آخر شب کے ہم سفر

224

اسی دور کے ’سین سینیریوں‘‘ کے پردوں، اونچی اونچے چینی کے گملوں، فرنیچر، ’’شاہی‘‘ ملبوسات، نقلی تاج، داڑھی مونچھوں، کاٹھ کی تلواروں اور دیگر لوازمات کا انبار ارجمند منزل کے شاگرد پیشے کے ایک گودام میں مقفل تھا۔ اور جب کبھی کالج میں ڈرامہ ہوتا تو دیپالی اور روزی فوراً ارجمند منزل کا رُخ کرتیں۔ نواب زادہ منیر الزماں گودام کھلواتے اور وہ اپنے مطلب کی چیزیں نکال کر لے جاتیں۔

نواب زادہ فخر الزماں مرحوم نے ’’راجہ بھوج‘‘ کے عنوان سے خود ایک سنگیت ناملک بنگلہ میں تصنیف کیا تھا۔ اس کے لئے ننھے منے آئینوں اور رنگ برنگے نقش و نگار سے مزین و کرم آدتیہ کا روایتی سنگھاسن بنوایا گیا تھا۔ جس میں ساری میں لپٹی چار مورتیاں چاروں پایوں کی جگہ تخت سر پر اٹھائے کھڑی تھیں۔ بقیہ اٹھائیس مورتیاں سنگھاسن کے سطرفہ جنگلے میں نصب تھیں۔ ’یہ شاہی تخت‘‘ اسٹیج کے دوسرے فرنیچر کے انبار کے نیچے مدتوں سے دبا پڑا تھا۔ اور آج صبح ملازموں نے باہر نکال کر جھاڑ پونچھ کے گلاب خاص کے نیچے بچھا دیا تھا۔ تا کہ صاحبزادیاں آرام سے بیٹھ کرسی پر دسکیں۔

سنگھاسن کے مقابل میں سیمل کے نیچے اختر آرا مشین پر کچھ سی رہی تھی۔ تین چار خادمائیں تالاب کی سیڑھیوں پر بیٹھی پان چبا رہی تھیں۔ ایک سیتل پاٹی پرہار مونیم رکھا تھا اور ایک لڑکی بیاہ کے گیت الاپنے میں مصروف تھی۔

نواب قمر الزماں چودھری کو کتب خانے میں لیگ کے ماہانہ جلسے کے لئے تقریر لکھنا چھوڑ کر دیپالی سرکار طویل گیلری میں سے گزرتی کشادہ چوبی زینے پر پہنچی۔ اور دوسری منزل پر جا کر جہاں آرا کے کمرے میں داخل ہوئی۔ مگر کمرہ خالی پڑا تھا۔ تخت اور مسہری بنارسی ساریوں کے خالی ڈبہ بکھرے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں مٹھائی کے گلابی کاغذوں کا ڈھیر لگا تھا۔ ساری کوٹھی کی طرح اس کمرے میں بھی شادی کا ماحول نظر آرہا تھا۔

نیچے سے ہارمونیم کی آواز بلند ہوئی۔ دیپالی دریچے میں گئی جو پچھلے باغ پر کھلتا تھا۔ اس نے جھانک کر نجمہ اور اختر آرا کو دیکھا۔ مونگیا ساری پہنے ایک اور لڑکی، جس کی پشت کوٹھی کی طرف تھی۔ بڑی تندہی سے مشین کا ہینڈل گھمانے میں مصروف تھی۔ بادل گھر آئے تھے۔ بڑی سہانی ہوا چل رہی تھی۔ ایک ملازمہ تالاب کے دوسرے سرے کی اندرونی سیڑھی پر بیٹھی چاندی کے برتن صاف کررہی تھی۔ کتب خانے کے پریشان کن، کربناک ملکی سیاست کے تذکرے کے بعد یہ منظر کس قدر پرسکون اور نظر فریب تھا۔

باورچی خانے کی سمت سے جہاں آرا خراماں خراماں چلتی تالاب کی طرف آئی۔ دیپالی نے دریچے میں سے اسے آواز دی۔ جہاں آرا اسے سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’دیپالی… اتنی دیر لگادی جلدی آئو…‘‘

’’آتی ہوں بھائی…‘‘ اُس نے جواب دیا۔ اور تیزی سے نیچے چلی گئی۔

’’آپا… دیدی آگئیں‘‘۔ راج سنگھاسن‘‘ پر بیٹھی انجم آرا نے نعرہ لگایا۔ دیپالی تقریباً دوڑتی ہوئی سیمل کے نیچے پہنچی۔ مونگیا ساری والی لڑکی نے پلٹ کر اور بالوں کی ایک لمبی چوٹی زور سے پشت پر پھینک کے دیپالی کو دیکھا اسے آداب کیا۔ اور پھر ہینڈل گھمانے جُٹ گئی۔ دیپالی تخت کے کنارے بیٹھ گئی۔

