’’استاد جی کو بتا دینا کہ میں دھرنے کے لیے جارہا ہوں اس لیے جلدی نکل رہا ہوں۔ میں لیڈ ٹیم میں شامل ہوں اور میرا وہاں جانا بہت ضروری ہے غزہ کے لیے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بعد تو جینا بھی اچھا نہیں لگتا۔ استاد کو میرا یہ پیغام پڑھا دینا۔‘‘
رومان ساجد شہید کا یہ آخری پیغام تھا جو اُس نے فلسطین دھرنا ڈی چوک میں نکلنے سے قبل اپنے دوست کو بھیجا تھا۔ وہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم اور آزاد کشمیر کا باشندہ تھا اور ’’سیو غزہ کمپیئن‘‘ میں بطور سوشل میڈیا ذمہ دار کام کررہا تھا۔
پندرہ دنوں سے پارلیمنٹ کے سامنے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب، ان کی اہلیہ حمیرا طیبہ (فاؤنڈر سیو غزہ کمپیئن) کچھ طلبہ اور شہریوں کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سخت گرمی میں یہ لوگ سڑکوں پر دن رات کیوں گزار رہے ہیں؟ کیا یہ ڈی چوک پر کسی ذاتی مفاد کے لیے جمع ہوئے ہیں؟ پولیس کی دھمکیوں، لاٹھی چارج، رات دو بجے گاڑی چڑھانے کے قاتلانہ واقعے اور دو معصوم شہریوں کی شہادت کے باوجود یہ لوگ دھرنا کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں… آخر کیوں؟
درحقیقت ان کا اپنا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہے بلکہ ’’فلسطین میں جاری نسل کُشی‘‘ کو روکنے اور عالمی طاقتوں کی کھلی دہشت گردی کے خلاف حکومتِ پاکستان سے عملی اقدامات کا تقاضا کررہے ہیں۔ ان حالات میں کہ غزہ میں پندرہ ہزار معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیل کر، بستیوں اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے، غیر مسلم اقوام بھی اب سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ انسانیت کی تذلیل کے خلاف انسانیت اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یورپی یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے فلسطین میں جاری قتلِ عام کو رکوانے کے لیے دھرنے اور جلسے کررہے ہیں، مسلم ممالک کی یہ خاموشی زندہ ضمیروں پر بے حد گراں گزر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایمان اور عقیدے کی جنگ ہے جو قبلۂ اوّل بیت المقدس، خانۂ خدا کی خاطر لڑی جارہی ہے۔ یہ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بہت جلد دیگر ممالک کو بھی لپیٹ میں لے لے گی۔ اگر امتِ مسلمہ نے جلد متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو یوں ہی گاجر مولی کی طرح یکے بعد دیگرے کٹتے مرتے چلے جائیں گے۔
’’سیو غزہ کمپیئن‘‘ کے تمام پُرامن شرکا مبارک باد کے مستحق ہیں جو حق کا عَلم اٹھائے میدان میں اترے ہوئے ہیں، اور غزہ کے معصوم بچوں کی تکالیف کو اپنے بچوں کی تکالیف کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ جنہیں اپنے رب العالمین کے سامنے جواب دہی کے خوف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں لاکھڑا کیا ہے، جنھہوں نے یہاں کیمپوں کو نمازوں، تلاوتِ قرآن اور دروس سے آباد کردیا ہے، جو لاٹھیاں برسانے والے پولیس اہلکاروں کو بھی پانی کی بوتلیں تقسیم کرتے نظر آتے ہیں۔
محترمہ حمیرا طیبہ ہر بار نوجوانوں کو پولیس گردی سے بچانے کے لیے خود پولیس کی گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں۔ انہوں نے صحابیہ حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی یاد تازہ کردی ہے، جو ایک غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چاروں طرف سے دفاع کررہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’آج تو ام عمارہ کا دن تھا۔‘‘ کیا کبھی کسی نے ویمن امپاورمنٹ کی ایسی مثال کہیں اور دیکھی ہے؟
ہر ایک قدم پر ثابت قدم رہے کچھ لوگ
جبینِ وقت پر کچھ ایسے رقم رہے کچھ لوگ
زوالِ جرأتِ کردار کے زمانے میں
پیامِ شاہِ امم کا بھرم رہے کچھ لوگ!