قربانی۔۔۔

200

’’دیکھ بھئی غلامو! عید سر پہ آگئی ہے، منڈی جا، اور قربانی کے لیے دو دانت کا دنبہ خرید لا۔ تاکید کررہا ہوں کہ تگڑا اور جان دار دنبہ لائیو۔ اور سن، یہ خیال رکھیو کہ دنبے ٹکر مارنے والے نہ ہوں، بچوں سے بھرا گھر ہے ایسا نہ ہو کہیں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ منڈی سے آتے ہوئے چارہ بھی لے آئیو، یہاں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے! شیخ جی کے بیٹے کو تاکید کردیجیو کہ ہمارا جانور پہلے دن ہی کاٹنا ہے، ہم نے ہمیشہ پہلے دن ہی قربانی کی ہے۔ اور کان کھول کے سن لے، منڈی اکیلے ہی جائیو، خبردار جو اگر کسی بچے کو ساتھ لے کر گیا، وہاں جانور بائولے ہوئے پھرتے ہیں، کسی بیل نے بچے کے کلیجے پہ پاؤں رکھ دیا تو زبان باہر آجائے گی۔ اس لیے ایسے کام ہی نہ کرنا۔ ٹھیک ہے، ساری بات سمجھ گیا نا۔ اب جا، میرے سامنے بت بنا کیوں کھڑا ہے! جا منڈی جا، اور یہ کام ختم کر، پَر دنبے والی بات یاد رکھیو۔‘‘

’’نہ جانے کہاں سے فضول باتیں سن کر بحث کرنے لگتے ہیں کہ بیل قربان کرنا ٹھیک نہیں۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ اب بیل ہی لاؤں گا۔‘‘

غلامو اپنے تاؤ کی باتیں سن کر بڑبڑاتا ہوا منڈی کی جانب چل پڑا۔

وہ دنبہ لے یا بیل، یہ اُس کا مسئلہ ہے، مجھے اس سے کیا! میرا مقصد تو عیدِ قرباں پر سنتِ ابراہیمی کے مطابق قربانی کرنا ہے، بس اسی نیت کے ساتھ میں بھی اپنے قربانی کے جانور خریدنے کے لیے بھینس کالونی مویشی منڈی آگیا۔ منڈی پہنچتے ہی بھاؤ تاؤ کرنے لگا جہاں جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، چھوٹا جانور ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ، درمیانے درجے کا جانور 3 سے 4 لاکھ میں فروخت ہورہا تھا، جبکہ منڈی میں 20 سے50لاکھ تک قیمت کے جانور بھی موجود تھے۔ بکروں کی قیمت پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک لگائی جارہی تھی۔ چونکہ میرا تعلق متوسط طبقے سے ہے، اس لیے لگائی جانے والی قیمتیں میرے لیے نہ صرف حیران کن تھیں بلکہ اتنے مہنگے جانور خریدنے کی مجھ میں سکت نہ تھی، پھر بھی میں مویشی منڈی کے اندرونی جانب بڑھتا جارہا تھا۔ ہر طرف گندگی اور کچرے کے ڈھیر لگے ہونے کے باعث چلنا دشوار تھا۔ تھوڑی دیر چل کر میں ایک باڑے میں جا بیٹھا جہاں ایک بیل کا بھاؤ تاؤ کیا جارہا تھا۔ بیوپاری نے جانور کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا ’’بھائی! یہ غریب بیل ہے، 10لاکھ کا لے جاؤ، گھی اور مکھن کھا کر جوان ہوا ہے‘‘۔

زیادہ قیمت سن کر خریدار گم سم ہوگیا اور خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ’’5لاکھ لے لو‘‘۔

’’نہیں نہیں سائیں! 10لاکھ بھی کم ہیں، بڑے پیار سے پالا ہے، اتنا سستا کیسے دے سکتا ہوں! ایسا جانور پوری منڈی میں نہیں۔‘‘

بیوپاری اپنے جانور کو بار بار غریب کہہ کر پکارتا، آخرکار مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے پوچھا ’’سائیں یہ غریب کیا ہے؟‘‘

بیوپاری نے کہا ’’غریب سیدھے جانور کو کہتے ہیں۔‘‘

’’اور لڑاکا جانور کو کیا کہتے ہیں؟‘‘ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’جو جانور غصہ کرے اسے نِکات کہتے ہیں‘‘۔

