پھر سے سرگرم ہوئے

159

موسموں کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ گرمی ہو یا سردی، خزاں ہو یا بہار… ہر موسم کا اپنا الگ مزا ہے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا۔ ایک طرف خدا نے ان نعمتوں کی صورت ہماری زندگیوں میں رنگ بکھیرے تو دوسری جانب ہم نے بھی کئی خودساختہ موسم بنا لیے ہیں، مثلاً جلسے جلوسوں کا موسم، تہواروں پر جھنڈے لگانے کا موسم، سیاسی قلابازیوں کا موسم، دھرنوں کا موسم، اور تو اور شادی بیاہ کی تقریبات کو بھی موسم سے منسوب کر ڈالا۔ یہاں سیاسی قلابازیوں اور سیاسی دھرنوں کے موسم پر بات کرنے سے بہتر ہے کہ میں شادی بیاہ کے موسم تک ہی محدود رہوں۔

ہمارے معاشرے میں شادیوں کے لیے چھوٹی عید سے محرم تک کا وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ مخصوص کیے گئے ان مہینوں کے سوا اس تقریبِ سعید کا ہونا روایت سے ہٹ کر تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں قائم خودساختہ روایتوں کا ٹوٹنا مشکل ہوا کرتا ہے، لیکن گزشتہ برس حکومت ِسندھ نے معاشرے میں قائم اس فرسودہ روایت کو غیر قانونی شادی ہالوں کوگراکر اُس وقت توڑ ڈالا جب موسمِ شادی اپنے عروج پر تھا۔ واضح رہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے انتظامیہ نے سرکاری زمینوں پر قائم درجنوں غیر قانونی شادی ہال مسمار کیے جس کی وجہ سے اُن گھرانوں کو جو اس موسم میں شادی کی تقریبات منعقد کرتے ہیں، تقریبات منسوخ کرنی پڑیں۔ اسلام میں نکاح کے لیے وقت کی قید نہیں، اور نہ ہی مخصوص کیے جانے والے اوقات کی کوئی ممانعت ہے۔ یعنی آپ کسی بھی وقت یا کسی بھی موسم میں شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرسکتے ہیں۔ بس اسی بنیاد پر میری ذاتی رائے ہے کہ اگر کسی بھی معاملے کو وقت کی قید میں جکڑا جائے گا تو مسائل جنم لیں گے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کی اکثریت ایک ہی وقت میں شادیوں کی تقریبات کرے گی تو ضروری استعمال کی اشیاء سے لے کر تواضع تک پر آنے والے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوگا جس کا اثر براہِ راست معاشرے کے اُن غریبوں پر پڑے گا جو اپنی جوان بچیوں کو دو کپڑوں میں رخصت کرنے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ وہ سچ ہے جس سے شاید ہی کوئی ذی شعور اختلاف کرے۔

