دی ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی میں ادبی تنظیم موجِ سخن کے زیر اہتمام اردو دہلیز اور حلقہ شعلہ بار کراچی کے تعاون سے کُل پاکستان جشن کاشمیری مشاعرہ آرگنائز کیا گیا۔ مجلس صدارت ساجد رضوی اور پروفیسر ڈاکٹر عتیق الرحمن پر مشتمل تھی۔ مہمانان خصوصی میں ان کاشمیری اور میجر عظم کمال شامل تھے۔ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہری اور رفیق ساغر مہمانان اعزازی تھے۔ نظامت کے فرائض سید غضنفر حسین نے انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے حاصل کی۔ نظر فاطمی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ موجِ سخن کے سربراہ نسیم شیخ نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم تواترکے ساتھ علمی و ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے ہم ادبی گروہ بندیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ تمام قلم کاروں کو زندگی گزارنے کی آسانیاں میسر ہوں اس سلسلے میں اپنا لائحہ عمل بنا رہے ہیں جس کا بہت جلد اعلان کر دیا جائے۔انہوںنے مزید کہا کہ جس معاشرے میںقانون کی حکمرانی کمزور پڑ جاتی ہے وہاں مزاحمتی شاعری جرم بن جاتی ہے۔ جان کاشمیری نے ہمیشہ حق و صداقت کی بات کی ہے انہوں نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی‘ ان کی شاعری زمینی صداقتوں کی آئینہ دار ہے‘ ان کی تمام ادب نواز شخصیات کے لیے مشعل رہ ہیں‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ انہوں نے ظلم و استحصال کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا ہے‘ ان کی شاعری ہماری روح کی غذا ہے۔ ساجد رضوی نے کہا کہ شعرائے کرام معاشرے کا اہم حصہ ہیں‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ معاشرے کے حالات رقم کرتے ہیں۔ یہ زمانہ گل و بلبل کے افسانوںکا نہیں ہے جو شاعری زمینی حقائق پر مربوط ہوتی ہے وہ زندہ رہتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عتیق جیلانی نے کہا کہ وہ حیدرآباد میں مقیم ہیں تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں کراچی والوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے یہاں شان دار شاعری ہو رہی ہے لیکن حیدرآباد میں بھی بہترین مضامین کے ساتھ شاعری جاری ہے‘ وہاں اردو کے علاوہ سندھی مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جان کاشمیری کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ادب کی بہت خدمت کی ہے۔ میجر (ر) اعظم کمال نے کہا کہ کراچی کی ایک اہم ادبی تنظیم موج سخن نے آج بھی بہت شان دار پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں پورے پاکستان کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ ایک کل پاکستان مشاعرہ ہے جس کا سارا کریڈٹ نسیم شیخ اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے۔مشاعرے میں ساجد رضوی‘ پروفیسر ڈاکٹر عتیق جیلانی‘ جان کاشمیری‘ میجر اعظم کمال‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہری‘ رفیق ساغر‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ خالد میر‘ مقبول زیدی‘ یونس عظیم‘ وقار احمد‘ ندیم خاور‘ حیدر حسنین جلیسی‘ رشید شارب‘ صفدر علی انشاء‘ ڈاکٹر محمد اقبال‘ مرزا عاضی اختر‘ آصف نقوی‘ رانا خالد محمود‘ نسیم شیخ‘ غضنفر حسین‘ نظر فاطمی‘ دل شاد خیال ایڈووکیٹ‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ شجاع الزماں شاد‘ کاوش کاظمی‘ شائق شہاب اور جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
بزمِ محبانِ ادب انٹرنیشنل کا مشاعرہ
بزمِ محبان ادب انٹرنیشنل ایک نوزائیدہ ادبی تنظیم ہے جس کی چیئر پرسن کشور عروج ہیں جو ہر ماہ باقاعدگی سے ادبی پروگرام آرگنائز کر رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے رحیم یار خان سے آئے ہوئے شاعر شہباز نیر کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ اظہر عروج‘ عابد شیروانی اور سلمان صدیقی اس پروگرام میں مہمانان اعزازی تھے۔ مہمانان توقیری میں ذیشان مہدی اور امتیاز احمد شامل تھے۔ کشور عروج نے نظامت کے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بزمِ محبان ادب انٹرنیشنل میں ندا خان ا ور جاوید حسین صدیقی کو شامل کر رہی ہیں تاکہ ہم اپنے ادارے کو مزید کو مزید بہترطریقے سے چلا سکیں۔ عابد شیروانی نے اپنی رہائش گاہ کے ایک حصے پر ’’دانش گانِ اقبال‘‘ کے نام سے خوب صورت ہال تعمیر کیا ہے جہاں ہر ماہ علامہ اقبال پر تحقیقی اور مطالعاتی پروگرام ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز نیر نوجوان شعرا میں انتہائی معتبرہیں۔ ان کی شاعری زندہ دلوں کی ترجمان ہے‘ ان کے اشعار میں زندگی رواں دواں ہے۔ شہبازنیر ماہر تعلیم ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ نظامت کے فن میں بھی ماہر ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد پاکستان کے صفِ اوّل کا شعرا میں شمار ہوں گے۔ندا خان نے کہا کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ محبان ادب کی ترقی میں شامل رہیں گی۔ جاوید حسین صدیقی نے کہا کہ میں ادب کا ایک ادنیٰ سا خدمت گزار ہوں‘ میری دلی خواہش ہے کہ اردو ادب کی ترقی جاری رہے۔ شہباز نیر نے بزم محبان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے میرے اعزاز میں پروگرام مرتب کیا آج کا دن میرے لیے بہت خوش گوارہے کہ مجھے آج بھی بہت اچھی شاعری سنے کو ملی ہے اس کے ساتھ ساتھ ذیشان مہدی نے اپنی گائیکی کے ذریعے پروگرام میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے شہباز نیر کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں‘ وہ اسسٹنٹ پروفیسر (اردو) کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں‘ وہ پی ٹی وی ملتان میں ایک پروگرام کی میزبانی کے علاوہ ایف ایم 99 پر بھی اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہیں۔ وہ 2 شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ انہوں نے بحور و اوزان کی پابندیوں کے ساتھ نازک خیالیوں کو شاعری بنایا ہے وہ لمبی بحروں میں غوط زن ہوتے ہیں لیکن ان کا سانس ٹوٹتا نہیں ہے بلکہ وہ کمالِ فن سے بڑے سے بڑے مضمون دو مصرعوں میں قلم بند کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کی خوشبو ہماے دلوں کو مہکاتی ہے۔ان کے یہاں حسن و جمال کے کی وارفتگی کے علاوہ حزن و ملال کی کیفیات بھی نظر آتی ہیں۔ وہ محبتیں بانٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ شہبازنیر‘ اطہر عروج‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ راناخالد محمود‘ کشور عروج اور ندا خان نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔
nn