بھارتی انتخابات ،راٹھی اور سوشل میڈیا

152

راٹھی کی لاٹھی:
ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ سال 2024 دنیا کے کوئی 120 ممالک میں الیکشن کا سال ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، میکسیکو، انڈونیشیا، روس، جنوبی کوریا، تائیوان، میں تو ہو چکے‘ امریکہ اور برطانیہ میں ہونے جا رہے ہیں۔ بھارت میں تازہ تازہ مکمل ہوئے ہیں۔ الیکشن اور سوشل میڈیا فی زمانہ ایک سکے کے دورُخ بن چکے ہیں۔ بھارت کے مشہور یوٹیوبر ’دھرووراٹھی‘ کے ذِکر کے بغیر بھارت کے حالیہ الیکشن پر بات ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ایک، اکیلا یو ٹیوبر کیسے پورے ، طاقت ور ’’مودی‘‘ سرکار کے خلاف رائے عامہ کا عنوان بن گیا۔ یوں راٹھی کی لاٹھی چلی کہ طاقت ور مودی سرکار بری طرح ہل کر رہ گئی۔ یہ اپنی جگہ ایک کیس اسٹیڈی ہے۔ جہاں تک پیسوں مطلب اپوزیشن سے پیسہ لے کر وڈیو بنانے کا الزام ہے تو وہ یوں فٹ نہیں بیٹھتا کہ جن دلائل اور حقائق پر ’’راٹھی‘‘ نے بات کی ہے اور وہ جس طرح پیش کرتاہے تو اس کا امکان ہی نہیں کہ وہ کسی کانگریس سے پیسے لے کر کرتا ہوگا۔ 21 ملین مطلب سوا 2 کروڑ سبسکرائبر اُس نے ناچ ناچ کر یا فحش باتیں کرکے یا ڈرامے و گھریلو زندگی ظاہر کرکے نہیں بنائے ہیں۔ وہ نوجوان صرف سنجیدہ موضوعات سے متعلق حقائق پر مبنی وڈیوز کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کی نقل پر کئی اور بھارتی، پاکستانی لوگ کام کر رہے ہیں تاہم وہ ابھی مقبولیت میں اُس سے پیچھے ہیں۔ انتخابات کے نتائج میں مودی سرکار کو سادہ اکثریت نہ ملنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد ’’دھروو راٹھی‘‘ نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ ’’عام آدمی کی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھیں۔‘‘ اور ان کی اس ایک پوسٹ کو چند گھنٹوں میں اب تک تقریباً 80 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ راٹھی کے 84 فیصد ناظرین بھارت ہی سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنا مواد صرف ہندی زبان میں ہی بناتا ہے۔ اس کی وڈیوز کا اتنا اثر ہوا کہ بی جے پی نے اس کو باقاعدہ ’’پاکستانی‘‘ کے طور پر اور ایک ’’مسلمان‘‘ بنا کر پیش کیا۔ اندازہ کریں کہ بی جے پی کا ووٹ کی خاطر کسی کو غیر مقبول کرنے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اس کو ’’مسلمان‘‘ اور مزید یہ کہ ’’پاکستانی‘‘ بنا کر پیش کردو۔ راٹھی کے چینل پر اب تک 622 وڈیوز ہیں ان میں سے درجن بھر ہی وڈیوز ایسی ہیں جو براہ راست مودی کے خلاف ذہن سازی کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ ماحولیات، سرمایہ دارانہ کارپوریٹ عزائم کے خلاف اور ان سب پر مودی سرکارکی سرپرستی کے اشارے بھی لوگوں کی ذہن سازی کا سبب بنے۔ منی پور میں جنگلات کا صفایا ہو، لداخ کی تباہی سے لے کر مسالوں میں خطرناک کیمیکلز کے سارے خطرناک کارپوریٹ عزائم پر ’’راٹھی کی لاٹھی‘‘ خوب چلی۔