خیر بات ہورہی تھی ماضیِ قریب میں گرائے گئے شادی ہالوں کی۔ پہلے پہل تو میں بھی یہی سمجھتا رہاکہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے مشن امپوسبل طرز پر کیا گیا آپریشن سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے کی روح کے عین مطابق ہے، لیکن جلد ہی میرے سامنے کچھ ایسے حقائق آنے لگے جنہوں نے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اس آپریشن کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کہتے ہیں ’’قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا‘‘، کچھ ایسا ہی کراچی میں مسمار کیے گئے شادی ہالوں کے ساتھ بھی ہوا۔ بظاہر ان غیر قانونی شادی ہالوں کوگرا تو دیا گیا تھا، لیکن قابضین کے خلاف اُس وقت کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی کی گئی اور نہ ہی قبضہ کی گئی جگہوں کو خالی کروانے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کیا گیا جس کی بدولت یہ سرکاری پلاٹ عوام کے لیے مختص کیے جاتے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب حکمرانوں کے اہداف میں بدنیتی شامل ہو تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں، یعنی گرائی گئی دیواروں کی جگہ قبضہ گروپ کی جانب سے تمبو، قناتیں لگاکر دوبارہ کام شروع کردیا گیا، جہاں پروگرام نہ ہوسکے اُن جگہوں کو کچھ سامان ڈال کر اپنے قبضے میں رکھا گیا۔ اتنا زیادہ شور شرابہ اور نتیجہ صفر۔ جو مالک تھے وہی مالک رہے، صرف سامنے کی دیوار گراکر جس کی تعمیر فقط ایک پروگرام کی آمدن کے عوض کی جاسکتی ہے نام نہاد آپریشن کی کامیابی کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ قابضین کو دوبارہ کاروبار کرنے کا پورا موقع فراہم کردیا گیا۔ شہر کے کسی بھی علاقے میں جاکر مشاہدہ کرلیں آپ کو یہی صورتِ حال دکھائی دے گی۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسمار کیے جانے والے شادی ہالوں کا ملبہ موقع سے اٹھاکر ان سرکاری زمینوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی، یا پھر ان جگہوں کو فوری طور پر پارک یا کسی بھی فلاحی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا جاتا۔ بجائے اس عمل کے، سرکاری زمینوں کو دوبارہ قبضہ گروپ کے حوالے کردیا گیا۔

کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں۔ کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی چائنا کٹنگ کی صورت ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا سرگرم رہا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا ہے بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ 1985-86ء میں بنائے گئے انہی قوانین کے تحت کچی آبادیاں بسائی جاتی رہیں، بلکہ سرکاری زمینیں ہتھیانے کا یہ سلسلہ گوٹھ آباد اسکیم کے نام سے اب تک جاری ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی علاقوں سے واقف ہوں جہاں تعمیر کیے جانے والے بڑے منصوبے ناجائز طور پر آباد کی جانے والی بستیوں کی نذر ہوگئے۔ اسلام آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایوب پارک بھی ان منصوبوں میں سے ایک ہے جسے کراچی میں تعمیر کیا جانا تھا جو لانڈھی میں 85 ایکڑ اراضی پر قبضہ ہو جانے کے بعد اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں تعمیراتی منصوبے حکومت کی بدنیتی اور نااہلی کی وجہ سے کراچی سے باہر منتقل کردیے گئے۔ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بڑی سے بڑی فن کاری کے باوجود اگر حکمرانوں کا تعاون نہ ہو تو کوئی بھی شخص ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرسکتا۔ ناجائز تجاوزات کہا جائے یا غیر قانونی تعمیرات، فٹ پاتھ پر ہوتے کاروبار ہوں چاہے بغیر اجازت نامہ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر… یہ سب حکومتی چھتری کے بغیر ممکن نہیں۔ جسے انتظامیہ کا تعاون اور حکمرانوں کی آشیرباد مل جائے وہ شخص ایک ایسا چلتا پرزہ بن جاتا ہے جو اپنے سامنے آنے والی ہر سرکاری چیز پر قبضہ کرنے اور اس کو فروخت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ان راشی افسران اور قبضہ مافیا کے گٹھ جوڑ نے صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی میں جو تباہی مچائی اس کا اندازہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے ان انکشافات سے کیا جا سکتا ہے کہ کراچی کی وفاقی کالونیوں کے مکانات اور فلیٹس پر سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے سیاسی گروپ قابض ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کہا تھا کہ فلیٹوں اور مکانوں میں ریٹائرڈ افسران و ملازمین بھی تاحال رہائش پذیر ہیں جبکہ کئی سرکاری ملازمین نے اپنے نام الاٹ کردہ کوارٹر تھرڈ پارٹی کو فروخت کردیے ہیں۔ یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے چھے ماہ بعد سرکاری رہائش گاہ لازمی طور خالی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ گزشتہ تیس برسوں سے کراچی کی سیاست نے یا ایک مخصوص سیاسی ذہنیت کی طرزِ سیاست نے لوگوں کو حقوق کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا وہ درس دیا جس نے ہمارے معاشرے میں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو دادا گیری کی جانب دھکیل دیا، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سرکاری املاک سرکار کے بجائے قبضہ گروپوں کی ملکیت ہیں۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ قبضہ مافیا کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارکوں اور کھیل کے میدانوں کا گھیراؤ کرنے والے اب گلی محلوں تک آن پہنچے ہیں، یعنی یہ مافیا اب گلیوں کے ساتھ چھوڑے گئے پلاٹوں پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب متبادل الاٹمنٹ کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ چونکا دینے والے حقائق یہ ہیں کہ کے ڈی اے بڑی تیزی سے ایسی فائلیں تیار کرنے میں مصروف ہے۔ کسی بھی علاقے کا سروے کر کے دیکھ لیجیے، کے ڈی اے کی جانب سے دی جانے والی ٹرانسفر فائلوں کی بدولت گلی کے کارنر والے مکان کے ساتھ ہونے والی تعمیرات اس بات کی دلیل ہے کہ قبضہ مافیا ایک مرتبہ پھر بھرپور قوت کے ساتھ میدانِ عمل میں اتر چکا ہے۔

