جنریٹر

131

گاڑیوں سے آتے ہوئے شور کے دوران میں خاموش صحن میں ٹھنڈی ہوا کا لطف لے رہی تھی کہ اتنے میں آسیہ ٹرے میں تربوز لیے میرے پائنتی آکر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں عمر اور سارہ بھی آکر تربوز کھانے لگے۔ پھر لوڈو نکالا گیا اور بازی شروع کی گئی… اور پھر سے ایک بار میرے دل کو تسکین دیتا شور شروع ہوگیا۔ قریب ایک مہینہ ہوگیا ہے، مغرب کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، روز میرے پوتا پوتی صحن میں آکر کھیلتے ہیں تو کبھی مجھ سے کوئی کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں۔ میں اکثر اپنی زندگی کا کوئی واقعہ یا داستاں لے کر بیٹھ جاتی ہوں۔ اسی دوران بہو بھی کچھ ٹھنڈا، گرم لے آتی ہے کہ بہو کو بھی کچھ اپنے دل کی سناتی ہوں، کچھ وہ اپنی مجھے سنا جاتی ہے۔ بچوں کا شور بھی بھلا لگتا ہے۔ کبھی کسی کھیل کی بازی، کبھی اسکول کا کوئی کام… خوب شور شرابے سے کیا جارہا ہوتا ہے۔ گویا پورا گھر صحن میں گونج رہا ہوتا ہے قلقاریوں سے، چٹ مٹ لڑائیوں سے، ہنستی کھیلتی زندگی کی رعنائیوں سے… میں کبھی انہی کے ساتھ گھل مل جاتی ہوں تو کبھی خاموشی سے باہر سے آتی گاڑیوں کی آوازوں کے بیچ سوچتی ہوں کہ آج ذرا دیر کے اندھیرے سے میرے خاندان کے چراغ مجھے نظر آنے لگے ہیں کہ زندگی کی گاڑی میں کہیں رکنا بھی ضروری ہے، بھاگتی ہوئی زندگی میں اپنوں کا احساس پانے کے لیے بھی وقت درکار ہے، مگر نہ جانے کیوں وہ وقت نکل نہیں پاتا۔
میرے دل کو ایک دھچکا سا لگا جب میرے بیٹے اسلم نے بہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل جنریٹر آجائے گا۔
میں اپنی کیفیت کو قابو نہ کر پائی اور رو دی۔ اسلم یک دم میرے پاس آیا اور کہا ’’ماں گرمی کی شدت بہت ہے مجھے اندازہ ہے۔‘‘
نہ جانے کیوں اس نے میرے رونے سے یہی اخذ کیا۔ میں بتا نہ سکی مجھے گرمی کی شدت نے نہیں، رشتوں کی قلت نے رلایا ہے۔

حصہ