خطرناک مہم

143

جمال اور کامال جانتے تھے کہ اس چھوٹے سے اسکرین پر ایک جملے سے زیادہ کوئی پیغام بھی نہیں آ سکتا تھا۔ اسی لیے وہ اسکرین پر نظریں جمائے کھڑے رہے۔ ایک لائن کی تحریں ابھرتی تھی۔ پھر وہ مٹ جاتی تھی۔ پھر ایک اور لائن ابھرتی تھی، مٹ جاتی تھی۔ اسی طرح چھوٹی چھوٹی تحریروں کی ذریعے ان کو سارا پیغام موصول ہو چکا تھا۔ جمال اور کمال کو حیرت تھی کہ آخری اتنی درست معلومات ان کو کیونکر حاصل ہو رہی ہیں۔ ایک تو یہ ڈوائس یکطرفہ تھی دوئم یہ کہ اگر یک طرفہ نہ بھی ہوتی تب بھی ان کے پاس کسی سوال کرنے کا وقت ہی کب تھا۔ رات اب تیزی کے ساتھ سحر میں بدلتی جا رہی تھی۔ روشنی ان کےلیے پریشان کن ثابت ہو سکتی تھی۔ ایسی صورت میں دوسروں کی نگاہوں سے ان کا غیر پوشیدہ رہنا بہت بڑی مصیبت کا سبب بن سکتا تھا۔ انہوں نے بتائی گئی سمت کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع کیا۔ ان کو خوشی اس بات کی تھی اب تک پڑوسی ملک کی سرحد ان سے دور ہی تھی اور اب جو جگہ ان کو بتائی گئی تھی وہ بھی اپنے ہی ملک کی حدود میں تھی۔ وہ مطلوبہ مقام تک پہنچ چکے تھے لیکن ان کو ایسا کوئی ٹیلہ یا جھاڑیوں کا جھنڈ نہیں نظر آ رہا تھا کہ جس کی آڑ لی جا سکے۔ ابھی وہ آڑ تلاش ہی کر رہے تھے کہ ان دونوں کی سروں سے رائفل کی نالیں آ ٹکرائیں اور گرج دار آواز کے ساتھ ان سے ہاتھ اٹھانے کےلیے کہا گیا۔ یہ سب ان کے لیے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ ان کو حیرت تھی اب تک وہ شرپسندوں کی نظروں سے بچے ہوئے ہیں تو کیوں۔ ایسے خطرناک کام کرنے والوں نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی ہوتیں۔ ان کا نیٹ ورک بہت دور دور تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ بلند کر دیئے۔ حکم ملا کہ غار کی جانب بڑھو۔ وہ غار کی جانب بڑھتے ہوئے سوچ رہے تھے ہمارے گرفتا ہونے کی اطلاع ہمارے ادارے کو یقیناً ہو گئی ہوگی۔ ہمارے پاس جو ڈیوائس ہے وہ یقیناً نہ صرف ان کو ہمارے حالات سے باخبر کر رہی ہوگی بلکہ موجودہ لوکیشن سے بھی آگاہ کر رہی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ادارے کو یہ خبر کیسے ہوتی کہ ہم پہاڑ کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
وہ ہدایت کے مطابق غار کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے جونہی غار میں داخل ہوئے ان کے سامنے ایک اور حیران اور پریشان کر دینے والا منظر تھا۔ سامنے دو کرسیاں تھیں اور ان میں سے ایک پر انسپکٹر حیدر علی بیٹھے ہوئے تھے اور دوسری پر فاطمہ۔ دونوں کے چہروں پر بجائے پریشانی یا خوف، نہایت اطمنان اور سکون چھایا ہوا تھا۔ چودہ افراد اور بھی موجود تھے لیکن ان چودہ کے چودہ افراد کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ ایک پندھرواں فرد بھی موجود تھا جس کے ہاتھ میں خوفناک مشین گن تھی جس کا رخ فاطمہ، انسپکٹر حیدر علی، جمال اور کمال کی جانب تھا۔ جو دو افراد جمال اور کمال کے رائفل کے زور پر ان کو گرفتار کر کے لائے تھے، ان کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
اندر موجود مشین گن بردار نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ جب میں اپنی جیپ سے اتر کر ہوٹل میں داخل ہو رہا تھا تو میری نظر انسپکٹر جمشید اور اس کے ساتھ کھڑی فاطمہ پر پڑی۔ اگر مجھے صرف انسپکٹر ہی نظر آتا تو شاید میں اسے نظر انداز ہی کر دیتا۔ ایک تو اس لیے کہ انسپکٹر جمشید کو میں جانتا اور پہچانتا تھا جبکہ وہ میری شکل سے واقف نہ تھا لیکن جیسے ہی فاطمہ پر نظر پڑی تو میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کہ یا تو میں ان کو قتل کروادوں یا پھر اغوا کروادوں۔ کیونکہ میرے علم میں یہ بات بخوبی تھی کہ فاطمہ کو قدرتی طور پر یہ صلاحیت حاصل ہے کہ یہ جسموں سے نکلنے والی مہک سے کسی کو بھی شناخت کر سکتی ہے۔ یہاں اس کا موجود ہونا کوئی نہ کوئی مطلب رکھتا تھا۔ میں ادارے کا باغی بن چکا تھا۔ کئی اہم رازوں سے واقف تھا، شمالی علاقوں میں ہونے والی ہر اس واردات میں جس میں جوانوں کا قتل، اغوا جیسے کیسز شامل ہیں آج کل میری ہی ایما پر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ ادارہ لازماً میری تلاش میں ہوگا۔ فاطمہ کو دیکھتے ہی میں سمجھ چکا تھا کہ اگر میں نے اسے واپس جانے دیا تو میرے لیے حالات بہت مشکل ہو جائیں گے۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ جمال اور کمال بھی کہیں آس پاس ضرور ہونگے لیکن ہونگے کہاں، باوجود کوشش کے بھی مجھے میرے گروہ والے نہ بتا سکے بس اسی لیے میں نے انسپکٹر حیدر علی اور فاطمہ کو اغوا کر لینا زیادہ بہتر سمجھا۔ مجھے یہ پختہ یقین تھا کہ جمال اور کمال جہاں بھی ہونگے وہ فاطمہ کےلیے جان پر بھی کھیل جائیں گے مگر مجھے یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ یہاں تک بھی پہنچ سکیں گے۔ مجھے حیرت ہے تو یہ ہے کہ وہ یہاں پہنچے تو کیسے پہنچے۔ کوئی راستہ بھی یہاں تک آنے والا ایسا نہیں ہے جہاں میرے چالاک اور چاق و چوبند وفادار موجود نہ ہو۔ صرف ایک ہی راستہ ایسا ہے جس کو آج تک کوئی عبور نہ کر سکا اور وہ پہاڑ کو وہ راستہ ہے جو کئی سو فٹ تک ایک دیوار کی مانند ہموار ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس کو میں از خود بھی، باوجود کوشش کے عبور نہیں کر سکا۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ جمال اور کمال اسی راستے سے زمین تک پہنچے ہونگے لیکن کیسے، اس کا جواب یہ از خود ہی دے سکتے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ ادارے کےلیے ان دونوں نے بڑے بڑے حیران کن کارنامے انجام دیئے ہیں اسی لیے میں انسپکٹر حیدر علی اور فاطمہ سے زیادہ ان دونوں کی تلاش میں رہا ہوں۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں ان کو اپنا ہمنوا بنالوں، بصورتِ دیگر ان دونوں کو مار دینے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں بچا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ نہ تو انسپکٹر کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی فاطمہ جیسی خطرناک لڑکی کو۔
اس کی ختم ہوئی تو کمال نے کہا کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی بھی ہم میں سے کسی کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا۔ بظاہر ہم تیرے قیدی نظر آتے ہیں لیکن یقین جان ہم سب تیرے لیے فرشتہ اجل بن کر آئے ہیں۔ تیری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ تونے انسپکٹر اور فاطمہ کو اغوا کرنے کے یہاں لے آیا۔ ہم تو تیری تلاش سے زیادہ ان 14 جوانوں کی تلاش میں نکلے تھے جبکہ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ہمارے یہ 14 قیمتی اثاثے یہاں موجود ہونگے۔ ممکن ہے کہ ان کی تلاش میں ہمیں ہفتوں لگ جاتے لیکن تونے فاطمہ کو یہاں پہنچا کر ہماری تمام مشکلیں آسان کردیں۔ فاطمہ کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ وہ شاید تیری ہی تلاش میں بھیجی گئی ہو اس لیے کہ تجھے پہچان لیے جانے کا فاطمہ کے علاوہ کسی کے پاس کوئی ذریعہ رہ ہی نہیں گیا تھا۔ جس شکل میں تو ہمارے سامنے ہے، میں دیکھ کر بھی تجھے نہیں پہچان سکتا تھا۔ میں نے تیری اصل شکل ٹریننگ کے دوران دیکھی تھی۔ میرے علم میں یہ بات کبھی تھی ہی نہیں کہ تو چہرے بدل لینے کا اتنا بڑا ماہر ہوگا۔ غدار غدار ہی ہوتے ہیں اور مجرم مجرم۔ دونوں قانون کے ہاتھوں کبھی نہیں بچ پاتے اس لیے کہ وہ کوئی نہ کوئی بڑی غلطی ضرور کر گزرتے ہیں۔ انسپکٹر حیدر علی یا فاطمہ کو اگر تو وہیں قتل کر آتا تو شاید ادارہ تجھے کبھی ٹریس نہیں کر پاتا۔
کمال بولتا چلا گیا اور جس شخص کے ہاتھ میں مشین گن تھی اس کے چہرے پر جیسے ایک رنگ آتا گیا ایک رنگ جاتا گیا۔ خود انسپکٹر حیدر علی اور فاطمہ کمال کا منہ تکے جا رہے تھے۔ ان کو کمال کی باتیں سمجھ میں ہی نہیں آ رہی تھیں کہ آخر کمال اتنے اعتماد کے ساتھ دشمن کو دھمکیاں کیوں دے رہا ہے۔(جاری ہے)

حصہ