عید الاضحی کی آمد آمد تھی۔ ہر طرف قربانی کے لیے جانوروں کی ہلچل، چارے کی بو اور جوش و خروش کا سماں تھا۔ محلے میں جیسے ہی کسی سوزوکی رکنے کی آواز آتی شور شرابہ کے ساتھ،ہا ہو کار یہ اعلان کر دیتی کہ گائے اتر رہی ہے فلاں کی آ گئی۔ فلاں کی بھاگ گئی، دن میں کتنے ہی قصے گھر میں داخل ہونے والا افنان بڑھ چڑھ کر سناتا۔۔۔۔کبھی تو طوبیٰ بھی دلچسپی سے سنتی اور کبھی جب وہی پچھلی بار والا قصہ دہرایا جاتا تو ایسے میں وہ خوب ہنستی اور کہتی کتنی دفعہ سناؤ گے تو وہ جھینپ جاتا۔۔۔
بیا کے گھر میں بھی خوشی کا ماحول تھا ۔کیونکہ آج انہوں نے منڈی سے خوبصورت سا بکرا خریدا تھا۔جیسے ہی افنان رسی تھامے گھر سے نکلا سب بچے ارد گرد بے تابی سے آگے بڑھے۔ بکرے کی قیمت سن کر ہی سب کے منہ کھلے رہ گئے تھے ۔اور محلے والوں کی نظریں اس پر ٹکی ہوئی تھیں۔زور و شور سے قیمت پر تبادلے ،منڈی کے حالات،اور بھاؤ تاؤ پر بحث سن کر بچوں کی عمریں دیکھو تو دانتوں میں انگلی آ جائے۔۔ہر بچہ اپنی بات اور اپنے جانور کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا۔۔۔ شبانہ اتفاق سے بیٹھک کی کھڑکی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔بیا بھائی کے ساتھ ساتھ جب کہ طوبی دروازے میں لٹکی ہوئی تھی۔غرض تینوں بچےہی بکرا سرگرمی میں مصروف ،افنان کو تو کھانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔
ذرا کمزور جانور کا مذاق اڑایا جا تا تو سب ہنس ہنس کہ لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ابھی واپس مڑنے ہی والی تھی ،
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک بکرے نے رسی تڑا کر بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔اور کامیاب ہوتے ہی ڈرتے بچوں کے پیچھے ہٹنے پر ایک طرف کو دوڑ لگا دی۔بے کار کھڑے لوگوں کے لیے تو گویا تفریح کا سامان بن گیا۔گھر کے لوگ،بچے ،ارد گرد والے بکرے کے پیچھے دوڑ پڑے۔ محلے والوں نے بھی اس ہنگامے میں حصہ لیا۔ بکرے کو پکڑنا ایک مشکل کام ثابت ہو رہا تھا۔ وہ ایک محلے کی گلی سے دوسری گلی میں دوڑ رہا تھا اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے۔
بالآخر کافی دوڑ دھوپ کے بعد بکرے کو پکڑ لیا گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا ۔ اور بکرے کو دوبارہ رسی سے باندھ دیا گیا۔ شبانہ کے منہ سے بکرے کے بھاگنے سے پہلے والی روداد سن کر،افنان کے والد نے سب کو جمع کیا اور کہا، ’’یاد رکھو، قربانی کا مقصد دکھاوا نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ہمیں اپنی نیت کو صاف رکھنا چاہیے۔جانوروں کی قیمت اور چھوٹے بڑے پتلے موٹے ہونے پر قربانی قبول نہیں ہوتی بلکہ نیت اور اخلاص کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔۔سب بچے دیہان سے ابو کی بات سن رہے تھے۔وہ چپ ہوئے تو شبانہ نے بھی محلے کے بچوں کو شربت پلاتے پلاتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ سنانا شروع کر دیا ۔بچوں کے سوال ،و جواب سن کر وہ سوچ رہی تھی ہم ہی بچوں کو وقت نہیں دے رہے ورنہ ان کے اندر جاننے کی طلب موجود ہے۔۔۔۔
بلآخر عید کا دن آ ہی پہنچا۔ صبح قربانی اور شام کو خاندان کی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سب لوگ عید کی خوشیوں میں مصروف تھے۔
قربانی کے بعد سب کلیجی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، ہنسی مذاق میں مشغول ہو گئے۔خاندان میں جمع ہونے والے بچے بکرے کی بھاگنے کی کہانی سن کر خوب ہنس رہے تھے۔ بڑے بھی اس واقعے کو یاد کر کے مسکرا رہے تھے۔ ہر کوئی اس دن کی یادوں میں کھویا ہوا تھا اور سب کی باتوں میں ایک ہی بات تھی، “قربانی کا دن کتنا خوشگوار گزرا!”
رات کو سب لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے لگے۔ بیا اور افنان بکرے کی جدائی پر اداس تھے۔
لیکن خوش تھے۔ اس دن نے نہ صرف قربانی کی اصل روح کو زندہ کیا بلکہ خاندان کی محبت اور اتفاق کو بھی بڑھاوا دیا۔ قربانی کی یہ عید ہمیشہ کے لیے یادگار بن گئی۔