خیر کچھ ہی دیر میں خریدار کا سودا طے ہوگیا اور وہ 7لاکھ دے کر جانور لے گیا۔

رقم کی ادائیگی کے دوران میرے ذہن میں آیا ’’اچھا غریب تھا جو امیر کر گیا۔ غریب تو میں ہوں جسے اب تک جانور نہ مل سکا۔ ظاہر ہے جب مویشی منڈی میں بھاؤ آسمان سے باتیں کررہے ہوں تو ایسے میں مجھ جیسے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو کم قیمت جانور کیسے مل سکتا تھا! خیر ابھی میں منڈی کی تیزی کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میری ملاقات بابر قریشی سے ہوگئی۔ پہلے تو مجھے لگا کہ وہ بھی قربانی کا جانور خریدنے آئے ہیں، لیکن چند لمحوں میں مجھ پر عیاں ہوگیا کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے گوشت کی فروخت کے ساتھ ساتھ ملک کی مختلف منڈیوں سے جانوروں کی خریداری کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ مویشیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ان کا کہنا تھا: ’’جانور اپنی قیمت پر فروخت ہورہے ہیں، یہاں ایک لاکھ سے دس لاکھ روپے تک کے جانور موجود ہیں، اب جس کی جتنی حیثیت ہے اُسے اس کے مطابق مال مل رہا ہے، عوام بڑی عید پر مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں، ہمارا روز کا کام ہے۔ منڈی کا رجحان عام دنوں کی طرح ہے، میں نے اپنی دکان کے لیے تین لاکھ روپے تک کا جانور بھی کاٹا ہے، اور کبھی ایک لاکھ تو کبھی ڈیڑھ لاکھ تک کا۔ منڈی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مال مہنگا فروخت ہورہا ہے، اصل وجہ یہ ہے کہ قیمت جانور کی نسل اور خوبصورتی کی ہوتی ہے۔‘‘

ہم عارضی طور پر بنائے گئے ہوٹل میں بیٹھے باتیں کررہے تھے، سامنے سے جانوروں کے ریوڑ گزرتے دیکھ کر بابر قریشی نے بتایا:’’ ان ریوڑوں میں زیادہ تر کٹو مال ہے جو ذبح خانے لے جایا جارہا ہے۔ قربانی کے جانور اور کٹو مال میں بہت فرق ہوتا ہے، اس لیے ان کی قیمتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ منڈی سے کم قیمت جانور نہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ قربانی کے لیے لائے گئے خوبصورت جانوروں کے ریٹ کٹو مال سے بھی کم لگاتے ہیں، ایسی صورت میں سودا نہ بننے پر کہا جاتا ہے کہ مال مہنگا فروخت ہورہا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جب وارے میں نہیں آئے گا تو بیوپاری اپنا مال نقصان میں کیوں فروخت کرے گا؟ لوگ اب تک ماضی میں جی رہے ہیں، اُس زمانے میں جب چار من کا بچھڑا تیس سے چالیس ہزار کا مل جایا کرتا تھا۔ اب حالات مختلف ہیں، ہر چیز مہنگے داموں فروخت ہورہی ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، واحد ہمارا کام ہے جس میں تیزی کا رجحان ہے، اس کام میں بڑے مگرمچھ کود پڑے ہیں۔ اداکاروں،کرکٹرز، یہاں تک کہ رئیل اسٹیٹ سے جڑے لوگوں نے بھی بڑے بڑے مویشی فارم بنا رکھے ہیں، اور تو اور مختلف ناموں سے بیف کمپنیاں بناکر دنیا کے کئی ممالک میں گوشت سپلائی بھی کررہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ زندہ جانوروں کی اسمگلنگ اور گوشت کی بے تحاشا ایکسپورٹ کے باعث بھی مویشیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

