کف افسوس

170

آج نادیہ کالج گئی تھی مگر تین بجنے کو آئے، نادیہ کا پتا نہیں تھا جب کہ وہ ایک سے ڈیڑھ کے درمیان روز آجاتی تھی۔ امی بہت پریشان تھیں۔ انہیں ہول اٹھ رہے تھے۔ کبھی جاء نماز پر جاکر نفل پڑھتیں، کبھی کوئی وظیفہ… ان کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں اور کان موبائل پر کہ کب اس کی کال آجائے۔

شام کو حسین صاحب آفس سے آئے تو بیگم کو اتنا پریشان دیکھ کر پوچھا کہ ’’کیا بات ہے؟‘‘

بیگم نے کہا ’’نادیہ صبح کی کالج گئی ہے اب تک نہیں لوٹی، میں نے اس کی تمام دوستوں کو فون کرلیا ہے وہ کہیں نہیں ہے۔‘‘ اب تو حسین صاحب کے چھکے چھوٹ گئے۔ سر تھام کر بیٹھ گئے، اندیشوں نے گھر کرلیا… بیٹی کی عزت کا معاملہ تھا، تھانے جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عزیزوں، دوستوں، پڑوسیوں کو بتانے سے بھی کچھ نہ ہوتا سوائے باتیں بنانے، طعنے سننے اور مشورے دینے کے۔ حسین صاحب سوچنے لگے کہ اب کیا کریں؟

ان کے چاروں طرف اندھیرا چھا رہا تھا۔ ان کی بیٹی اغوا ہوچکی تھی، یہ سوچ سوچ کا دماغ کی رگیں پھٹ رہی تھیں اور بیگم کا حال ان سے سوا تھا۔

رات دو بجے گھنٹی بجی۔ حسین صاحب دروازے پر دوڑ کر پہنچے، دروازہ کھولا، سامنے نادیہ کھڑی تھی، اس کی ظاہری حالت اس کی شبِ غم کا فسانہ سنا رہی تھی۔

حسین صاحب نے نادیہ کو گھسیٹ کر گھر میں کیا اور دھڑ سے دروازہ بند دیا اس خوف سے کہ کہیں کسی پڑوسی کی نظر نادیہ پر نہ پڑ جائے۔ نادیہ امی سے لپٹی رو رہی تھی اور امی بھی رو رہی تھیں۔

آج امی اور حسین صاحب کو اللہ تعالیٰ بہت یاد آئے کہ اللہ تو انصاف کرنے والا ہے مگر اِس دنیا میں ظلم اور زیادتی کا انصاف کس سے مانگیں؟ بیٹی کو اغوا کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں… کہاں جاکر فریاد کریں…؟ کسی سے کہنا گویا بیٹی کی عزت کی دھجیاں اڑانے کے برابر تھا۔ بس توبہ کے دروازے کو پکڑا اور تینوں نے رو رو کر اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر معافی مانگی۔

ہمارا سسٹم اور نظام درست ہوتے تو کہیں شنوائی ہوتی۔ مگر جب موقع آیا تھا کہ صالح افراد کا انتخاب کرتے تو ان کا انتخاب نہ کیا۔ اگر وقت پر صحیح فیصلہ کرلیتے تو آج مجرم آزاد نہ ہوتے۔ صالح لوگوں نے تو صالح صلاح دی تھی کہ اسلامی نظام آگیا تو سمجھو عافیت کا نظام آگیا۔ مگر ہم مادہ پرست، دنیا پرست لوگوں نے اسلام کو مشکل سمجھتے ہوئے اس کے خلاف گواہی دی۔ آج کس بات کا شکوہ؟

نہ صرف نادیہ کا قصہ، بلکہ ہر گھر میں ایک نیا افسانہ سننے کو ملے گا۔ موبائل خریدنا ایک مشکل کام، مگر کتنے آرام سے بندوق سر پر رکھی اور لوٹ لیا۔ چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا تو بہت ہی عام سی بات ہے۔ بھتہ خوری پیشہ بنا لیا گیا ہے۔ بھتہ نہ دینے والے اپنے انجام سے لرز کر بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ نادیہ کے والدین کی طرح نہ جانے اور کتنے والدین اپنی بیٹیوں کی طرف سے پریشان رہتے ہیں، کیوں کہ عزتوں کے لٹیرے اللہ اور آخرت کے خوف سے آزاد ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں عزت سے رہ رہے ہیں اور باعزت لوگ ڈر ڈر کر زندگی گزار رہے ہیں۔ آخر یہ نظام کب بدلے گا؟ کیسے بدلے گا؟کون بدلے گا؟یہ بدل بھی سکتا ہے یا نہیں ؟

ہاں یہ بدل سکتا ہے، اسے ہم عوام ہی بدلیں گے، مگر شرط یہ ہے کہ حق کو سربلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنا مال اور اپنا آپ لگا ڈالیں۔ جب گواہی کا وقت آئے تو حق کا ساتھ دیں۔ اس وقت اگر حق کا ساتھ نہ دیا تو وقت گزر جائے گا اور پتا نہیں کب تک پچھتانا پڑے گا کہ جب وقت آیا تھا تو ہم نے حق کا ساتھ نہ دیا، گواہی کی اہمیت نہ جانی اور باطل کا ساتھ دیتے ہوئے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ اب کیا رونا؟
کیوں کہ اللہ بھی اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو نہ ہو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا۔

حصہ