صبح کی پُرکیف آمد کے ساتھ ہی اماں کی پیار بھری آواز کانوں میں پڑنے لگتی۔ اماں کا یوں لاڈ سے اٹھانا اسے اتنا اچھا لگتا کہ دل چاہتا اماں یہ رس کانوں میں گھولتی رہیں اور وہ سنتی رہے۔ نماز کا دوپٹہ اوڑھے ممتا کی بھرپور خوشبو جب بہت قریب آنے لگتی تو وہ اماں سے لپٹ جاتی اور بہانے بنا بنا کر اپنے لاڈ اٹھواتی… آخر کو وہ اماں کی لاڈلی ہی تو تھی۔
نماز سے فراغت کے بعد ناشتا کرکے وہ اسکول کی تیاری میں لگ جاتی اور اماں بقیہ ادھورے کام مکمل کرتی رہتیں۔
جو بھی اماں سے ملتا ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ’’سیدہ آپا! آپ کی بیٹی بہت خوب صورت ہے‘‘۔ جوں جوں لڑکپن سے جوانی کے دن قریب آتے جارہے تھے اس کی دل کشی اور حُسن میں چار چاند لگ رہے تھے۔ اکثر اس کے کانوں میں یہ آواز گونجتی ’’پتا بھی نہ چلے گا اور سیدہ آپا کی نور کسی کی منظور نظر ہوکر پیا گھر سدھار جائے گی۔‘‘
شروع شروع میں یہ باتیں اسے عجیب سی لگتی تھیں، مگر اب ایک تجسس سا ہونے لگا تھا۔ وہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی تو اماں ڈانٹ ڈپٹ کر دور ہٹا دیتیں اور ہمیشہ اُسے ایک ہی بات سمجھاتیں کہ ’’کبھی غرور نہ کرنا‘‘۔ اُسے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سمجھاتے ہوئے کہتیں کہ ’’ذرا سی بھی تعریف، خودپسندی یا اپنی ستائش کا حساب اللہ بہت کڑا لیتا ہے۔‘‘
وہ سوچتی کہ آخر اللہ ایسا کیوں کرے گا۔ اکثر و بیشتر اماں کی آواز کانوں میں گونجتی تو سہم کر پیچھے ہٹ جاتی۔ وقت کا پہیہ تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر ایسے گزرا کہ اسے پڑھائی اور ڈگریوں کی گونج میں کچھ اور یاد ہی نہ رہا۔ خوب صورتی کے ساتھ ساتھ بے فکری اور سحر انگیز اندازِ بیان ایسا چھایا کہ ہر طرف نور کی ہی بازگشت سننے کو ملتی۔ وہ جس سے بھی ملتی سب اس کے دلدادہ ہو جاتے۔ پر اماں کی بہترین تربیت و رہنمائی اور ساتھ نے اسے کبھی معیار سے اترنے نہ دیا۔
آج یونیورسٹی کا آخری دن تھا۔ سب ہی اپنے تئیں خوش لباس بن کر آئے تھے۔ وہ بھی اپنے لاپروا انداز سے ہٹ کر آج کسی ’’شاعر کا خواب‘‘ لگ رہی تھی۔ یونیورسٹی میں نہ جانے کتنوں نے اسے تعریفی کلمات اور ستائش بھری نظروں سے نوازا اور دیکھا۔ یوں دن تمام ہوا اور سب بھولی بسری یادیں لیے اپنے اپنے گھر روانہ ہوگئے۔ گھر واپسی پر اماں اس کی اداسی سمجھ رہی تھیں، پَر بولی کچھ نہیں کہ حالات کے پیش نظر یوں ہی وقتی خمار ہے، اتر جائے گا۔ وہ کپڑے بدل کر اماں کے ساتھ نمازِ عصر ادا کرنے لگی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اماں کی پرانی پڑوسن نفیسہ بیگم آئی ہیں۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ چائے بنانے چل دی اور اماں باتیں کرنے لگیں۔
اماں کی پڑوسن کسی رشتے کا بتا رہی تھیں۔ دھیمی دھیمی آوازیں سماعت میں تجسس پیدا کررہی تھیں۔ نہ جانے کس بات پر نفیسہ بیگم نے کہا ’’اے بہن! تم تو سمجھتی ہی نہیں ہو۔ اچھے رشتے نصیب سے ملتے ہیں اور عمر گزر جائے تو پھر اچھا بر ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اچھے نصیب کی دعا دو۔ وہ سنا نہیں تم نے ’’روپ کی روئیں، بھاگ کی کھائیں۔‘‘ وہ بہت دیر تک اس جملے کی گہرائی کو سوچتی رہی پَر سمجھ نہ سکی، اور خیالات کو جھٹک کر چائے لے کر کمرے میں چلی گئی۔
وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن وہ آیا جس کی ہر لڑکی کو چاہ ہوتی ہے۔ نور سب کی دعاؤں میں پیا گھر سدھار گئی۔ نوریز ایک سلجھا ہوا ہم سفر تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ سب ہی ان کے جوڑے کی تعریف کرتے اور دعائیں دیتے۔ گزرتے وقت کے ساتھ شادی کو دس ماہ ہوگئے۔ آج وہ اماں کے گھر ان سے ملنے آئی تو اداس تھی۔ اماں کے پوچھنے پر نہ چاہتے ہوئے بھی رندھے ہوئے گلے سے کہنے لگی ’’اماں! نوریز بہت اچھے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن آج کل وہ اولاد کے لیے بہت پریشان رہتے ہیں۔ بار بار مجھ سے پوچھتے ہیں۔‘‘
اماں نے اسے سمجھایا کہ ابھی تو شروعات ہے۔ اللہ نے چاہا تو اس کی گود بھر جائے گی۔ پَر وہ نوریز کا سوچ کر اندر ہی اندر گھٹ کر رہ گئی اورکچھ کہہ نہ سکی۔کہتی بھی تو کیا کہتی؟
سسرال والے بہت سلجھے ہوئے اور باشعور تھے۔ اس کی ساس ہمیشہ مسکراتیں اور دعا دے کر کہتیں ’’میرے آنگن میں اللہ کے حکم سے پھول کھلیں گے‘‘۔ وہ جھینپ جاتی، اور دل ہی دل میں آمین کہتی۔ آہستہ آہستہ سب کا اصرار اور سوالات بڑھنے لگے اور اس کے سجدے طویل ہونے لگے۔ وہ اللہ سے دعا کرتی ’’اے میرے مالک! مجھے بہترین وارث سے نواز دے۔‘‘ اماں کی سمجھائی ہوئی سورہ آل عمران کی تفسیر میں حضرت زکریا علیہ السلام کا کامل یقین اس کی ہمت بندھاتا۔ لیکن شاید اللہ کو امتحان لینا مقصود تھا، کیوں کہ مومنین کا صبر آزمانا ہی تو اللہ کی جانب سے اس کی آخرت کی نوازش و اکرام بن کر سامنے آتا ہے۔ چار سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد نوریز بہت مایوس ہوچکا تھا۔
اب کی بار کسی بڑی گائناکالوجسٹ سے اپائنٹمنٹ لی گئی تھی، چیک اَپ کے بعد رپورٹس نے اس کے ہوش اڑا دیے۔
’’وہ بانجھ تھی۔‘‘ اللہ نے سب کچھ نواز کر بس ایک محرومی دے کر آزمانے کا حکم صادر کردیا تھا۔ وہ بے بس تھی۔ چپ تھی۔ اماں اسے سمجھاتیں کہ اللہ فرماتا ہے ’’صبر اور نماز سے میری مدد حاصل کرو۔‘‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوریز کا تلخ لہجہ اسے اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ وہ شرمندہ سی رہتی۔ اب نوریز اور اس کے سسرال والے اسے بہانے بہانے سے اماں کے گھر جانے کا کہتے۔ ناچار وہ اماں کے گھر واپس آگئی۔ ایک ہفتے کی خاموشی اور سناٹے کے بعد اسے طلاق نامہ بھیج دیا گیا۔ وہ حیران و پریشان روتے ہوئے گر گئی۔ گویا قیامت کا سماں تھا۔ آج اسے اس کے اپنے ہی لباس نے بے لباس کردیا تھا۔ اتنے قیمتی رشتے کونوریز نے لمحوں میں پامال کردیا تھا۔
اس نے ’’سورہ العنکبوت‘‘ میں مکڑی کے ٹوٹے ہوئے کمزور گھر کا حوالہ پڑھا تھا۔ اچانک دل و دماغ نے سب سوچنا بند کردیا۔ وہ اماں سے لپٹ کر رو کر کہنے لگی ’’اماں! کیا انسانوں کے گھر بھی اتنے ہی کمزور ہوتے ہیںکہ ذرا سی آزمائش پر ٹوٹ جائیں؟ کیا یہ رشتہ اتنا ہی کمزور ہے؟‘‘
اور اماں کے کانوں میں نفیسہ بیگم کی آواز ہتھوڑے بن کر برس رہی تھی’’اے بہن روپ کی روئیں، بھاگ کی کھائیں۔‘‘
کیا اللہ خود گھر توڑ دیتا ہے؟ کیا وہ دعائیں نہیں سنتا؟ نہیں! اللہ تو رحمن اور رحیم ہے۔ وہ تو گھر جوڑتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو ذرا سی آزمائش پر بے صبری اور ناشکری کرکے اللہ کی رضا پر راضی نہ ہوکر اپنا گھر توڑ دیتا ہے اور اپنے قیمتی رشتوں کو محبت و عزت سے محروم کرکے خود بھی اذیت برداشت کرتا ہے اور جانے انجانے میں کسی کا دل بے دردی سے کچل دیتا ہے۔ وہ آنسو پونچھ کر اٹھی اور وضو کرکے اس معبودِ برحق کے سامنے جھک گئی جو حقیقی محبت کا حق دار اور کرم کرنے والا ہے۔ تو پھر کیوں کر وہ مایوس و دل برداشتہ ہوتی! آخر کو صبر کا انعام بہترین ہی تو ہے۔