’’آج صبح سے بارش نہیں ہوئی۔ ہم لوگوں نے کارخانہ باہری جما رکھا ہے‘‘۔ جہاں آرا نے بیش قیمت چینی ریشم کی پستئی ساری کا ڈھیر اس کی طرف سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’لو اس پر یہ بیل ٹانک دو‘۔ دیپالی نے سورت کی جگمگاتی بیل اور ساری کے ہم رنگ دھاگے کی ریل نیچے سیتل پاٹی پر سے اٹھاتے ہوئے سوچا پاکستان، کمیونسٹ تحریک، ہندو مسلم آویزش، عالمی جنگ۔ ان سب جھگڑوں سے بے پدر جہاں آرا اپنے بھائی کی بری تیاری کررہی ہے۔ کیسی خوش قسمت ہے میں خواہ مخواہ دنیا کی فکر میں کیوں ہلکان ہوتی ہوں۔ یہ سوچ کر اُس نے فوراً بشاشت اور زندہ دلی اپنے اوپر طاری کرلی۔ اور جہاں آرا اور دوسری لڑکیوں کے ساتھ بے فکری سے ہنسنے بولنے میں مصروف ہوگئی۔

’روزی آپا بھی ابھی تک نہیں پہنچیں‘‘۔ ایک لڑکی نے کہا۔

’’آج اتوار جو ہے۔ گرجا میں دیر لگے گی۔ پھر سنڈے اسکول پڑھائیں گی‘‘۔ اختر آرا نے جواب دیا۔ ’’اب آتی ہی ہوں گی بے چاری۔‘‘ تم بھی سویرے سے آجاتیں تو یہ بیل اب تک ٹک گئی ہوتی‘‘۔ جہاں آرا نے دیپالی سے کہا۔

’’میں باہر کاکا سے بحث میں لگ گئی تھی‘‘۔
’’کیسی بحث؟‘‘ اختر آرا نے پوچھا، جو دیپالی کی ہم عمر تھی۔
’’کچھ نہیں۔ پاکستان کے متعلق‘‘۔
’’کیا کہا تم نے؟‘‘
’’میں انہیں سمجھا رہی تھی کہ پاکستان انگریزوں کا منصوبہ ہے‘‘۔

’’تم ابا سے جھکڑ رہی تھیں؟‘‘جہاں آرا نے حیرت سے پوچھا۔

’’اب اگر ہمارے بزرگ غلطی پر ہوں تو انہیں سمجھانا تو چاہئے ہی‘‘۔ مونگیا ساری والی لڑکی نے مشین چلاتے چلاتے منہ لٹکا کر کہا۔ دیپالی نے چونک کر اسے دیکھا۔

جہاں آرا ہنس پڑی‘‘۔ ارے دیپالی۔ یہ یاسمین ہے بائولی۔ میں نے تمہیں اس کے متعلق خط میں لکھا تھا نا‘‘۔ اس نے بڑے پیار سے کہا۔ جہاں آرا کے دل میں ساری دنیا کے لیے محبت تھی۔

سولہ سترہ سالہ ذرادحشی آنکھوں والی یاسمین مجید نے دیپالی کو دوبارہ آداب کیا۔

’’یہ تمہاری روزی آپا کی اور ہماری ہمجولی ہیں‘‘۔ جہاں آرا نے اس سے کہا۔

’’آں ہاں۔ دیدی۔ میرے پاس تو آپ کے تینوں ریکارڈ موجود ہیں۔ اور ایک گیت پر تو میں ناچتی بھی ہوں…‘‘

’’ہاں بھائی۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ تم اتنی مشہور مغنیہ ہو۔ اور لوگ تم کو پہلے سے غائبانہ ہی جانتے ہیں! بھئی ہم کیا کریں۔ ہمارے لئے تو تم وہی ہمیشہ کی دیپالی ہو۔ بقول ہماری امی بنوئے بابو کی خبطی لونڈیا…‘‘ جہاں آرا نے ہنس کر کہا۔

’’آپ تو مجھے بھی خبطی سمجھتی ہیں آپا‘‘۔ یاسمین شگفتگی سے بولی۔
’’یہ جہاں آرا جو ہیں نا۔ ان کے خیال میں سب دیوانے ہیں۔ بس یہی سب سے زیادہ ہوشمند ہیں۔ بڑی بی‘‘۔ دیپالی نے کہا۔
’’روزی آپا آگئیں…‘‘ انجم آرا چلائی۔

