نجات کا لمحہ

150

شرفواکثر سودے میں سے پیسے اڑالیا کرتا تھا۔ گوشت دو سیر کی بجائے ڈیڑھ سیر خرید تا سبزی ایک سیر کی جگہ تین پاؤ ، راشن بھی کبھی پورا نہ لاتا۔ اس طرح روزانہ اس کی چالیس پچاس روپے کی بچت ہو جاتی تھی۔
شیخ اکرم کے گھر اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا۔ پھر اتنے تھوڑے سے پیسوں کا ان کو کیا پتا چلتا۔ شرفو یہ کام بوا کے تعاون سے کرتا جس کے ہاتھ میں کچن وغیرہ کا سارا انتظام تھا۔ دونوں آدھے آدھے کے ساجھے دار تھے۔
آج بھی جب وہ گوشت سبزی لینے بازار جا رہا تھا تو ایک پرچون کی دوکان پر رش دیکھ کر رک گیا۔ کوئی جھگڑا چل رہا تھا۔
اس نے اچک کر دیکھا ایک نوجوان لڑکا دکاندار کو لتاڑ رہا تھا۔
یہ بتاؤ شیخ جی ۔ تم نے جو مجھے سیر کی جگہ چودہ چھٹا نک چینی دے دی ہے اور پیسے پورے سیر کے لئے ہیں تو یہ دو چھٹانک چینی کا حساب اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن کیسے دو گے؟“
شیخ صاحب نے ذرا اکڑنا چاہا۔ بولے۔ ’’میں نے چینی کم نہیں دی۔ وزن کے حساب سے پوری دی ہے۔“ لڑکا جھٹ سے بولا ۔’’ وزن ہی تو کم وزن کا ہے۔“
تمہارے پاس لیبرڈ پارٹمنٹ کا پاس کردہ ایک بھی وزن نہیں ہے، سب اپنے بنائے ہوئے ہیں ۔“ایک صاحب نے لڑکے سے کہا۔ ” آپ کیسے کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کا وزن کم وزن کا ہے ۔‘‘
لڑکے نے پلڑے میں سرکاری وزن کی طرف اشارہ کیا۔ ” یہ دیکھئے، یہ سرکاری وزن میں شیخ صاحب کے ہمسائے دکاندار سے لایا ہوں اور شیخ صاحب کے وزن سے تلی ہوئی چینی اس کے وزن سے پوری دو چھٹا تک کم ہے۔“
بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔ اوپر سے شیخ صاحب کا گھبرایا ہوا چہرہ اور الٹی سیدھی وضاحتیں ، ان کو مجرم بلکہ عادی مجرم ثابت کر رہی تھیں۔ وہ لوگوں کی طعن و تشنیع بھری نظروں کے تیروں سے بری طرح گھائل ہو رہے تھے۔
پھر شیخ صاحب۔ آپ نے بتایا نہیں کہ قیامت کے دن آپ اپنی بےایمانیوں کا حساب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو کیسے دیں گے؟“ ایک اور آدمی نے لقمہ دیا۔
شیخ صاحب ماتھے سے پسینہ پونچھ کر رہ گئے ۔ ان کی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا۔
’’در اصل غلطی ہم لوگوں کی ہے۔“ لڑکے نے ذرا بلند آواز سے کہا ” جس دکاندار نے بڑے سے بورڈ پر لکھ رکھا ہو کہ ’’جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ حدیث نبویؐ ‘‘ ہم آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لیتے ہیں کہ یہ دکاندار بے ایمان ہو ہی نہیں سکتا اور وہ اس بورڈ کی آڑ میں ہم سے کم سودے کے ملاوٹ شدہ مال کے پورےدام وصول کرتا رہتا ہے۔“
یہ تو ہماری مجبوری ہے بھائی ، مذہب کے نام پر ہمیں جو چاہے لوٹ لے،چاہے وہ دکاندار ہو یا سیاست دان ۔ ایک بزرگ نے جواب دیا۔
لڑکا بحث پر اتر آیا۔ بہر حال مذہب نے ہمیں عقل سے کام لینے کو کہا ہے۔ عقل گھاس چر نے نہ چلی جائے تو سودادیکھ پر کھ کر لینا ضروری ہے ۔‘‘
لڑکا باریش دکاندار کی طرف مڑا ۔’’ شیخ صاحب ! آپ اپنی چینی واپس لیجئے اور میرے پیسے لوٹا دیں۔ میں آپ جیسے بے ایمان دکاندار سے سودا لینا حرام سمجھتا ہوں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ بے ایمان تاجر جہنم کا ایند ھن بنے گا۔لایئے میرے پیسے۔‘‘
شیخ صاحب نے خاموشی سے اس کے پیسے واپس کئے اور لڑکا پیسے لے کر دوسرے دکاندار کے پاس چلا گیا۔ بھیڑ چھٹ گئی۔ لوگ ادھر ادھر ہو گئے ۔ شیخ صاحب نے دکان لڑکے کے حوالے کی اور گھر چلے گئے مگر شرفووہیں کھڑ الرز رہا تھا۔
لڑکے کی باتوں نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج تک وہ حرام سے اپنا پیٹ بھرتارہا تھا۔ بے ایمانی کے آدھے پیسے ڈکار کر اسے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ جہنم کا ایند ھن جمع کر رہا ہے۔
اس نے چپ چاپ سودا سلف لیا اور گھر لوٹ آیا۔ بوانے جو نہی اپنے آدھےپیسوں کا مطالبہ کیا۔ اس نے تڑپ کر کہا۔
’’بس بوا۔ آج سے بے ایمانی ختم‘‘۔
کیا کہہ رہا ہے شرفو ؟ بوا حیرت سے بولی۔
’’ہاں بوا۔‘‘ وہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں خدا اور رسولؐ کا مجرم بن کر جہنم میں نہیں جانا چاہتا۔ اللہ میری تو بہ قبول کرے۔‘‘
بوا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ شرفو کے چہرے پر نجات کے لمحے کا نور
پھیل رہا تھا… ندامت کے آنسوؤں کی شکل میں۔

حصہ