جو دلوں کو فتح کرلے ،وہی فاتح زمانہ

198

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ

جگر مرادآبادی کا یہ شعر شرق تا غرب اسلام کی فاتحانہ پیش قدمی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام کی اسلام میں والہانہ شمولیت کا بیّن ثبوت ہے، اور اہلِ مغرب و دیگر اقوام کے اس اعتراض کی نفی بھی کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔

مشرکینِ مکہ جنہوں نے آپؐ کو تیرہ سال تک ہر طرح کے اذیت ناک حالات سے دوچار کیا، جنگِ احد میں 70 اصحابِ رسولؐ کو شہید کیا، آپؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کیا اور جنگِ احزاب میں اسلام کو مٹانے کی کوششیں کیں، مگر فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کردیا کہ ’’آج بدلے کا نہیں، رحم کرنے کا دن ہے۔‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے تمام کے تمام اہلِ مکہ مسلمان ہوگئے۔ اس کے بعد تو جوق در جوق عرب کے تمام قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔ آپؐ کی رحلت کے بعد اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں منکرینِ زکوٰۃ اور مسیلمہ کذاب جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ان سب کی سرکوبی کی گئی۔

دلوں کو جیتنے کا مؤثر اور کارگر ہتھیار حسنِ سلوک ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اہلِ مکہ کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا اس نے پہلے کی تمام تاریخی روایات کو بدل ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ آج بھی یہ حسنِ سلوک غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’میدانِ حشر میں جب نیکیاں تولی جائیں گی تو سب سے وزنی تمہارا حُسنِ خلق ہوگا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے معلمِ اخلاق بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

آپؐ کا حسنِ خلق اہلِ ایمان کے لیے قندیلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

تلوار سے آدمی قوموں کو میدانِ جنگ میں شکست دے سکتا ہے مگر دلوں کو فتح کرنے کے لیے حسنِ خلق ، ترحم، رواداری، مظلوموں کی دادرسی اور عدل و انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پوشیدہ ہتھیار ہے جس کی ضرب کاری ہے اور یہ گلشنِ آدمیت کو لالہ زار کرتا ہے۔

بنو گے خسروِ اقلیم دل شیریں زباں ہو کر
جہانگیری کرے گی یہ ادا نورِ جہاں ہو کر

اسلام دشمنوں کا کہنا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ کیا کوئی مؤرخ اس بات کو جھٹلا سکتا ہے کہ ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں مسلمان تاجروں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اسلام ابتدائی زمانے میں ہی پھیل چکا تھا۔ مالابار کا راجا زمودی سامری شق القمر کا معجزہ دیکھ کر مسلمان ہوچکا تھا۔ سری لنکا کا راجا، خلفائے راشدین کے زمانے میں ہی مسلمان ہوچکا تھا۔ ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں سری لنکا میں بہت سے بزرگوں کے مزارات کا تذکرہ کیا ہے۔

جنوبی ایشیا جس میں مالدیپ سے لے کر انڈونیشیا تک ہزاروں جزائر پر اسلام کا غلبہ ہے، یہاں تو کبھی بھی مسلمان فوجیں حملہ آور نہیں ہوئیں، یہاں اسلام کا بول بالا صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے ہے۔ انڈونیشیا آج مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ عیسائیت ایک ہزار سال سے اسلام کے خلاف صلیبی جنگ لڑ رہی ہے۔ جب مسلمانوں نے اسپین کو فتح کیا تو لڑنے والے فوجی مارے گئے مگر عوام کے جان و مال محفوظ رہے۔ اس ملک کی ترقی کا عالم یہ تھا کہ رات کو اندلس کی گلیوں میں زیتون کے چراغ جلتے تھے جبکہ اُس وقت لندن اور پیرس کی سڑکوں پر کیچڑ ہوا کرتی تھی۔ مگر 800 سال بعد جب اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو ہزاروں مسلمانوں کو جبری عیسائی بنایا گیا اور ہزاروں قتل کردیے گئے۔ آج بھی اٹلی میں ایک چرچ جو کہ مسلمانوں کی ہڈیوں سے تعمیر کیا گیا، موجود ہے جس کے دروازے پر ایک بچے کی سوختہ لاش لٹک رہی ہے۔ یہ مکروہ چہرہ عیسائیت کا ہے۔ جب عیسائیوں نے بیت المقدس فتح کیا تو مسلمانوں کا اتنا قتلِ عام کیا کہ مسلمانوں کے خون میں اپنے گھوڑے دوڑائے۔ مگر جب صلاح الدین ایوبیؒ نے دوبارہ بیت المقدس فتح کیا تو سب کو معاف کردیا۔ دورِ فاروقیؓ میں مجاہدین نے آدھی دنیا فتح کرلی تھی اور مسلمانوں کے حُسنِ سلوک اور مفتوح قوموں کے ساتھ رواداری نے نہ صرف پوری آبادیوں کو اسلام کے دامنِ رحمت میں داخل کردیا بلکہ وہاں کی تہذیب و ثقافت اور باطل رسوم و رواج اسلام کے دائرے میں شامل ہوگئے۔ مصر و فارس کی قدیم تہذیب ہو یا افریقہ کے قبائل… سب کو اسلام کی روشنی نے منور کردیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ)

آپؐ نے تو میدانِ جنگ میں زخمی سپاہیوں کو ہلاک کرنے، کھیتوں اور باغات کو جلانے، عورتوں اور بچوں کو گزند پہنچانے، اور شہریوں کے مال و اسباب لوٹنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمت للعالمین بناکر بھیجا ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپؐ کے امتی ظلم و جبر سے لوگوں کو مسلمان بنائیں!

آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں تقریباً 80 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ایک ہزار سال تک رہی مگر مسلمانوں نے جبراً کبھی بھی کسی ہندو کو مسلمان نہیں بنایا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ محمد بن قاسمؒ نے سندھ فتح کرنے کے بعد یہاں کے ہندوئوں کے ساتھ ایسا حُسنِ سلوک کیا کہ اس کے یہاں سے جانے کے بعد ہندوؤں نے اس کا مجسمہ بنا کر پوجنا شروع کردیا۔

مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکمرانی میں کبھی بھی کسی علاقے میں ہندو مسلم فسادات کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، مگر جیسے ہی اس ملک پر انگریزوں نے قبضہ کیا، ہندوتوا کے علَم برداروں نے ’’شدھی تحریک‘‘ یعنی مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے کا آغاز کیا اور اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کی، اور انگریزوں کی مدد سے ہندو مسلم فسادات ہوئے جو آج تک مودی سرکار کی سرپرستی میں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر جاری ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان کے طول و عرض میں ہزاروں مسلم کُش فسادات ہوئے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بناکر ان کو تمام جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور وہاں مندر بنانے کے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھارتی جمہوریت کے اصل چہرے کو نمایاں کردیا ہے۔ آج مسلمانوں کے نام پر موجود ہر تاریخی مقام کا نام تبدیل کیا جارہا ہے۔ پوری دنیا کی انسانیت یہود ونصاریٰ اور ہنود کے اتحادِ خبیثہ کے ظلم و جبر کا شکار ہے اور اہلِ فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے قتلِ عام نے تو امریکا اور یورپ کے تمام انسان دوست عوام کو بیدار کردیا ہے۔ امریکا اور یورپ کی تمام جامعات کے طلبہ فلسطینی عوام کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔

نائن الیون کے بعد ایک بار پھر صلیبی جنگ کا آغاز ہوا مگر مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور قرآن و اسلام کی حقانیت نے امریکا اور یورپ میں تیزی سے اسلام کے پھیلنے کا آغاز کردیا۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے اسرائیلی سفاکی کے خلاف ڈٹ جانے والے غزہ کے مسلمانوں کی استقامت کے باعث امریکا اور یورپ میں تیزی سے اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آچکی ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ جس اسرائیل کی مخالفت امریکا اور یورپ میں ممکن نہ تھی آج وہی اسرائیل ان ملکوں میں دہشت گرد ملک کے طور پر قابلِ ملامت ہوچکا ہے اور عالمی عدالتِ انصاف نے قاتل نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم بھی جاری کردیا ہے۔

عالمی طاغوت کی کارستانیوں کی وجہ سے جب 2020ء میں کورونا نے کم و بیش پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف موت کا سایہ پھیل گیا تو اُس کے اثرات سے بچنے کے لیے ماہرینِ صحت نے جو نسخہ پیش کیا وہ یہ تھا کہ ہر آدمی دن میں کم سے کم چار سے پانچ مرتبہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھوئے۔ جب کہ ہر مسلمان جو پانچ وقت نماز پڑھتا ہے وہ روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ وضو کرتا ہے اور خود کو پاک صاف رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں کے مقابلے میں مسلم دنیا اس وبا سے کم متاثر ہوئی۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا، یورپ اور بھارت میں ہوئیں، جب کہ پوری دنیا کی معیشت کا دھڑن تختہ ہوگیا جس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔

بھارت میں تو ہندوتوا کے علَم برداروں نے اس وبا کو بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا اور تبلیغی جماعت کے لوگوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائیں۔ ہندو تو موت کے ڈر سے اپنے مُردوں کو جلانے کے لیے شمشان گھاٹ بھی نہیں لے جاتے تھے۔ ایسے میں مسلمان پڑوسیوں نے ہندوؤں کی لاشوں کو شمشان گھاٹ تک پہنچایا۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے مراکز اور بڑے بڑے دفاتر کو کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے اسپتالوں میں تبدیل کردیا، جس کے بہترین نتائج برآمد ہوئے اور آج بھارت کا ہر سنجیدہ ہندو مسلمانوں کے اس حُسنِ سلوک کا معترف ہے۔

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ’’مومنوں کی یہ صفت ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں، اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران)

