جلیا نوالہ باغ کےسانحے کے بعد ایک اہم کردار

241

برطانوی نوآبادیاتی راج کے دوران انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد برطانوی فوج کی مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائی درندگی اور ظلم و استبداد کی ان گنت وارداتوں کے ذریعے صرف شبہ کی بنیاد پر بغیر کسی ثبوت کے بے گناہ مسلمانوں کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا۔ علمائے کرام کو عمر قید کی سزا دے کر کالے پانی بھیج دیا گیا۔ مسلمانوں کی جاگیریں ضبط کرلی گئیں۔

۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو بیساکھی کا تہوار تھا۔ امرتسر میں یہ تہوار ہندو اور مسلمان مل کر منایا کرتے تھے۔ سیاسی رہنمائوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جلیانوالہ باغ میں ایک سیاسی جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس اور تحریک خلافت کا یہ مشترکہ جلسہ تھا۔ یہ دونوں اقوام برطانوی راج کے خلاف تھیں اور برطانوی حکومت ہند کے ری وولٹ ایکٹ کے نفاذ کے خلاف مشترکہ پلیٹ فارم سے برطانوی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتی تھیں۔ وہ متفقہ قرارداد منظور کرکے حکومتی احکامات کا بائیکاٹ کرنا چاہتی تھیں۔ جلسے کے انعقاد کے بارے میں گورنر پنجاب سرمائیکل ایڈوائر کو جوں ہی رپورٹ ملی انہوں نے لاہور ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل ڈائر کو اس بارے میں حکم دیا کہ یہ حکومت مخالف جلسہ کسی قیمت پر بھی منعقد نہیں ہونا چاہیے۔ طاقت کا بھرپور استعمال کیا جائے تاکہ آئندہ ہندوستانی اس قسم کی جرات نہ کرسکیں۔ جنرل ڈائر نے اس سلسلے میں فوری کارروائی کرتے ہوئے امرتسر چھائونی میں مقیم برطانوی یونٹ کی ایک مشین گن کمپنی کو متعین کردیا جس کے کمانڈر میجر البرٹ ریمزے میسی تھے۔ کمپنی جب جلیانوالہ باغ پہنچی تو جلسہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ہر طرف بڑے بڑے قدم آدم بینر لگے ہوئے تھے جن میں گاندھی اور مولانا جوہر کی قد آدم تصاویر آویزاں تھیں۔ حکومت کے خلاف نعرے لگ رہے تھے اور جارج پنجم کا پتلا جلایا جارہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر فوجیوں نے قریبی مکانوں کی چھتوں پر پوزیشن سنبھال لی تاکہ حکم ملتے ہی جلسے کے حاضرین پر فائر کھول دیا جائے۔ میجر میسی نے جائزہ لیا اور اچانک کسی غیبی طاقت نے نہتے عوام پر گولیاں برسانے سے روک دیا اور کمپنی کی کمان اپنے نائب کو سونپ کر واپس ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا اور اپنی جگہ کسی اور افسر کو بھیجنے کی درخواست کی۔ میجر میسی کو حکم عدولی پر فوراً حراست میں لے لیا گیا اور دوسرے میجر کو اس کی جگہ بھیج دیا گیا۔ جب دوسرا میجر وہاں پہنچا تو جلسہ شروع ہو چکا تھا اور حکومت کے خلاف بغاوت کا ریزولیوشن پاس ہونے والا تھا کہ میجر نے ہر سہ پوسٹوں کو فائر کرنے کا اشارہ کیا۔ آن کی آن میں سینکڑوں بے گناہوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہو گئے۔ان کی لاشیں میدان میں بکھر گئیں۔ مرنے والوں کی تعداد کئی ہزار تھی اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا۔