میں کچھ دیر مزید بابر قریشی کے ساتھ بیٹھا رہا، پھر اٹھ کر اگلے باڑے کی جانب چل پڑا، جہاں میری ملاقات رستم خان سے ہوئی۔ رستم خان نے بتایا کہ ملک کی ابتر معاشی صورتِ حال اور سخت موسم کا منڈی پر خاصا اثر پڑا ہے، حکومت معاشی بہتری کے لیے اقدامات کررہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کے ریٹ کم ہوئے ہیں، امید ہے اب صورت حال کچھ بہتر ہوجائے گی، ہمارا کام جانور فروخت کرنا ہے، لوگوں کے معاشی حالات درست ہوں گے تبھی گاہک آئے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام میں انفرادی قربانی کرنے کی سکت نہیں، یہی وجہ ہے کہ اجتماعی قربانی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ شہر کی مختلف مویشی منڈیوں میں تاحال 4 سے5 لاکھ جانور لائے جاچکے ہیں، برسات کا سن رہے ہیں، اگر بارش ہوگئی تو بیوپاریوں کو خاصا نقصان ہوجائے گا، منڈیوں میں سہولت نام کی کوئی چیز نہیں، ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جس سے انتظامیہ کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اِس سال بھی جانوروں میں کانگو وائرس کا الرٹ جاری کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری سطح پر اب تک ویکسی نیشن کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، منڈیوں میں بھتہ مافیا سرگرم ہے، دوسرے شہروں سے آنے والے بیوپاریوں سے ٹیکس کے نام پر بھاری رقم طلب کی جاتی ہے، جبکہ منڈی میں داخل ہوتے ہی غیر قانونی طور پر فی جانور ٹوکن کی مد میں رقم مانگی جاتی ہے، ماضی میں یہاں بڑے جانورکی انٹری فیس 150روپے ہوا کرتی تھی جبکہ چھوٹے جانور کی 120روپے تھی، عید آتے ہی یہاں کا قانون ہی تبدیل ہوجاتا ہے جس کے تحت اب فی جانور 1300سے1500روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔ پانی، بجلی اور دیگر ضروریات کی رقم اس کے علاوہ ہوتی ہے، منڈی کو بااثر افراد نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر اور آلودہ پانی کے باعث جانوروں کی اموات ہونے کا خطرہ ہے بلکہ کئی جانور مر چکے ہیں۔ باڑے کی صفائی کے لیے 20 سے25ہزار ادا کرنے ہوتے ہیں۔ رستم خان کے مطابق جانور باندھنے کے لیے فی کھونٹا 5ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں اور بھتہ مافیا کی لوٹ مار اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہی بیوپاری جانوروں کی قیمتیں بڑھانے پرمجبورہیں۔

میں خاصی دیر بیوپاریوں سے بات چیت کرتا رہا لیکن مجھے میری بساط کے مطابق جانور نہ مل سکا۔ یوں جانور لیے بغیر اگلے دن خریداری کرنے کا ذہن بنا کر اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا زمانہ تھا جب سفید پوش گھرانوں کی اکثریت قربانی کیا کرتی تھی، زیادہ تر لوگ گائے میں حصہ ڈالتے، صرف انتہائی غریب طبقہ ہی ایسا تھا جس کے ہاں قربانی نہ ہوتی۔ مگر اب تو سفید پوش گھرانے بھی بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے عتاب کا شکار ہیں۔ کئی افراد تو اپنی سفید پوشی کا بَھرم رکھنے کے لیے کسی سے اپنی پریشانیوں کا اظہار نہیں کرسکتے، اس تباہ کُن مہنگائی کے دور میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے، حالات نے انہیں بھی اتنا مجبور کردیا ہے کہ ان کے دسترخوان پر سوکھی روٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، گوشت کھانا تو درکنار، ان کے بچوں کو پیٹ بھر کھانا مل جائے یہی غنیمت ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ عید تہوار تو اب امیروں اور طبقۂ اشرافیہ کے لیے ہی رہ گئے ہیں، غریب کے بچوں کو جس دن اچھا کھانا مل جائے، اُن کے لیے وہی عید کا دن ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر جگہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لیکن بچے تو پھر بچے ہی ہیں، طرح طرح کی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں، کبھی بیٹی گڑیا مانگتی ہے، تو بیٹا بال۔ چھوٹی عید پر کپڑوں کی فرمائش، بڑی عید پر بکرا لانے کی ضد۔ معاشرے میں اٹھتی آوازیں سن کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ یہ ملک ہم جیسوں کے لیے نہیں… ظالم حکمرانوں، غیر ملکی مہمانوں، دہری شہرت رکھنے والوں کے لیے ہے، جن کی لوٹ کھسوٹ نے ملک کو مقروض کر ڈالا۔ نااہل حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ہر دوسرا شخص حالات کی چکی میں پس رہا ہے جو دن رات کڑی محنت کرکے مشکل سے مہینے کے بیس، پچیس ہزار روپے کماتا ہے جس میں سے پندرہ ہزار روپے گھر کے کرائے میں چلے جاتے ہیں اور باقی پیسے راشن اور یوٹیلٹی بلز وغیرہ کی ادائیگی میں! جس کی تنخواہ ہاتھ میں آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے گوشت کھانا تو دور کی بات دال کھانا بھی مشکل ہے۔ ہاں شاید تھوڑا بہت گوشت اسے بقرعید پر ہی نصیب ہوتا ہو۔ بس یہی کچھ سوچتا ہوا میں اپنے گھر پہنچ گیا۔ اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ بس اللہ ہی کی ذات سے اُمید اور دعا ہے کہ ایک وقت آئے جب ہم بھی ترقی اور خوشحالی کے دن دیکھیں، وہ دن جب ہر شخص اپنے گھرانے کے ساتھ خوشی خوشی آسانی سے اسلامی تہوار منا سکے۔

حصہ