قبضہ مافیا کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں میرے دوست نے ایک کارنر مکان خریدا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ مستقبل میں یہاں کوئی کاروبار کرے گا، لیکن بدقسمتی کہیں یا برائی، یا پھر قبضہ مافیا کی کارروائی… اُس کے مکان کے برابر غیر قانونی تعمیرات شروع کردی گئی۔ لینڈ مافیا کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کے نتیجے میں دوست کے مکان کی حیثیت میں کمی آگئی جس نے اُس کی ذہنی کیفیت پر گہرا اثر ڈالا۔ ظاہر ہے دو کروڑ روپے سے زائد رقم دے کر جو جگہ خریدی گئی ہو اس کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات کی جائے تو یقینا اس جگہ کی مارکیٹ ویلیو یک دم نیچے آجائے گی، ایسی صورت میں کسی بھی شخص کی حالت خراب ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہی کچھ میرے دوست کے ساتھ بھی ہوا۔ اُس دن سے جب سے قبضہ مافیا نے یہ اقدام کیا ہے میرا دوست کبھی اِس در تو کبھی اُس در کی خاک چھانتا پھر رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کے دفاتر کی سیڑھیاں چڑھنا اترنا اس کی زندگی کا مقصد بن چکا ہے۔ پولیس، انتظامیہ اور کے ڈی اے، یہاں تک کہ عدالتی فیصلے بھی قبضہ مافیا کے حق میں ہیں۔ ایسی صورت میں وہ جائے تو جائے کہاں؟ کس سے فریاد کرے، کسے مسیحا جانے؟ ہر جگہ سے ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ خدانخواستہ کہیں وہ اپنی زندگی سے ہی مایوس نہ ہوجائے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص ساری زندگی محنت مشقت کرکے اپنے بچوں کے لیے جگہ خریدتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے یہاں کوئی کاروبار کرے تو اداروں کی ملی بھگت سے اس کے خوابوں کو چکنا چور کردیا جاتا ہے۔

ایسا نہیں کہ بڑھتی کرپشن، جرائم پیشہ افراد کی کارروائیوں اور لینڈ مافیا کو لگام نہ دی جا سکے۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے، ماضی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا، یا جو کچھ اب ہورہا ہے، اس کے ازالے کے لیے حکمرانوں کی جانب دیکھنے کے بجائے ایسے لوگوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کراچی سمیت ملک بھر کے عوام کی بلاتفریق خدمت کی۔ عوام کو سندھ حکومت خاص طور پر کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف متحد ہو کر اپنے حقوق اور قبضہ مافیا کے خلاف جدو جہد کرنا ہوگی، تبھی لاقانونیت اور لینڈ مافیا سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو غلامی کے سوا کچھ نہیں دے سکیں گے۔

حصہ