ساٹھ ستر ہزار کے مجمع میں بمشکل ۵ یا ۶ ہزار ہزار اپنی جان بچاسکے۔ برطانوی راج کے دوران جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد یہ سب سے بدترین حادثہ تھا۔ ملک میں فوری ردعمل یہ ہوا کہ جہاں کہیں بھی کوئی انگریز نظر آیا، اس کو بڑی بے دردی سے ماردیا گیا۔ مردوں کے علاوہ انگریز عورتوں اور بچوں کو بھی سر بازار قتل کر دیا گیا۔ سرکاری عمارتوں کو آگ لگادی گئی۔ ریل کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں۔ گوجرانوالہ کا ریلوے سٹیشن ململ طور پر جلا دیا گیا۔ حکومت کو کسی ہندستانی پر اعتماد نہ رہا۔ انڈین آرمی کے کئی یونٹوں سے ہتھیار لے لیے گئے۔ دوسرے روز ضلع امرتسر کے علاوہ لاہور اور گوجرانوالہ میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ تشدد کی ایسی تباہی کی خبر جب انگلینڈ پہنچی تو برطانوی پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ذمہ دار افسروں کو واپس بلایا جائے اور ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ گورنر پنجاب سرمائیکل ایڈوائر اور جنرل ڈائر ملازمت سے سبکدوش کر دیے گئے۔ ان پر مقدمات تو کیا چلتے محض ہندستانیوں کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر ان کو برائے نام سزائیں دی گئیں۔

میجر میسی کا کورٹ مارشل ہوا اور حکم عدولی کی سزا کے طور پر اس کی تنزلی کر کے لیفٹیننٹ بنا دیا گیا اور ہندستان سے انگلینڈ بھیج کر اس کی تعیناتی دوسری یونٹ میں کر دی گئی۔ آٹھ نو سال کے بعد وہ پھر میجر کے رینک پر پہنچا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اب کے دوبارہ اس کی موجودہ یونٹ کو تین سال کے لیے ہندستان بھیجا گیا۔

یہ برٹش یونٹ ،اٹک کے قلعہ میں تعینات کی گئی۔ شاید یہ قلعہ مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیر کرایا تھا۔ جب سے انگریزوں کا قبضہ اس ملک پر ہواتھا اس قلعہ میں ہمیشہ ایک برٹش یونٹ اور کچھ انڈین آرمی کی یونٹیں رکھی جاتی تھیں۔ جون کا مہینہ تھا اور شدید گرمی کا موسم۔ خصوصاً خشک پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے قلعہ اٹک کا درجہ حرارت ان ایام میں ۳۱ ڈگری تک پہنچ جاتاتھا۔ اس موسم میں ایک روز کا واقعہ ہے کہ میجر میسی پریڈ سے واپس آکر اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا۔ اسے کوئی خاص رپورٹ تیار کرنا تھی’ اس لیے کھانے پر نہیں گیاتھا۔

ایک ہندوستانی سپاہی کو سزا کے طور پر تپتی دھوپ میں اینٹوں کے بوجھ کے ساتھ دوڑایا جارہا تھا۔دو بجے کا وقت ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے والی پریڈ گراؤنڈ میں ایک ہندستانی سپاہی کو سزا کے طور پر میدان میں دوڑایا جارہا ہے۔ اس کی پیٹھ پر اینٹوں سے بھرا پٹھو بندھا ہے۔ اس تپتی دھوپ میں کولہو کے بیل کی طرح اسے دوڑایا جارہا ہے۔ اگر اس کی رفتار میں تھوڑی سی سستی آتی ہے تو پیچھے سے سکھ سنتری اسے کوڑا مارتا ہے تاکہ وہ پوری رفتار سے دوڑے۔ یہ سلسلہ پورے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ میجر میسی اس ہندستانی سپاہی کی ہمت پر حیران ہو رہا تھا۔ جب گھڑی نے اڑھائی بجائے تو سکھ سنتری نے اسے ٹھہر جانے کو کہا اور اس کو آدھ گھنٹہ آرام کرنے کا موقع دیا۔ میجر میسی یہ نظارہ دیکھتا رہا۔

جونہی اس سزا یافتہ کو چھٹی ملی ،وہ بڑی تیزی سے نل پر پہنچا۔ دونوں ہاتھ دھوئے پھر تین دفعہ منہ میں پانی ڈال کر کلی کر کے پانی باہر پھینک دیا لیکن ایک گھونٹ بھی حلق سے نیچے نہ اترنے دیا اس کے بعد چہرے کو اور کہنیوں کو دھویا۔آخر میں پاؤں دھوئے اور آگ کی طرح جلتی زمین پر قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھ باندھ کر عبادت(نماز) میں مصروف ہوگیا۔ ابھی اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے تھے کہ سکھ سنتری پھر موت کے فرشتہ کی طرح اس کے سر پر آنازل ہوا اورپہلے کی طرح اس کو دوڑانا شروع کر دیا۔