اب کی بار400 پار:
2009 میں کانگریس کے من موہن سنگھ کے بعد 2014 سے لگا تار دوسری مرتبہ بی جے پی نے این ڈی اے اتحاد میں مرکزی کردار رکھ کر حکومت بنائی۔ اِن10 سال میں بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ’’ہندوتوا‘‘ ریاست کے طور پر پیش کیا۔ ہندوتوا سے مراد، ہندو ریاست یعنی وہ ریاست جس میں ہندو مذہبیت، ریاستی قوت سے غالب رہے۔ اس انتخاب میں بی جے پی، این ڈی اے یعنی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ تھی جس میں کئی جماعتیں شامل تھیں۔ دوسری جانب انڈیا کے نام سے الائنس تھا ،جس میں ’کانگریس‘ مرکزی جماعت کے طور پر تھی۔

2014 میں بی جے پی نے 282 نشستیں جیتی جب کہ اس کی اتحادی این ڈی اے کو ملا کر یہ 336 بنتی تھیں۔

2019 میں اکیلی بی جے پی نے 303 نشستیں جیتی تھیں، جب کہ اس کی اتحادی این ڈی اے کو ملا کر یہ 353 بنی تھیں۔

اس لیے اس الیکشن میں’مودی‘ نے 400 پار کرنے مطلب 543 میں سے 400 سے زائد نشستیں جیتنے کا بلند دعویٰ کیا۔ مگر نتائج میں بی جے پی 240 پر آگئی۔ ایسی کوئی دھاندلی کی اطلاعات وہاں نہیں ہوتیں کہ بیلٹ بکس اٹھا لیے، آر او سے ملنے نہیں دیا۔ نتائج بدل دیے، پولنگ دیر سے شروع ہوئی، عملہ نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ایگزٹ پول کی بنیاد پر مودی حکومت کے ماتحت ہونے والے الیکشن کو قبل از وقت دھاندلی زدہ کہا تھا، حکومتی وزرا پر دبائو ڈالنے کے بڑے الزامات لگے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بنیاد بنا کر بھی خاصی باتیں کی گئیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’ای وی ایم کو کئی بار ٹیسٹ کرلیا گیا ہے۔ اس کے پروگرام کو کسی سیل فون، بلو ٹوتھ یا کسی ڈیوائس سے جوڑ کر کسی قسم کی ہیرا پھیری کا کوئی سوال نہیں ہے۔ ’’ہندوستانی عدالتوں نے بڑی حد تک ای وی ایم کی توثیق کی ہے، یہ مشینیں 1990 سے بھارتی الیکشن میں بتدریج شامل ہوئیں اور اب 2024 تک 18 لاکھ مشینیں استعمال ہوئیں۔‘‘ (بحوالہ رائٹرز۔)

مودی برانڈ کو دھچکا :
بھارت میں مودی سرکار ہو یا امریکہ میں بائیڈن سرکار یا پاکستان میں عمرانی سرکار، سب میں یہی مشترک بات ہوتی ہے کہ کسی کو بھی اپنے خلاف کسی قسم کی ’’تنقید‘‘ برداشت نہیں ہوتی۔ یہ تینوں اپنی جگہ اپنے ممالک میں ایک ’’برانڈ‘‘ بن رہے تھے، ایک ’’کلٹ‘‘ کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ٹرمپ کے بارے میں انتہائی غیر اخلاقی اعمال کے الزامات ثابت ہونے کے باوجود یہ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ کلین سوئپ کرلے گا۔ عمران کا بھی ایسا ہی تھا، یہی صورت حال مودی کی بھی تھی۔ ان تینوں نے اپنے اپنے ممالک میں میڈِیا پر بھرپور قابو کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا پر تو سب کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ کا سب سے پہلے اسکینڈل سامنے آیا تھا کہ اس نے صدر بننے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کیا۔ عمران کے پورے دور میں بھی جو کچھ تھا سوشل میڈیا ہی تھا۔2024 کے انتخابات میں بھی عمران خان کی جو کامیابی ہے اس کے پیچھے بھی سوشل میڈیا کا اہم تکنیکی کردار ہے۔ یہاں بھارت میں بھی ایسا ہی چل رہا تھا۔ مگر یہ سب اپنی جگہ ’’کلٹ‘‘ بن رہے تھے‘ جو عالمی لبرل ایجنڈ ے کے لیے ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ ساتویں اور آخری انتخابی مرحلے سے پہلے ہی مودی جی نے خود کو بھگوان کے اوتار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ ایسی صورت حال میں مودی برانڈ کو دھچکا لگنا ہی تھا۔ کہنے والوں نے کہا کہ ’’رام مندر بنا کر ایودھیا سے ہار گئے۔‘‘

