آلودگی اب زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہے، اور دنیا کو درپیش سب سے بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر 10 میں سے 9 افراد خطرناک سطح تک آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔ جبکہ 2022ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آلودگی کے سبب ایک برس میں 90لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے زیراہتمام 1974ء سے ہر سال 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماحولیات کی حفاظت اور بہتری ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اِس سال اس دن کا موضوع ہے ’’زمین کی بحالی اور خشک سالی سے بچائو کے لیے زمین کے بنجر ہونے کی روک تھام کے اقدامات‘‘، جو اس حقیقت کی یاددہانی ہے کہ ہمیں زمین کو بچانا ہوگا اور اسے فطرت کے خلاف جانے سے روکنا اور خدا کی دی ہوئی زندگی برتنے کے اصولوںکو اپنانا ہوگا۔
پاکستان میں آلودگی کی صورتِ حال:
پاکستان کو اس وقت بدترین ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے، جو زمین پر سنگین اثرات مرتب کررہی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی تباہی اور اس کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس کی زد میں آچکے ہیں، اور پاکستان بھی اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان چیلنجز کی ایک بڑی وجہ جنگلات کا کٹائو اور کمی ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے مختلف عوامل ہیں جن میں صنعتی فضلہ، گاڑیوں کا دھواں، جنگلات کی کمی، اور ناقص فضائی معیار شامل ہیں۔ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 135.000 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں PM2.5 (ہوا میں موجود باریک ذرات) کی سطح عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی مقرر کردہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق لاہور اور کراچی میں PM2.5 کی سالانہ اوسط سطح 70 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر سے زیادہ ہے، جبکہ WHO کی مقرر کردہ حد 10 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر ہے۔ اسی طرح وطنِ عزیز میں آبی آلودگی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ دریائوں اور جھیلوں میں صنعتی فضلہ، زراعتی کیمیکلز اور گھریلو گندے پانی کے بہائو کی وجہ سے ہمارا پانی خراب ہورہا ہے۔ دریائے سندھ میں صنعتی فضلے اور کیمیکلز کے اخراج کی وجہ سے ماہی گیری کی صنعت متاثر ہورہی ہے۔ کراچی جو ہمارا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی مرکز ہے، یہاں ماحولیاتی آلودگی کی صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے۔ کراچی میں گاڑیوں اور صنعتی سرگرمیوں کی بہتات کی وجہ سے فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی کی سطح WHO کی مقرر کردہ حد سے 4 سے 5 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح شہر کے مختلف علاقوں میں گندے پانی کے نالے اور صنعتی فضلہ بغیر کسی صفائی کے سمندر میں بہایا جاتا ہے، جس سے سمندری حیات اور انسانوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ماہی گیری کی صنعت بھی اس آلودگی سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
کراچی میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔ شہر میں روزانہ تقریباً 12,000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں سے صرف 60 فیصد ہی مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ باقی کچرا غیر قانونی ڈمپنگ سائٹس اور کھلے مقامات پر پھینک دیا جاتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے خطرات:
اب ہویہ رہا ہے کہ قدرت کے فطری نظام کے خلاف جاکر جو مسائل ہم نے اپنے لیے پیدا کیے ہیں اُس ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں صحت اور معیشت دونوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
صحت پر اثرات:
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریوں، دل کی بیماریوں اور کینسر جیسے امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈبلیو ایچ اوکے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 7 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریوں، دل کے امراض اور پھیپھڑوں کے کینسر کی شرح میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔
2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 128,000 اموات ہوتی ہیں۔ بچوں اور بزرگوں میں سانس کی بیماریوں کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کتنا سنگین مسئلہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ بی بی سی نے 2019ء میں ایک رپورٹ دی تھی کہ فضائی آلودگی آپ کے دماغ میں کیا تبدیلیاں لا سکتی ہے؟ اور اُس کے مطابق لندن اسکول آف اکنامکس کے محقق کے مطابق 2011ء میں فضائی آلودگی کے منفی اثرات پر غور کے دوران ان کا خیال تھا کہ صحت پر فضائی آلودگی کے براہِ راست اثرات کے علاوہ ہماری زندگی پر اس کے مزید منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ پھر انھوں نے اس بات کو مرکزی نکتہ بناکر تحقیق کا آغاز کیا کہ فضائی آلودگی کا ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ ان کی ٹیم نے مختلف دنوں میں ایک ہی امتحان دینے والے طالب علموں پر غور کیا، نتیجے میں انھوں نے دیکھا کہ نتائج میں بہت واضح فرق تھا۔ جن دنوں فضائی آلودگی سب سے زیادہ تھی ان خاص دنوں میں ہونے والے امتحانات کے نتائج سب سے خراب آئے، تاہم جس دن فضائی آلودگی سب سے کم تھی اس دن کے نتائج سب سے اچھے تھے۔ تحقیق کے مطابق جیسے جیسے فضائی آلودگی بڑھتی گئی، طالب علموں کی امتحانات میں کارکردگی بھی متاثر ہوتی گئی۔ پھر بعد میں یعنی 2016ء میں ایسی ہی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ آلودگی جرائم کا سبب بنتی ہے۔ اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ آلودگی کی وہ سطح بھی جسے امریکی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی خراب نہیں مانتی، جرائم کی شرح میں اضافے کے لیے کافی ہے۔ امریکا کے ٹیکنالوجی ادارے ایم آئی ٹی کے جیکسن لو کی سربراہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں امریکا کے 900 شہروں کے 9 برس کے اعداد و شمار کو شامل کیا گیا۔ اس تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کو 5 بڑے جرائم سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے جن میں قتل، ریپ، ڈکیتی، چوری اور جسمانی حملے شامل ہیں۔ آلودگی اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ مزید تجربات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ آلودہ ماحول میں رہنے والوں میں دھوکا دینے کا رجحان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سے آپ میں ارتکاز کی صلاحیت بھی کم ہوسکتی ہے۔ آلودگی کے متعدد ذرات سے آپ کے دماغ میں سوجن ہوسکتی ہے۔ دماغ کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے، اور تحقیق کاروں کے مطابق ان وجوہات کے باعث دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوسکتا ہے جو جذبات اور خود پر قابو رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اب اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہم کس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں اور ہمارے یہاں جو آلودگی ہے اس کے ذہنی، نفسیاتی اور سماجی سطح پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہوں گے۔ اور بات صرف اتنی نہیں ہے کہ صحت کے مسائل کی وجہ سے علاج معالجے کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور کام کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ عالمی بنک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو فضائی آلودگی کی وجہ سے سالانہ تقریباً 8.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم اس ماحول کو تبدیل کس طرح کرسکتے ہیں؟ ماحولیات کا عالمی دن ہو یا نہ ہو، مقصد عالمی سطح پر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ اور اس کے لیے عملی اقدامات اور اپنے حصے کا کام کرنے کی بھی ضرورت ہے اور ریاست، حکومت،اداروں کو بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان باتوں کو ہم مندرجہ ذیل نکات یا عنوانات کی صورت میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
درخت لگانے کی کیوں ضرورت ہے؟:
1۔ماحولیاتی بہتری:
درخت ہوا کو صاف کرتے ہیں، آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ یہ خصوصیات ہمارے ماحول کو صحت مند اور صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
2۔ آب و ہوا کی تبدیلی:
درخت آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ گرمی کی شدت کو کم کرتے ہیں اور گرین ہائوس گیسوں کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہیں۔
3۔ پانی کی حفاظت:
درخت زمینی پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
4۔ حیاتیاتی تنوع: درخت مختلف جانوروں اور پرندوں کے لیے پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں، جس سے حیاتیاتی تنوع کو فروغ ملتا ہے۔
شجر کاری کے فوائد:
1۔ صحت مند زندگی:
درختوں کے قریب رہنے والے لوگ زیادہ صحت مند اور خوش رہتے ہیں۔ یہ لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
2۔ معاشی فوائد:
درختوں سے حاصل ہونے والے پھل، لکڑی اور دیگر اشیاء معاشی فوائد فراہم کرتے ہیں۔ زیتون کے درخت کی مثال ڈاکٹر فیاض عالم دیتے رہتے ہیں کہ یہ درخت پورا سال ہرے بھرے رہتے ہیں اور انہیں پانی بھی کم درکار ہوتا ہے اور یہ کتنا آسان ہے لگانا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بحریہ ٹائون کراچی میں گزشتہ سال زیتون کے 5000 پودے لگائے گئے ہیں۔ زیتون کا درخت بہت تیزی سے نہیں بڑھتا لیکن سخت جان ہوتا ہے، دیکھ بھال کا زیادہ محتاج نہیں ہوتا اور اسے پانی بھی بہت کم درکار ہوتا ہے۔ گملوں میں نہیں لگایا جانا چاہیے کیونکہ یہ پودا یا جھاڑی نہیں ہے، درخت ہے۔ کراچی میں کم سردی ہونے کی وجہ سے اس پر پھل نہیں آئے گا لیکن پتوں کے بہترین قہوہ سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔‘‘
3۔سماجی فوائد:
پارک اور ہری بھری جگہیں لوگوں کو ملنے اور سماجی روابط بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
درخت کی اہمیت پر مجھ سمیت بہت لوگ لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، لیکن اس کی اہمیت کے ساتھ وہ لوگ زیادہ اہم ہیں جو درخت لگارہے ہیں، لگانے کا عزم رکھتے ہیں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال جو قابلِ تعریف ہے وہ گلشن اقبال ٹائون کی ہے جس کے چیئرمین جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فواد احمد نے حال ہی میں عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں گلشن اقبال میں ایک لاکھ درخت لگائے جائیں گے۔ ان کے اس اعلان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شجر کاری صرف ماحول کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کام میں ان کے ساتھ دعافائونڈیشن اور سرکل فائونڈیشن تعاون کررہے ہیں، اور اس سلسلے میں ان کے ساتھ ایم او یو بھی سائن ہوا ہے۔ یہ دونوں ادارے اس طرح کے کئی کام کررہے ہیں جن کا مقصد ماحول کو صاف ستھرا رکھنا اور لوگوں میں خاص طور پر شعور اجاگر کرنا ہے، بلکہ سرکل فائونڈیشن تو بچوں کی تربیت اور ان کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے بھی کام کررہی ہے۔
ڈاکٹر فواد احمد کا اس منصوبے سے متعلق کہنا ہے کہ یہ ٹائون انتظامیہ کے کرنے سے ممکن نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے کے ایم سی، صوبائی حکومت، نجی تعلیمی اداروں اور این جی اوز کا تعاون بھی درکار ہوگا۔ ان کی جانب سے شجرکاری کے مستقل منصوبے کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف ماحولیاتی بہتری کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔ گلشن اقبال ٹائون کی انتظامیہ کا ایک لاکھ درخت لگانے کا اعلان ایک مثبت قدم ہے جو دوسرے علاقوں کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔
درخت لگانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا نہ صرف ہمارے ماحول کو بہتر، بلکہ ہماری زندگیوں کو بھی خوشحال بناتا ہے۔ ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ سب مل کر اپنی زمین کو سرسبز و شاداب بنائیں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کسی ایک فرد یا ادارے کی کوششیں کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