دفترکی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ کر میجر میسی کی حیرت کی انتہانہ رہی۔ اپنے دفتر سے اٹھ کر انڈین یونٹ کے دفتر پہنچا۔ وہاں اپنے ہم عہدہ میجر سے دریافت کیا کہ سامنے والی پریڈ گراؤنڈ میں اس کے ایک سپاہی کو سزادی جارہی ہے۔ کیا اس نے کوئی بڑا جرم کیا ہے۔ اس کی بلند ہمتی قابلِ صد آفرین ہے کہ اس شدید گرمی میں بھی اس نے ایک گھونٹ پانی نہیں پیا۔ یہ تو کوئی سپر انسان ہے۔ میجر میسی نے اس سے سفارش کی کہ اب اس کی سزا معاف کر دی جائے اور اس کو یہاں دفتر میں بلوایا جائے، کیوںکہ میں اس سے کچھ دریافت کرنا چاہتا ہے۔ اس کو بلوایا گیا۔ سب سے پہلے تو میجر میسی نے اس سے دریافت کیا کہ اس نے کون سا قصور کیا ہے ،جس کی بنا پر اس کو اتنی سخت سزا دی گئی ہے۔ سپاہی نے بتایا کہ وہ صبح کی پریڈ میں چند منٹ دیر سے پہنچا تھا۔ اس قصور پر اس کے سکھ کمپنی آفیسر نے یہ سزاسنائی تھی۔ (انڈین آرمی میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ محض مذہبی تعصب کی بنا پر سکھ، مسلمان سپاہیوں کو سخت سے سخت سزا دیا کرتے تھے) اس کے بعد دوسرا سوال میجر میسی نے اس سے یہ کیا ،کہ کیا اس قیامت خیز گرمی میں اسے پیاس محسوس نہ ہوئی؟ کہ اتنی زبردست ورزش کے بعد اس نے منہ میں پانی ڈال کر کلی کر دی۔ سپاہی نے جواب دیا کہ جناب وہ بھی انسان ہے اور پیاس سے اس کابھی برا حال ہو رہا ہے۔ لیکن اس نے پیاس کی یہ شدت محض اس لیے برداشت کی کہ وہ مسلمان ہے اور اسلام کا تیسرا بڑا رکن ،یعنی ماہِ رمضان کے روزے ہیں۔

یہ رمضان کا مہینہ ہے ،ہرمسلمان بالغ تندرست پر روزہ فرض ہے۔ صبح سے شام تک کھانا پینا منع ہے۔ اس نے تفصیل سے روزہ کے فلسفے پر روشنی ڈالی۔ میجر میسی نے اس سے پوچھا کہ اس قدر پیاس کی شدت تھی، اگر ایک دو گھونٹ پانی پی لیتا تو اس وقت اس کو کون دیکھ رہا تھا۔ سپاہی نے جواب دیا کوئی دیکھے یا نہ دیکھے مگر خدا تو حاضروناظر ہے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا۔ مسلمان کے لیے جان دینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن وہ خدائے وحدہٗ لاشریک کی حکم عدولی کرے یہ اس کے لیے درست نہیں۔ تیسری بات میجر میسی نے اس سے یہ کہی کہ جب کہ تم کو صرف چند منٹ کا وقفہ آرام کرنے کو ملا تو تھوڑی دیر کے لیے کسی سائے میں سستا لیتے اور تازہ دم ہوجاتے۔

سپاہی نے جواب دیا کہ مسلمان کے لیے سب سے بڑا رکن نماز ہے۔ ہر نماز وقت پر اداکرنا فرض ہے۔ وقت اتنا کم تھا کہ اگر وہ سستانے کے لیے بیٹھ جاتا تو نماز کا وقت گزر جاتا اور اس کی نماز قضا ہو جاتی، جس سے اس کا خدا ناراض ہو جاتا۔ اس نے سستانے کی بجائے فرض کی ادائیگی کو مقدم سمجھا۔

سپاہی کی باتیں سن کر میجر پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔وہ واپس بنگلہ پہنچا اور گھنٹوں گہرے خیالوں میں گم رہا۔ وہ اسلام کے فلسفے پر سوچتا رہا اور اس کے ادنیٰ پیروکار کی مذہب سے وابستگی دیکھ کر بڑا متاثر ہوا۔ شام کو کلب جانا چھوڑ دیا۔