مسلمانوں کا حسنِ سلوک اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسانیت کے سب سے بڑے علَم بردار ہیں اور رنگ و نسل اور مذہب کے تعصب سے ماورا ہوکر فکر کے داعی ہیں۔ اِن شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہندوتوا کی نفرت بھری آگ مسلمانوں کی محبت کے آبِ زمزم سے بجھے گی اور اہلِ ہند ایک بار پھر اسلام اور مسلمانوں کی قدر و قیمت پہچان جائیں گے۔ مسلمان اب خود کو خوابِ غفلت سے بیدار کریں۔ آپس کے فروعی اور مسلکی اختلافات ختم کریں۔ ملتِ واحدہ بن کر علم و ہنر کے میدان میں آگے بڑھیں، خدمتِ خلق اور بھائی چارہ کے پیغام کو عام کریں۔ اپنے اخلاقی معیار کو اتنا بلند کریں کہ کٹر دشمن بھی احترام کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ ملک کے سیاسی اور جمہوری دھارے میں یکساں سوچ کا مظاہرہ کریں جیسا کہ مغربی بنگال میں ہوا ہے۔ ہندوستان کی اکثریتی آبادی نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے۔ بالخصوص شیڈول کاسٹ کے لوگ، جو صدیوں سے چھوت چھات کی وجہ سے تیسرے درجے کے شہری بن کر جی رہے ہیں، اُن کے ساتھ دوستانہ سلوک اور رواداری ان کو اسلام کے قریب لائے گی۔ احسن طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کرکے اُن تک اسلام کی دعوت کو عام کریں۔ سروس کمیشن کے امتحان کے ذریعے ریاست کے بااثر مناصب تک پہنچنے کی سر توڑ کوشش کریں۔ اپنے بچوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنرمند بھی بنائیں تاکہ وہ اپنے رزق کے لیے نوکری کے محتاج نہ رہیں۔ روزمرہ کی ضروریات کے لیے کاٹیج انڈسٹری کا قیام عمل میں لائیں۔ ہندوستان میں سٹہ، جوا، شراب اور بدکاری عام ہیں، لہٰذا اپنے بچوں کو فکرِ آخرت اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آشنا کریں۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے، اس کو صرف اور صرف ضرورت کے مطابق استعمال کریں۔ دنیا کی گاڑی مرد و زن سے چلتی ہے، لہٰذا اپنی بیٹیوں کو تعلیم اور حیا کے زیور سے آراستہ کریں۔

ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل روشن ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بات کچھ عجیب لگے گی، مگر پورے ملک کی آبادی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں جنوبی ہندوستان کی 5 ریاستیں جو ہندوتوا کی زہر آلود فضا سے اس طرح متاثر نہیں ہیں جس طرح بہار، یوپی، مہاراشٹر، راجستھان، ہریانہ، گجرات، جھاڑکھنڈ اور دیگر صوبے ہیں۔ نیز جنوبی ہندوستان کے مسلمان زیادہ پڑھے لکھے اور منظم سماجی حیثیت کے حامل ہیں اور مسلکی اختلافات سے بچے ہوئے ہیں، جہاں پاپولر فرنٹ جیسی فعال اور متحرک نوجوانوں کی تحریک کے اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

مشرقی ہندوستان کے صوبے ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ اور آسام میں علیحدگی کی تحریکیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ نیز بہار، جھاڑکھنڈ، اتراکھنڈ، یوپی، تلنگانہ میں نکسیلوں کی مسلح تحریک ہندوستانی حکومت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی بنگال ممتا بینرجی کی حکومت کی وجہ سے ہندو مسلم فسادات سے بچا ہوا ہے۔

ہندوستان کی کُل آبادی میں مسلمان 25 فیصد اور شیڈول کاسٹ 32 فیصد کی تعداد میں ہیں، اور یہ دونوں کمیونٹی برہمن سامراج اور ہندوتوا کی جارحیت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتیں بھی اپنی بقا کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ ملک میں غربت اور مہنگائی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ کسانوں کی تحریک نے مودی سرکار کو بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں مسلمان، شیڈول کاسٹ اور دیگر اقلیتوں کا اتحاد سیکولر اور جمہوری حکومت کو پائیدار بنائے گا اور ہندوتوا کے عذاب سے چھٹکارا پانا آسان ہوجائے گا، اس طرح موجودہ زہر آلود سیاسی اقتدار کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے بعد ہندوستان میں حقیقی انصاف پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں آنے کے بعد غربت میں جینے والے 70 فیصد سے زیادہ عوام کو راحت ملے گی، نیز علیحدگی کی تحریکیں بھی ختم ہوسکتی ہیں۔ ورنہ ہندوستان کے لیے مودی ’’گوربا چوف‘‘ کا کردار ادا کرے گا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کو آر کے دھون کے فارمولے کے مطابق اسپین کی طرح ختم کردیا جائے۔ مسلمانوں کی شرح پیدائش کی وجہ سے ہندوتوا کے علَم برداروں میں خوف ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ملکی جمہوری نظام کو اپنی گرفت میں لے لے گا، شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت اپنی حیثیت کو پہچانے اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اپنے اخلاقی معیار کو بلند کرے۔

’’نہ گھبراؤ، نہ غم کرو، تمہی کامیاب ہوگے اگر مومن ہو۔‘‘ (القرآن)

حصہ