روزی سائیکل پر فراٹے بھرتی سیدھی تالاب کے کنارے پہنچی اور سائیکل تالاب کی منڈیر سے ٹکا کر تخت پر آن بیٹھی اور فوراً سلائی میں مصروف ہوگئی۔

دوسری منزل کے ایک دریچے میں سے نیر الزماں نے سر نکال کر جھانکا۔ ’’بھئی واہ۔ دیکھو ہماری روزی اور دیپالی کتنی سگھڑ ہیں۔ کون کہتا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں سینا پرونا نہیں جانتیں‘‘۔ اُس نے آواز دی۔

جہاں آرا نے سر اٹھا کر بھائی کا منہ چڑایا۔ روزی اور دیپالی نے اسے نمسکار کیا۔

’’کتنا نیگ دو گے نیئر بھائی‘‘۔ یاسمین چلائی۔

’’جتنا چاہو لو…‘‘ بیگم قمرالزماں نے دریچے میں بیٹے کے پیچھے سے آکر کہا۔

’’اے ہے۔ اللہ رکھے۔ ماشاء اللہ کیسا اچھا لگ رہا ہے‘‘۔ سگن بگیچے والی شمسہ خالہ نے دریچے میں آکر کہا۔ ’’اے کچھ گائو بھی تو۔ لڑکیو اے فریدہ۔ تو کیوں چپ ہوگئی؟ دیپالی تم کچھ گائو بیٹی‘‘۔

نیئر الزماں دریچے سے ہٹ کر اندر چلے گئے۔
’’بہت اچھا خالہ…‘‘ دیپالی نے جواب دیا۔

بیگم قمر الزماں اور شمسہ خالہ بھی باتوں میں مصروف دریچے میں سے غائب ہوگئیں۔

نیچے سیمل کی ڈالیوں میں مینائیں شور مچا رہی تھیں۔ تالاب کے کنارے سلطانہ چمپا کا درخت مہک رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر ساگوان کے جھرمٹ میں سفید پھول کھلے تھے۔

’’دیدی نذرل کا کوئی گیت سنائیے‘‘۔ یاسمین نے کہا۔

’’نذرل کا… اچھا…‘‘دیپالی سر جھکا کر سلائی کرتی رہی پھر گنگنانے لگی۔

’’نور گش باگ میں۔ نورگش باگ میں۔

بہار کی آگ میں‘‘۔

یاسمین تخت پر سے اُٹھ کر اس گیت کے ساتھ منی پوری طرنکا ہلکا پھلکا رقص کرنے لگی۔ واقعی وہ بہت اچھی رقاصہ تھی۔

’’بہار کی آگ میں… بھرے دل داگ میں‘‘۔

جہاں آرا سر جھکائے سلائی کرتی رہی۔

’’بہار کی آگ میں… کہاں میرے پیارے…‘‘ دیپالی نے گایا۔ یاسمین نے گردن ہلا ہلا کر ناچ جاری رکھا۔

’’درد دل زور…‘ دیپالی نے گایا۔

جہاں آرا ایک لخت اُٹھ کر باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔

’’ہرا دھاگا ختم ہوگیا…‘‘ روزی نے اختر آرا سے کہا۔

’’دیدی‘‘۔ اختر آرا نے دیپالی سے کہا۔ ’’ذرا پلیز اوپر جا کر آپا کی الماری میں سے ہری اور نیلی ریلیں نکال لائیے‘‘۔ اُس نے تخت پر بکھرے کپڑوں کے نیچے جہاں آرا کا موتیوں کا بٹوہ تلاش کیا اور اس میں سے کنجیوں کا گچھا نکال کر دیپالی کو تھمادیا۔ ’’یہ بیچ والی کنجی ہے۔ چاکلیٹ کے بڑے بڑے ڈبے میں ریلیں ہوں گی اور آپا کا سوئینگ باکس اگر مقفل نہ ہو تو اس میں سے ڈی ایم سی کا کاسنی لچھا بھی نکالتی لائیے گا‘‘۔

’’اچھا…‘‘ دیپالی نے جواب دیا اور کنجی لے کر پہلو کی زینے کی طرف روانہ ہوگئی۔

جہاں آرا کے کمرے میں پہنچ کر اس نے لمبی چوڑی وکٹورین الماری جس کے ایک پٹ پر قد آدم آئینہ لگا تھا کھولی۔ چاکلیٹ کا ٹین اور سوئینگ باکس چوڑیوں کے ڈھیر کے پاس ایک درمیانی تختے پر سامنے ہی رکھے تھے۔ دیپالی نے چاکلیٹ کے ڈبے میں سے مطلوبہ ریلیں نکالیں۔ بیدکا سوئینگ باکس بھی کھلا ہوا تھا۔ اس کا ڈھکنا اُٹھا کر اس نے کاسنی لچھا تلاش کرنا شروع کیا۔