ایک مسلمان کی مذہب سے وابستگی سے میسی بہت متاثر ہوا۔ اپنی فوجی ڈیوٹی میں دلچسپی لینی بھی چھوڑ دی۔ بالکل خاموش رہتااور سب سے علیحدگی اختیار کر لی اس کے ساتھی آفیسر حیران تھے کہ میجر میسی کو کیا ہوگیا۔ گہرے خیالوں میں مستغرق رہتا ہے۔ ہفتہ کے بعد اس نے چار روز کی رخصت لی۔ راولپنڈی پہنچا اور وہاں تمام کتب فروشوں کی دکانیں چھان ماریں اور جہاں جہاں اسے اسلام پر کوئی کتاب انگریزی میں نظر آئی، خرید لی۔ درجنوں کتابیں،قرآن پاک کے چند پارے جو انگریزی میں ترجمہ ہوچکے تھے لے کر واپس قلعہ اٹک پہنچا۔اب تو صبح و شام انہی کتابوں میں مصروف رہتا ۔ چند دنوں کے بعد اس نے اسلام کی بابت کافی معلومات حاصل کر لیں۔ اب اس نے فیصلہ کر لیا کہ جتنی جلدی ہو سکے حلقہ اسلام میں داخل ہو کر زندگی کو نئے ڈھب پر ڈھالے اور گزشتہ گناہوں کی تلافی کرے اور جلد سے جلد باقاعدہ اسلام قبول کر کے باقی زندگی اسلام کی تبلیغ وتعلیم میں گزارے۔ ایک روز جمعہ کے دن جب قلعہ کی مسجد میں اذان ہوئی تو میجر میسی نہا دھوکر مسجد جا پہنچا۔ امام صاحب نے ابھی خطبہ شروع نہیں کیا تھا۔ نمازی مسجد میں جمع ہورہے تھے۔ وہ سیدھا پہلی صف میں جا پہنچا اور امام صاحب سے بڑے مؤدبانہ اور نیاز مندانہ لہجے میں التجا کی کہ آپ مجھے حلقہ اسلام میں داخل کر لیں اور کہا کہ مجھے یقین ہو چکا ہے کہ اسلام ہی ایک سچا دین ہے اورقرآن مجید واحد الہامی کتاب ہے، جس میں چودہ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ایک زبر یا زیر کی تبدیلی نہیں ہوئی۔امام صاحب اور باقی سب حاضرین برٹش یونٹ کے ایک برٹش میجر کی زبان سے یہ الفاظ سن کر دنگ رہ گئے۔ شاید امام صاحب ایسے خیالات میں مستغرق تھے کہ ایسا کرنے سے ان کا انجام کیا ہوگا، غرض یہ کہ کچھ دیر کھڑے کھڑے میجر میسی کی صورت تکتے رہے۔اتنے میں حاضرین نے زبردست مطالبہ کیا کہ امام صاحب جلدی کریں۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ خطبہ سے پہلے یہ کار ِخیر سر انجام دیں۔ میجر صاحب کو کلمہ طیبہ پڑھائیں اور مشرف بہ اسلام کر دیں۔

لہٰذا امام صاحب نے میجر میسی کو کلمہ پڑھایا اور اس کا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ اس پر مسجد سے نعرہ تکبیر بلند ہوا۔ خوشی سے سب نے میجر میسی کے ہاتھ چومے۔ باری باری ہر ایک نے ا سے گلے لگایااور ہدیہ تبریک پیش کیا۔ یہ خبر قلعہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ جب یہ خبر برطانوی کیمپ میں پہنچی تو یونٹ کمانڈر نے فوراً بگلر کو حکم دیا کہ آفیسر کال بجائی جائے۔ سزا کے طور پر میجر میسی کو سب سے سامنے کھڑا کیا گیا۔ اس کی پیٹی (بیلٹ) اور بیجز آف رینک اتار دیے گئے اور کرنل کے حکم سے حراست میں لے کربنگلہ میں نظر بندکر دیا گیا اور ایک دوسرا سینئر میجراس پر تعینا ت کر دیا گیااور فوراً رپورٹ آرمی ہیڈ کوارٹرز دہلی کو بھیجی گئی۔ دوسرے ہی روز دہلی سے ایک برگیڈئیر اور ایک کرنل وہاں پہنچے۔

اورمیجر میسی کا کورٹ مارشل ہوا، جس کے نتیجے میں اس کو ’’بارہ پتھر‘‘ کی سزا دی گئی۔ یعنی میجر میسی کو ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔ اس کا تمام سامان بحق سرکار ضبط کیا گیا۔ بینک بیلنس منجمد کر دیاگیا اور گارڈ کی سپردگی میں اسے راولپنڈی سے لاہور کا ٹکٹ دے کر روانہ کر دیاگیا۔