بڑی جمہوریت یا بڑی ڈکٹیٹر شپ:
بھارت دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ، بہت سارے معنوں میں کہلاتا ہے۔سب سے پہلے آبادی، جی ہاں ڈیڑھ ارب کی آبادی کوئی معمولی نہیں۔ اِس آباد ی میں 6 پاکستان آ سکتے ہیں۔ 96کروڑ ووٹروں میں سے 64 کروڑ ووٹروں نے اس الیکشن میں حصہ لیا۔ یہ الیکشن 7 مراحل میں ہوتے ہیں اور 42 دنوں میں مکمل ہوتے ہیں جس میں543 نشستوں کے لیے 10لاکھ تو پولنگ اسٹیشن تھے۔

پھر رقبہ اور اس کے بعد وہاں کی سیاست میں فوجی عمل دخل کا نہ ہونا یعنی الیکشن کا تسلسل۔ یہ خصوصیات اُسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بناتی ہیں۔ جمہوری ہونا ہمارے نزدیک تو کوئی قابل فخر بات نہیں، لیکن بات کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ تضاد بیانی، جھوٹ، دیانت کے سارے پیمانوں کو سامنے والے کے دعوے و نظریات اور اُس کے ورلڈ ویو پر ہی چیک کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار ’’ڈکٹیٹر شپ‘‘ کا روپ دھارنا شروع ہوگئی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ ’’راٹھی‘‘ نے ہی نمایاں طور پر مودی کو ’’ڈکٹیٹر‘‘ کے طور متعارف کرانے کی ہمت کی اور سارے تضادات کھل کر بیان کیے۔

بی جے پی کیوں نیچے آئی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق الیکشن مہم میں بی جے پی کے نمائندوں نے’ 400 پار‘ کا جواز یہ پیش کیا کہ ہم اس کے ذریعے ’’بھارتی آئین‘‘ میں تبدیلی کر سکیں گے۔ یہ تبدیلی کا اشارہ اس کو ’ہندوتوا‘ بنانے کی جانب ہی کہا جا سکتا ہے۔ گو کہ بی جے پی نے رد عمل آنے پر ایسے عزائم سے انکار کر دیا۔ مگر بی جے پی حرکات سے یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ وہ ایسے ہی عزائم رکھتی ہے۔ بھارت کے اکیڈمک تجزیہ کاروں کے مطابق ’بی جے پی‘ نے جھوٹے سیاسی وعدے جو عوام سے کیے وہ اپنی جگہ ووٹ بینک گرانے کا سبب رکھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ فلسطین کی موجودہ صورت حال میں بھارتی حکومت کا مکمل اسرائیل نواز ہونا بھی ردعمل کی اہم وجہ رہا۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی طور پر ’گھس کر ماریں گے‘ کی پالیسی کا بیک فائر بھی ایک دھبہ تھا۔ جی ہاں یہ پہلے پاکستان میں گھسے تو تاریخی ذلت کے ساتھ ’ونڈر فل ٹی‘ کا لقب لے کر واپس جانا پڑاپھر مزید اَپنے آ قائوں تک کے دیس میں گھس کر بندے مارنے کا جو کھیل کھیلا اُس کے اثرات کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کیا فلمیں، کیا ڈرامے، کیا ریڈیو، کیا اخبار، کیا سوشل میڈیا سب کچھ… مطلب سب کچھ۔ بی جے پی نے سارے بھارتی میڈیا کو پوری طرح اپنی گود میں لے کر ’’گودی میڈیا‘‘ کا لیبل لگایا۔ مگر اس کے باوجود کئی آوازیں تھیں جو اپنا کام دکھا گئیں۔ اب یہ صورتِ حال صاف نظر آرہی ہے کہ بی جے پی چاہے حکومت بنا لے مگر آئین میں تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوگا کہ اب پُر تشدد ہندوتوا کو بھی روک لگے گا۔