ریشم کے لچھوں، ریلوں اور کشیدہ کاری کے دوسرے لوازمات کے نیچے اسے ڈی ایم سی کے کاسنی لچھے کی جھلک نظر آئی۔ اسے نکالنے کے لئے دیپالی نے باقی چیزیں ایک طرف سرکائیں تو بکس کی تہہ میں رکھی ایک تصویر دکھلائی پڑی۔

دیپالی سن سی رہ گئی۔ لرزتے ہاتھوں سے اس نے تصویر باہر نکالی۔

یہ آج سے چند برس پہلے کے ریحان الدین احمد کی تصویر تھی۔
تصویر کی پشت پر بنگالی میں لکھا تھا۔
شہزادی جہاں آرا بیگم کے حضور میں
اُن نے ادنیٰ غلام بے دام کی طرف سے
کلکتہ۔ ۱۶ اپریل ۱۹۲۵ء
اِس تحریر کے نیچے ایک اردو شعر لکھا تھا۔

دیپالی کی آنکھوں کے سامنے گھپ اندھیرا چھا گیا۔ چند لمحوں تک وہ تصویر ہاتھ میں لئے مفلوج سی کھڑی رہی۔ اتنے میں برابر کے کمرے میں کسی نے زور سے دروازہ بند کیا۔ اور وہ ہوش میں آکر چاروں طرف دیکھنے لگی۔ کمرہ وہی تھا۔ ساگوان کی مسہری۔ بنارسی ساریوں کے ڈبے ان گنت ’’طاقچوں‘‘ اور دروازوں والی وکٹورین سنگھار میز۔ مسند، قالین، کتابوں کی الماری، کشمیری کڑھت کے پردے، کوئی چیز بھی نہیں بدلی تھی۔ دریچے کے باہر جولائی کی مدھم دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور نیچے تالاب کے کنارے سے لڑکیوں کے قہقہوں کی آواز آرہی تھی۔

دیپالی نے جلدی سے تصویر سوئینگ باکس کی تہہ میں واپس رکھ کر الماری بند کی اور قد آدم آئینے میں اسے اپنی دہشت زدہ، بھونچکی شکل نظر آئی۔ اس کا چہرہ سپید پڑ گیا تھا۔ اور اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔

دھاگوں کی ریلیں اور لچھا سٹی میں بھینج کر وہ کمرے سے باہر نکلی۔ اور زینہ اُتر کر سیمل کے نیچے پہنچی۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ ازل سے ابد تک کا فاصلہ طے کرکے لوٹی ہے۔

نورگس باگ میں… بہار کی آگ میں
درد دل زور

اب شمسہ خالہ کی لڑکی فریدہ ہار مونیم پر زور زور سے گا رہی تھی اور یاسمین پھرکی کی طرح ناچنے میں مشغول تھی۔ اختر آرا اور روزی سیمل کے نیچے سلائی کررہی تھیں۔ انجم آرا گلاب خاص کے نیچے ’’راج سنگھاسن‘‘ پر سے دلائی سمیٹ کر اٹھ رہی تھی۔ یاسمین ناچتے ناچتے جا کر اس تخت پر بیٹھ گئی۔ دیپالی کو دیکھ کر انجم آرا نے آواز دی۔ ’’دیدی۔ ادھر آئو‘‘۔

دیپالی اختر آرا کو دھاگے دینے کے بعد جا کر ’’شاہی تخت‘‘ کے کنارے پر ٹک گئی۔

’’دیدی ذرا سنبھل کر بیٹھنا۔ اس کا ایک پایہ ٹوٹا ہوا ہے‘‘۔ یاسمین نے کہا۔

’’اچھا…‘‘اس نے احمقوں کی طرح ہنس کر جواب دیا۔

’’آستینوں کی تُرپائی‘‘۔ انجم آرا نے اسے بردکیڈ کا ایک ادھ سلا بلائوز تھما دیا۔ اور خود دُلائی تہہ کرکے کوٹھی کی طرف روانہ ہوگئی۔

نزدیک ایک ستیل پاٹی پر فرید پور سے آئی ہوئی ایک رشتہ دار لڑکی نے گلابی کریب ڈی شین کا ایک ٹکڑا بچھا کر بلاوز تراشنے کے لیے اسے ناپنا شروع کیا۔ مالا ملازمہ اس کے قریب اکڑوں بیٹھ گئی۔ ( جاری ہے)

حصہ