اتفاقاً اس کی جیب میں صرف تین چار سو روپے تھے اور تن پر تین کپڑے اور بس۔ کسمپرسی کی حالت میں لاہور پہنچا۔ اسٹیشن سے باہر نکلا، وہ کچھ نہیں جانتا تھا کہ کہاں جائے۔ یہاں کوئی اس کا شناسا نہ تھا۔ اسٹیشن کے نزدیک ہوٹل پہنچا اور چھوٹا سا کمرہ بک کرایا۔ کئی روز تک تو کمرے کے اندر ہی رہا۔ کھانا بھی کمرے میں کھاتا تھا۔ جب تنہائی سے گھبراگیا تو کھانے کے وقت ڈائننگ ہال میں جاتا اور دور ایک کونے کی میز پر اکیلا بیٹھتا اورکھانا کھا کر واپس کمرے میں آجاتا۔ اس کو اگر کسی بات کا افسوس تھا تو صرف یہ کہ اس کی تمام کتابیں بھی ضبط کر لی گئیں تھیں۔ اخبار پڑھنے کے سوا ا س کااور کوئی شغل نہ تھا۔

ایک روز ڈائننگ ہال میں ایک تقریب تھی اور بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ خوب رونق تھی لیکن میجر میسی خامو ش ،ایک کونے میں بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ سب کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے خیالات میں گم تھا۔ جب تقریب ختم ہوئی تو ایک آدمی اس کے پاس پہنچا اور معذرت کر کے دریافت کیاکہ آپ کون ہیں؟ کس ملک سے آپ کا تعلق ہے؟ میجر میسی نے نہایت خندہ پیشانی سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ اس کی اتنی مدد کریں کہ کسی اسلامی ادارے سے اس کا تعارف کروا دیں تا کہ وہ اسلام کے متعلق پوری معلومات حاصل کر سکے۔ اس شخص نے وعدہ کیا کہ دوسرے روز وہ اس کو ساتھ لے جاکر لاہور میں اسلامی ادارہ سے روشناس کرائے گا۔ دوسرے روز وقت مقررہ پر وہ شخص میجر میسی کو انجمن اشاعتِ اسلام کے دفتر لے گیا۔ یہ جماعت احمدیہ کی لاہوری پارٹی کا دفتر تھا۔ وہاں جماعت کے سربراہ نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے کسی معقول تنخواہ والی ملازمت کا انتظام کر دے گا۔

میجر ہر روز ان کے دفتر جاتا اور لائبریری میں کتب کا مطالعہ کرتا۔ وہ بڑا خوش تھا کہ اللہ نے اسے ایک تبلیغی ادارے سے منسلک کر دیا ہے۔ ایک روز لائبریری میں بیٹھا ایک رسالہ پڑھ رہاتھا۔ اس رسالہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کا ذکر تھا اور مرزا کی پیشن گوئیوں پر بحث کی گئی تھی۔ میجر میسی کو اس عبارت کے پڑھنے سے بڑی حیرانی ہوئی کہ جو کچھ اب تک اس نے اسلامی کتابوں میں پڑھا تھا اور جو کچھ اس کو بتایاگیا تھا وہ حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات تھی کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ ؐ آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔ لیکن غلام احمد اس بات کی صاف نفی کرتا ہے۔

میجر نے بار بار اس تحریر کو پڑھا۔ یہ بات میجر میسی کی سمجھ سے بالاتھی۔ وہ وہی رسالہ لے کر لائبریری کے انچارج کے پاس پہنچا اور اس سے وضاحت چاہی، مگر وہ اس کو مطمئن نہ کر سکا۔ دوسرے روز جمعہ تھا۔ میجر میسی ان کی مسجد میں گیا اور نماز کے بعد اس نے امام مسجد سے اس مسئلہ کی وضاحت چاہی، مگر امام مسجد کی باتوں سے مطمئن ہونے کے بجائے اس دل میں مزید شکوک پیدا ہوئے۔قادیانی علمااس کو غلام احمد کی نبوت کا قائل نہ کرسکے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے عالم سے اس بارے میں گفتگو کرے لیکن وہ کسی کو نہ جانتا تھا کیونکہ ان چند دنوں میں اس کو صرف قادیانیوں ہی سے واسطہ پڑا تھا۔

