جمال اور کمال اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے جلدی جلدی سوٹ کیس میں سے مخصوص لباس نکال کر زیبِ تن کئے۔ ایک تو یہ کہ یہ لباس خود ان کے ڈزائن کئے ہوئے تھے دوئم یہ کہ اس میں جو جو فنکشن رکھے گئے تھے ان سب کے متعلق پوری تفصیل کے ساتھ ان کو بتا دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک عام سی گھڑی اٹیچ تھی لیکن حقیقتاً یہ گھڑی ایک زبردست ریموٹ کنٹرول تھا۔ اسی میں کالے شیشے کا ایک مستطیل کی شکل کا ٹکڑا بھی تھا جس کے متعلق ان کو بتایا گیا تھا یہ ایک اعلیٰ قسم کا ”پیجر” ہے جس پر ٹکسٹ کی صورت میں میسج تو آ سکتے ہیں لیکن بھیجے نہیں جا سکتے۔ ان کا تعلق سیٹلائٹ سے ہے۔ میسج میں جو کچھ بھی آئے گا وہ مختلف جانوروں کی شکلیں آئیں گی۔ ان شکلوں سے معانی اخذ کرنا ہونگے جس کی تربیت پہلے ہی ان کو دی جاچکی تھی۔ اس کے علاوہ جو جو چیزیں ان کو اپنے ہمراہ لے جانی تھیں، لباس کی مختلف جیبوں رکھیں۔ ابھی وہ اس کام سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ باہر سے کسی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ وہ باہر نکلے تو ایک منفرد شکل کی جیپ کو اپنا منتظر پایا۔ قریب پہنچنے پر انھیں پتا چلا کہ خود سردار جیپ لیکر آئے ہیں۔ جب یہ جیپ میں بیٹھ تو سردار نے کہا کہ یہ جیپ خاص طور سے اس پہاڑی کی چوٹی تک پہنچنے کےلیے میں نے از خود ڈیزائن کر وائی ہے کیونکہ کوئی بھی چیپ یا گاڑی پہاڑ کی اس چوٹی کو سر نہیں کر سکتی جہاں تم دونوں کو چھوڑنا ہے۔ مجھے اب تک تم دونوں کی جانب سے بہت فکر لگی ہوئی ہے لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ آپ بہت فکر مند نہ ہوں، اللہ نے چاہا تو جمال اور کمال خیریت سے لوٹیں گے۔ جمال اور کمال نے بیک وقت سوال کیا کہ آپ خود کیوں چلے آئے، کسی اور کے ذمہ یہ کام لگا دیتے۔ سردار عطا اللہ کہنے لگا کہ ایک تو میں کسی کے علم میں یہ بات لانا نہیں چاہتا تھا کہ تم لوگ رات کے اندھیرے میں یہاں کیا کرنے جا رہے ہو دوسرا یہ میں نہیں چاہتا کہ میرے علاقے کے کسی بھی فرد کو یہ پتا چلے کہ میں اپنے کم عمر مہمانوں کو ایک ویران و اجنبی مقام پر تنہا چھوڑ نے جا رہا ہوں۔ جواب سن کر جمال اور کمال نے پھر کوئی اور سوال نہیں کیا۔ فاصلہ بھی کم تھا اور ان کو اندازہ تھا کہ اب وہ چند منٹ میں ہی اس مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے ان کو سارے امور خود ہی انجام دینا ہونگے۔
عجیب و غریب گاڑی سے اترنے اور اپنا ضروری سامان اتار نے کے بعد جمال اور کمال نے سردار کا شکریہ ادا کیا۔ سردار نے ان دونوں سے نہایت فکرمندی کے ساتھ رخصت چاہی اور گاڑی موڑ کر اپنے ڈیرے کی جانب روانہ ہو گیا۔ پہاڑ کی چوٹی بارہ پندرہ فٹ بلند تھی جس پر پہنچ کر ہی یہ اندازہ ہو سکتا تھا وہاں سے نیچے اترنے کا کیا راستہ ہے۔ دونوں نے رات کی تاریکی میں بھی دیکھنے والے چشمے اپنی آنکھوں پر لگا لیے۔ چند منٹوں میں ہی دونوں پہاڑی کی چوٹی سر کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ جب انھوں نے نیچے کی جانب نگاہ دوڑائی تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ پہاڑ کے دوسری سمت بالکل اس طرح سیدھائی تھی جیسے اس کو انسانی ہاتھوں سے تراشہ گیا ہو۔ اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد وہ اسی نتیجے پر پہنچے کہ کہیں سے بھی نیچے اترنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ بے شک ان کے لباس میں یہ خوبی موجود تھی کہ وہ گیس کے غباروں کی مانند پھول سکتے تھے اور وہ آرام کے ساتھ آہستہ آہستہ زمین پر اتر سکتے تھے لیکن آج ہوا غیر معمولی رفتا سے چل رہی تھی۔ ایسی صورت میں اس بات کا قوی امکان تھا وہ مقررہ جگہ کی بجائے کہیں دور جا اتریں۔ یہ بھی امکان تھا کہ تیز جھونکوں کی وجہ سے وہ پہاڑی سے ٹکراتے رہیں۔ گو کہ لباس کو کافی مضبوط بنایا گیا تھا لیکن اگر غبارہ بن جانے کے بعد لباس بار بار کسی پتھر سے رگڑ کھاتا رہے تو شاید وہ اتنی ضربیں برداشت نہ کر سکے۔ یہی سوچ کے جمال اور کمال نے اپنے ہمراہ ایسی رسی رکھ لی تھی جو دو ڈھائی من وزن کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ رسی کی لمبائی تھی تو کافی لیکن اس بات کا امکان بھی تھا کہ شاید وہ آخری گہرائی تک نہ پہنچ سکے۔ دونوں نے کہا کہ اگر یہ آخری گہرائی تک نہ بھی پہنچ سکی تو کم از کم ہم زمین سے کافی قریب ضرور ہو جائیں گے اگر چند فٹ کا فاصلہ رہ گیا تو ہم یہ فاصلہ کود کر بھی پورا کر سکتے ہیں اور ایسا کرنا ہماری ٹریننگ کا حصہ بھی رہا ہے لیکن اگر فاصلہ زیادہ ہوا تو ایسی صورت میں ہم اپنے لباس کو غبارے میں تبدیل کر لیں گے۔ چند گز کے فاصلے سے ایسا کرنا ہمارے لیے اتنا خطرناک نہیں ہو گا جتنا بلندی سے کودنے میں ہے۔ جمال اور کمال نے اپنے اپنے بیگوں سے رسیوں کے دو گچھے نکالے اور دو بڑی چٹانوں سے باندھ دیئے۔ انھوں نے اطمنان کر لیا تھا کہ یہ چٹانیں اتنی مضبوط ہیں کہ اپنی جگہ سے ہلیں گی بھی نہیں۔ چٹانوں سے رسیاں باندھ نے کے بعد ان دونوں نے اللہ کا نام لیا اور آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے۔ ان کا یہ شک کہ غبارے چٹانوں کے ساتھ ٹکرانے کی صورت میں پھٹ بھی سکتے ہیں، صحیح ثابت ہو رہا تھا کیونکہ دیوار نما پہاڑ کی سطح پر کہیں کہیں سخت کانٹوں والی جھاڑیاں بھی راستے میں آ رہی تھیں۔ یہ دونوں ماہر کوہ پیماؤں کی طرح آہستہ آہستہ نیچے کی جانب اتر رہے تھے۔ جھاڑیوں سے بچنے کےلیے وہ اپنے پیروں کی مدد سے اس طرح اپنے آپ کو پہاڑ سے دور کر لیتے جیسے جھولا جھولنے والے بچے اپنی رفتار تیز کرنے کےلیے زمین پر اپنے پیر مارتے ہیں۔ اب وہ رسی کے آخری سرے کے قریب تھے۔ جب انھوں نے نیچے کی جانب دیکھا تو اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ ان کی رسی کا اختتام ایک ایسے ٹیلے پر ہو رہا ہے جو زمین سے بصد مشکل چالیس فٹ بلند ہے۔ جیسے ان کے پاؤں ٹیلے سے ٹکرائے انھوں نے رسیاں چھوڑ دیں۔ یہاں سے زمین پر کسی اور سہارے کے بغیر اترا جا سکتا تھا۔ پہلے تو انھوں نے سوچا کہ رسیوں کو یوں ہی لٹکا رہنے دیں لیکن فوراً ہی انھیں یہ خیال آیا کہ اگر کسی نے چٹانوں سے بندھیں رسیاں دیکھ لیں یا نیچے موجود کسی کی نظر ان لٹکی ہوئی رسیوں پر پڑ گئی تو ایک ہنگا مہ برپا ہو جائے گا۔ جمال اور کمال کو بہت سارے گرہ لگانے کے طریقے سکھائے گئے تھے۔ ہر کام کےلیے الگ الگ گرہیں لگانے کی ان کو مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ رسیاں چٹانوں سے باندھتے وقت انھوں نے بہت ہی مخصوص طریقے کی گرہیں لگائی تھیں یہی وجہ ہے کہ نیچے اترنے کے بعد انھوں نے رسیوں کو کچھ خاص انداز سے جھٹکے دیئے اور رسیاں تیزی کے ساتھ زمین کی سمت آنے لگیں۔ انھوں نے ان رسیوں کو ایک مرتبہ پھر سے لچھوں کی شکل دے کر اپنے اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ بیگوں کو دوبارہ اپنی اپنی کمر پر باندھ کر وہ نہایت احتیاط کے ساتھ پہاڑی ٹیلے سے نیچے اترنے لگے۔ جیسے ہی وہ نیچے کی سمت اترے ان کی کلائی پر بندھی گھڑی نما ڈوائس کپکپانے لگی ۔ جونہی انھوں نے کلائی کی جانب دیکھا اس پر ایک خفیہ تحریر نظر آئی جس پر لکھا تھا کہ ہمیں علم ہو گیا ہے کہ تم دونوں کامیابی کے ساتھ پہاڑ کی گہرائی میں اتر چکے ہو۔ یہاں سے تمہارے سامنے کے رخ پر ٹھیک سو میٹر کے فاصلے پر، بائیں ہاتھ کی جانب ایک غار سا آئے گا۔ یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں سے ترا شیدہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے قریب اگر کوئی اوٹ موجود ہو تو وہاں سے کوشش کرو کہ اندر کے حالات کا جائزہ لیا جا سکے، وہاں انسانوں کی موجودگی کا احساس ہو رہا ہے لیکن وہ کون ہیں، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ (جاری ہے)