بھارتی ڈیپ اسٹیٹ :
بڑی جمہوریت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں کوئی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ نہیں۔ رواں سال بھارت میں17 ویں لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے بعد ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا تذکرہ بھی سوشل میڈیا اور چینلز پر شروع ہو چکا ہے۔

بھارتی الیکشن میں جس طرح کھربوں روپے پانی کی طرح بہایا گیا وہ سارے اسکینڈلز سب نے دیکھے اور یقین ہو گیا کہ یہی لبرل سرمایہ دار ہی دراصل ’ڈیپ اسٹیٹ‘ بن چکے ہیں۔

وراناسی (سابقہ بنارس) کی اپنی نشست پر وزیر اعظم نریندر مودی امسال صرف ڈیڑھ لاکھ ووٹ سے جیتے جب کہ 2019 میں مودی نے مخالف امیدوار سے 5 لاکھ ووٹ زیادہ لیے تھے۔ سب کا کہنا تھا کہ مودی اپنی نشست میں صرف مذہب کو ہی موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے پورے بھارت میں اپنے نمائندوں سے ہندو مذہبی بنیادوں کو نمایاں کرایا۔

مگر اب حکومت جو بھی بنائے گا، اُس کو اپنے اتحادیوں کی سخت شرائط کا سامنا ہوگا، ا ب اکیلے‘ اکیلے حکومت کے مزے ممکن نہیں رہے۔ اپوزیشن بھی اس بار مضبوط ملے گی۔ اس لیے جو بھی حکومت بنائے گا اس کو بہت محتاط چلنا ہوگا۔

25 کروڑ مسلمان :
یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کے لیے انقلابی بننے، اسلام سے جڑے رہنے، اسلام اور اسلامی شناخت پر فخر کرنے کا دور بتدریج ختم ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی جگہ ’’نیو لبرل ورلڈ آرڈر‘‘ کو لینی ہے۔ لبرل ورلڈ آرڈر سیکولر فریم ورک کا وہ کلیدی نمائندہ ہے جو تمام مذاہب کو آزادی کے نام پر کھا جاتا ہے۔ بھارت خود کو بڑے فخر سے سیکولر ریاست کہتا ہے، مطلب جہاں سب مذاہب کو آزادی حاصل ہے۔ عجیب بات ہے کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سیکولر بھارت کی وجہ سے وہ امن، سکھ چین سے اپنے مذہب کے مطابق رہ سکتے ہیں مگر تقسیم شدہ بھارت کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو مستقل بڑھتی ہوئی نفرت ہی ملی ہے یا پھر لادین و لبرل اقدار اپنانے کے لیے مکمل مواقع ملے ہیں۔ جہاد، غزوۂ ہند، پاکستان کے نام پر جو کچھ بھارتی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اس میں بی جے پی ہو یا کانگریس‘ کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ بابری مسجد کانگریس دور حکومت میں شہید کی گئی۔ جموں، حیدرآباد، بہار، آسام، یو پی ہاشم پورہ، بمبئی سمیت ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام بھی کانگریس ہی کی سربراہی میں ہوا۔ اس لیے نیو لبرل ورلڈ آرڈر جینے کا حق اب صرف اس کو دے گا جو سرمایہ کو خدا بنائے گا، اپنی اقدار، اپنا دین، اپنی روایت، اپنے مذہب کو چھوڑے گا۔ بھارت ترقی کے جس خطرناک راستے کو اپنا چکا ہے وہ پورے بھارت سے ہر قسم کی مذہبیت کو کھا جائے گی۔ مسئلہ صرف مسلمان اس لیے ہے کہ وہ تعداد میں بے شک کم ہے مگر اُس کی دینی، معاشرتی جڑ اَب بھی بہت مضبوط ہے۔ بھارت میں خود ہندو مذہب کے برخلاف شیطانی لبرل اقدار کا نفاذ ریاستی سطح پر جس وجہ سے جاری ہے وہ صاف پیغام دے رہا ہے کہ کانگریس، بی جے پی کوئی بھی ہو چلے گا۔ لبرل ورلڈ آرڈر ہم جنس پرستی، ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کو عام کرنا، ترقی کے نام پر سرمایہ دارانہ صنعتی کلچرہی فروغ پائے گا جو سب کو بہا لے جائے گا۔

حصہ