اتفاق سے لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ میں اس نے علامہ عبداللہ یوسف علی کا ایک مضمون پڑھا جو ان دنوں اسلامیہ کالج(ریلوے روڈ) لاہور کے پرنسپل تھے۔ میجر میسی نے علامہ عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمہ قرآن کے چند پارے پڑھے تھے۔ ان کے نام سے واقف تھا۔ لہٰذا اسی دن سیدھا اسلامیہ کالج پہنچا اور علامہ سے انٹرویو کے لیے وقت مانگا۔ علامہ نے فوراً اس کو اندر بلا لیا۔ علامہ نے اس کو ساری بات سمجھا دی، تسلی دی اورکہا تمہاری پریشانی واقعی بجا ہے۔

علامہ اسی روز چند دنوں کے لیے ممبئی جارہے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ واپسی پر وہ اس کی تشفی کرا دیں گے۔ فی الحال اس کا تعارف علما سے کرا دیا تاکہ اس کو اسلام کی صحیح تعلیم دیں۔ کچھ دنوں بعد علامہ واپس لاہور پہنچے اور میجر میسی سے دریافت کیا کہ آیا علما نے اس کی تسلی کرادی ہے اور معلوم ہوگیا ہوگا کہ قادیانی فرقہ نے مذہب اسلام میں ایک فتنہ پیدا کیا ہے۔ علامہ صاحب جو خود بھی عربی زبان پر عبور رکھتے تھے اور قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھ رہے تھے ،میجر میسی کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ میجر میسی نے ان کی صحبت سے بڑا فائدہ اٹھایا۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا علمائے دین سے اس کی واقفیت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اب لاہورکے مسلم اشراف میں اس کو نمایاں حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔ اتنے عرصے میں اس کے پاس جتنے روپے تھے، وہ سب خرچ ہوچکے تھے۔ اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ کسی سے اس مسئلے پر بات کرے۔ آئندہ کے لیے اس کو فکر لاحق ہوئی۔ ایک روز مجبوراً علامہ یوسف علی کو اپنی پریشانی کے متعلق بتایاکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کوکوئی ایسا روزگار مل جائے، جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ وہ کسی فرد یا ادارے پر بوجھ نہیں بننا چاہتا ۔ لہٰذا علامہ صاحب نے دوسرے ہی روز انجمن حمایت اسلام کے اس وقت کے صدر شیخ عبدالقادر سے اس کا ذکر کیا اور اس بارے میں پوری کوشش اور امداد کا وعدہ کیا۔ شیخ صاحب کے دماغ میں ایک منصوبہ آیا۔

اسی سال ماہ دسمبر کے آخری ہفتے میں ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ کا سالانہ اجلاس منعقد ہونے والا ہے اور جلسے کی صدارت کے لیے ہز ہائی نس نواب سر صادق محمد خان عباسی خامس فرمانروا ریاست بہاولپور کو مدعو کیا گیا ہے۔ اس موقع پر میسی کا نواب صاحب سے تعارف کرایاجائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اس نومسلم کی امداد کریں۔ یقین تھا کہ نواب صاحب ضرور اس بارے میں کوئی مناسب انتظام کر دیں گے۔

۲۶ دسمبر ۱۹۳۰ء کو انجمن کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام برصغیر سے نامور دانشور، علمائے دین اور اکابر ملت نے شمولیت کی۔ شروع سے ہی یہ طریقہ رائج تھا کہ ہر سال کسی مشہور نو مسلم کو مدعو کیا جاتا کہ وہ حلقہ اسلام میں داخل ہونے کی وجہ بیان کرے اور دین اسلام کے فلسفہ پر روشنی ڈالے۔

چنانچہ اس مرتبہ میجر میسی نے اپنی داستان سنائی کہ کس طرح ایک سپاہی کے جذبہ ایمانی نے اس کی دنیا بدل دی، اس کی اس سرگزشت نے صدرِجلسہ نواب صاحب پر بڑا اثر ڈالا۔ تقریر کے بعد نواب صاحب نے اس کو گلے لگالیا اور مبارکباد دی، اس کی جرات اور اسلام کی خاطر اتنی قربانی دینے پر داد دی۔ انجمن کا جلسہ ختم ہوا تو اسی رات انجمن حمایت اسلام کے صدر شیخ عبدالقادر نے نواب بہاولپور کے اعزاز میں اپنی کوٹھی واقعہ ٹیمپل روڈ(موجودہ حمید نظامی روڈ) پر دعوت دی جس میں پنجاب بھر کے تمام سرکردہ مسلمان رہنما شامل تھے۔ میجر میسی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ کھانے کے خاتمہ پر سر عبدالقادر نے باری باری تما م حاضرین کا نواب صاحب سے تعارف کرایا۔ سب سے آخر میں میجر میسی کو بلایا گیا ۔نواب صاحب نے اس سے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا اور اپنے ساتھ صوفہ پر بٹھایا۔ شیخ صاحب نے یہ موقع غنیمت جانا اور نواب صاحب سے التجا کی کہ میجر میسی کے ذریعہ معاش کا اگر ریاست انتظام کر سکے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کیونکہ اس طرح وہ اسلامی ریاست کے اس اسلامی معاشرے میں رہ کر اسلام کی اصل روح پہچانے گا اور ساتھ ہی کسی کا دست نگر نہ ہوگا اور خود داری سے زندگی بسر کر سکے گا۔

