت گا ہی چھے آندھار راتے… آواز دور چلی جاتی ہے۔

لیکن سپنے میں گیت جاری ہے۔

کورے گرجن نیر جھرنی سگھنے۔ اٹھے روپ بھیرب تانے بتانے

سپنے میں وہ گا رہا ہے۔

جبکہ وہ بال بکھرائے برمی نقش و نگار کے چھپر کھٹ پر بے چینی سے سوتی ہے۔ وہ سیمل کے نیچے بکرم جیت کے شکستہ سنگھاسن کے کنارے کھڑا گائے جارہا ہے۔ دکرمادتیہ کے زرد عقیق کے تخت میں سے سرخ و سبز شعاعیں چھوٹ رہی ہیں۔ انصاف کا تخت ایک دم جگمگانے لگا، وہ گارہا ہے۔

دیکے دیکے کتوبانی نوبوکتوبھاشا۔ جھورد جھورو روشو دھارا۔

جھورو…جھورو… امی کہتی ہیں۔ مالا کہتی ہے۔ میمل کے سفید اور زرد پھولوں میں معجزے اور سحر کی طاقتیں پوشیدہ ہیں۔ جادو ٹونے۔ معجزے۔

’’بی بی… بی بی… اُٹھیے… وہ آگئے‘‘۔

وہ ایک دم چونک کر ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتی ہے۔

مالا مسہری پر جھکی اسے جگا رہی ہے۔ چھت کا برقی پنکھا تیزی سے گھوم رہا ہے۔ کھلے ہوئے دریچوں اور دروازوں میں سے تازہ، سہانی ہوا اندر آرہی ہے۔

چنبیلی کے پھولوں کی اور برسات کی رات کی مہک۔

’’کون آگئے…؟ کون…؟‘‘ اُس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ہے۔ رنگ سفید پڑ گیا۔ ہاتھ پائوں میں سنسنی۔

’’بی بی…‘‘ مالا سرہانے ریشمی جھالر دار لیمپ کا سوئچ دبا کر اطمینان سے کھیسیں نکالتے ہوئے جواب دیتی ہے‘‘۔ اجی وہی سب۔ سگن بگیچے والے۔ دُوئی ٹھو موٹر بھر کر۔ دیناج پور چلے خاطر۔ اٹھیے سب جنے تیار ہیں۔ جہاج ٹھیک سات بجے چھوٹے گا۔ آپ ابھی تلک سو رہی ہیں۔ یہ اندھیر دیکھو‘‘۔

’’اوہ…‘‘ وہ بال سمیٹ کر آنکھیں موند لیتی ہے۔ میرے خوابوں سے تمہارے خوابوں تلک اب قیامت تک کا فاصلہ ہے۔ اچھائی بھائی۔ جو تمہاری مرضی۔

(جاری ہے)

حصہ