یہ سنتے ہی نواب صاحب بڑے خوش ہوئے اور میجر میسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میجر صاحب! کیا آپ دوبارہ فوجی زندگی اختیار کرنا پسند کریں گے۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ حکومت ہند کی طرف سے جو اسٹیٹ فورسز کی نئی پالیسی نافذ کی گئی ہے کہ ریاستی افواج کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلا حصہ امپیریل ٹروپس جو ٹریننگ اور انتظامی طور پر انڈین آرمی کا حصہ ہوگا۔ البتہ اس کے اخراجات ریاست برداشت کرے گی، لیکن بوقت ضرورت حکومت ہند، اس فورس کو ریاست سے باہر جہاں ضرورت ہوگی تعینات کر سکے گی۔ دوسرا حصہ ریاست کے اندرونی نظم و نسق کے لیے اور تیسرا حصہ ریاست کے حکمران کا حفاظتی دستہ۔ تشکیل نو کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ ان کو میجر کے عہدہ سے ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل بنائیں اور فرسٹ بہاولپور انفنٹری کی کمان ان کو سونپ دیں۔ نواب صاحب کی یہ بات سن کر میجر میسی بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے، زہے قسمت کہ ان کو اسلامی ریاست کی فوج کی قیادت نصیب ہو لیکن اس بارے میں اتنی عرض ہے کہ ان کی تعیناتی سے حکومت ہند کا پولیٹیکل محکمہ ناراض نہ ہوجائے اور اس کی وجہ سے آپ کو کوئی نقصان پہنچے۔ نواب صاحب نے مسکرا کر جواب دیاکہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس بات کا وہ خود خا طر خواہ انتظام کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی ذات پر کوئی حرف نہ آئے گا۔ میجر میسی نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تو نواب صاحب نے فوراً اپنے ملٹری سیکرٹری کو مخاطب کر کے کہاکہ بہاولپور پہنچ کر وزیر افواج اور جنرل آفیسر کمانڈنگ کی طرف سے میجر میسی کو بہاولپور اسٹیٹ فورسز میں بہ عہدہ لیفٹنٹ کرنل کی تعیناتی کے احکام جاری کرائے جائیں۔

ابھی چار ہی روز گزرے تھے کہ میجر میسی کو شیخ عبدالقادر کی معرفت آرمی منسٹر کے دفتر سے چٹھی ملی، جس میں اس کی تعیناتی کے علاوہ میجر کے رینک سے لیفٹنٹ کرنل کے عہدہ پر ترقی کا حکم تھا اور یہ کہ وہ جلد از جلد ڈیرہ نواب صاحب، جہاں بہاولپور اسٹیٹ فورسز کا ہیڈ کوارٹر تھا، پہنچ کر عہدے کا چارج سنبھال لیں۔میجر میسی دوسرے ہی روز لاہور سے روانہ ہو کر ڈیرہ نواب صاحب (یہ جگہ بہاولپور سے 35میل کے فاصلے پر واقع ہے) پہنچے۔ اسٹیشن پر نواب صاحب کا اے ڈی سی استقبال کے لیے موجود تھا۔ وہ ان کو ہمراہ لے کر سیدھا شاہی مہمان خانہ پہنچا اور تھوڑی دیر کے بعد آرمی منسٹر اور جنرل آفیسر کمانڈنگ کے ہیڈ کوارٹر جاکر حاضری کی رپورٹ دی۔ ابتدا میں میجر صاحب کو شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا، اس کے بعد ایک بنگلہ جو پوری طرح آراستہ تھا، اس میں منتقل کیا گیا۔ چارج سنبھالنے سے پہلے آرمی منسٹر میجر میسی کو اپنے ہمراہ شاہی محل صادق گڑھ پیلس لے گیا۔نواب صاحب کے حکم کے مطابق نواب صاحب سے ہر ملاقاتی کے لیے ضروری تھا کہ محل کے مین گیٹ پر، سر پر، ترکی ٹوپی پہنے وہاں درجنوں ترکی ٹوپیاں مختلف سائز کی موجود تھیں۔ نواب صاحب سے ملاقات کے لیے اس لباس کا ہوناضروری تھا۔ ماسوائے والیان ریاست ،وائسرائے ہند، گورنر اور کمانڈر انچیف باقی کوئی شخص ترکی ٹوپی پہنے بغیر گیٹ کے اندر نہیں جاسکتا تھا۔ انگریز ہو یا ہندو ان کو ملاقات کے وقت سرخ ترکی ٹوپی پہننی ضروری تھی۔ میجر میسی نے ترکی ٹوپی پہنی جب شیشہ دیکھا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ پہلے وہ باطنی طور پر مسلمان تھے لیکن اسلامی لباس پہننے سے اب ظاہری طور پر بھی مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میجر میسی کو ملاقات کا طریقہ بھی سمجھا دیا گیاتھا کہ ہر ملاقاتی اپنے منصب اور عہدہ کے مطابق نواب صاحب کو نذرانہ پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے سونے کی دو اشرفیاں نچھاور کیں۔

نواب صاحب نے گلے لگایا اور اس کے بعد اس کے کندھے پر ایک اور اسٹار لگاکر میجر سے لیفٹیننٹ کرنل بنا دیا اور ایک سنہری دستے کی تلوار عنایت کی۔ایک سال کے قلیل عرصہ میں کرنل میسی نے یونٹ کی تربیت اور نظم و نسق کا معیار انڈین آرمی تک پہنچا دیا۔ دوسرے سال جب جنرل ہیڈ کوارٹر دہلی سے انڈین اسٹیٹ فورسز کا ملٹری ایڈوائزر انچیف سالانہ معائنہ کے لیے آیا تو اس نے نواب صاحب کو مبارک باد دی اور کہا کہ آپ کی فورسز کا معیار ہندستان کی تمام ریاستی افواج سے اعلیٰ ہے اور انڈین آرمی کی کسی یونٹ سے کسی طرح کم نہیں۔

نواب صاحب نے کچھ عرصہ بعد کرنل میسی کی شادی کا بندوبست کر دیا اور ایک معزز خاندان کی بیوہ سے اس کا نکاح کر ادیا تا کہ اسے خانگی زندگی کا آرام میسر ہو۔ راقم کو فروری 1934ء میں بہاولپور اسٹیٹ فورسز میں کمیشن مل گیااور سیکنڈ لیفٹنٹ کے عہدہ پر تعینات کر کے فرسٹ بہاولپور انفنٹری میں کمپنی آفیسر مقرر کیاگیا۔ کرنل میسی نئے کمیشن یافتہ نوجوان افسروں سے بڑی مہربانی سے پیش آتے اور ان کی تربیت میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ اس کے علاوہ مجھے جو بنگلہ الاٹ کیا گیا ،وہ کرنل میسی کے بنگلہ سے ملحق تھا۔ اکثر شام کو جب کرنل آرمی میس میں جاتے تو مجھے اپنی کار میں ہمراہ لے جاتے اور کھانے کے بعد جب واپس بنگلے پہنچتے تو کافی دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں کرتے اور راقم سے اردو الفاظ کا تلفظ درست کراتے۔

۴ جون ۱۹۳۴ء میں سابقہ کرنل میسی (نومسلم عبدالرحمن) چند روز بیمار رہنے کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ان کو پورے فوجی اعزاز اور اسلامی طریقہ پر دفنایا گیا۔ ان کی قبر ڈیرہ نواب صاحب سے احمد پور اور بہاولپور جانے والی سڑکوں کے درمیان بالکل سڑک کے کنارے واقع ہے۔ جب تک نواب صاحب سر صادق محمد خان زندہ رہے۔ وہ یہاں گزرتے ہوئے ہمیشہ کار سے اتر کر فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور ان کی زندگی میں عساکر بہاولپور کے لیے یہ حکم تھا کہ یہاں سے گزرتے ہوئے سلامی دے کر گزریں۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ماخوذ: نگارخانۂ عظمت میں، ہفت روزہ ایشیاء، ۱۵، ۲۲ مئی ۱۹۸۸ء)

حصہ