اتفاق فی سبیل اللہ :پاکستانی معاشرے کی ضرورت

دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور متاعِ غرورہے۔ یہ سب کچھ ناپائیدار اور فنا ہو جانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انسان کو دنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت‘ اپنی قوتیں اور اپنی کمائی خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سب کے لیے نظر کی وسعت‘ حوصلے کی فراخی‘ دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے اور اسلام ایسی اجتماعی زندگی کے نظام میں تبدیلی لانا چاہتا ہے جس میں افراد کے اندر مادہ پرستی کے بجائے رضائے الٰہی کے اخلاقی اوصاف نشوونما پائیں۔ انسان کا مال خواہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہو یا اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے یا اپنے عزیز و اقارب کی خبر گیری اور محتاجوں کی اعانت میں خرچ ہو‘ رفاہ عام کے کاموں میں صرف ہو یا اشاعتِ دین اور جہاد کے مقاصد میں۔ بہرحال اگر وہ قانون الٰہی کے مطابق اور رضائے الٰہی کے مطابق ہیں تو اس کا شمار اللہ کی راہ میں ہوگا اورراہِ الٰہی میں مال کو جتنے خلوص اورصداقت سے خرچ کیا جائے اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔ سورۃ بقرہ میںارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میںسو دانے ہوں۔ اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے نہ دیکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اوران کے لیے کسی رنج و خوف کا موقع نہیں۔ ایک میٹھا بول اورکسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہترہے جس کے پیچھے دکھ ہے۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے‘ نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ برخلاف اس کے جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو اگر زور کی بارش ہو جائے تودگنا پھل لائے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ہلکی پھوار ہی اسکے لیے کافی ہو جائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو۔ نہروں سے سیراب‘ کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا اور وہ عین وقت پر (جب تیار ہو) ایک تیر گرم بگولے کی زد میں آکر جھلس جائے جب کہ وہ شخص خود بوڑھاہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں۔ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم غور و فکر کرو۔ اے ایمان والو! جومال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہوکہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹ نے کی کوشش کرنے لگو حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماص برت جائو تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرم ناک طرز عمل اختیارکرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے‘ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں۔ تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو اللہ کو اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تویہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ تمہاری بہت سی برائیاں اس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہرحال اس کی خبر ہے۔ خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ تم خیرات میں خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر تم کو دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔

خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گِھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خود داری دیکھ ناواقف لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا‘ جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج و خوف کا مقام نہیں۔ (سورہ بقرہ: 274-276)

سورہ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خلوص‘ صداقت‘ سچائی سے صدقہ خیرات کرنے والوں کو بڑے اجر کی نوید سنائی ہے جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتاہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ سچے جذبے سے ادا کی ہوئی خیرات یا صدقے کو اسی طرح نشوونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر انسان کو ملے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت فراخ دستی ہے اور وہ علیم ہونے کی وجہ سے انسان کے جذبے کی صداقت سے واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ مال کے خرچ کرنے میں بردباری کو پسند کرتا ہے۔ کم ظرف‘ احسان جتانے والے‘ چھچھورے اور دوسروں کی عزتِ نفس کو خاک میں ملانے والے انسانوںکو وہ پسند نہیں کرتا۔ وہ ایسے لوگوں کو بھی پسند نہیں کرتا جو کسی بھوکے کو ایک روٹی کھلا کر محفل میں اس کی عزتِ نفس کو مجروح کر دے اور احسان جتاجتاکر اس کا جینا دو بھر کر دے۔ ریا کاری‘ دکھاوا‘ چھچھورے لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے جن کا ہر عمل دنیا داری اور محض دکھاوا ہوتا ہے۔

نیکی اورنیک نیتی سے دی ہوئی خیرات اور صدقہ اپنے اجر کے لحاظ سے بہتر ہے۔ خلق کی خوشنودی اور دکھاوے کے لیے کسی کی مدد کرنا اللہ کی ناشکری اوراحسان فراموشی ہے۔ جو انسان کی ہر ضرورت کو ہر لمحہ بلا کہے پوری کرتاہے‘ جذبہ خیر اور صداقت سے دی گئی خیرات کی مثال ایسی بارش کی مانند ہے جو زور سے ہو۔ جو شخص آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دنیا ہی کی دھن میں لگا رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دنیاوی فائدے کی تلاش میں کھپاتا رہے تو آفتاب زندگی کے غروب ہونے پر اس کی حالت اس بوڑھے ناتواں کی طرح حسرت ناک ہوگی جس کی عمربھر کی کمائی اور زندگی بھر کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ بھی بڑھاپے میں اس وقت جل گیا جب کہ وہ نہ تو نئے سرے سے باغ لگانے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے۔ خدائے رب ذوالجلال خود فیاضی کی صفت رکھتا ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشس و عطا کی دریا بہا رہا ہے۔ وہ تنگ نظر اور کم حوصلہ‘ پست اخلاق لوگوں سے محبت نہیں کرتا۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے‘ وہ اسے ایسا راستہ دکھاتا ہے جو خدا سے اسے دور کر دے۔ شیطان کے راستے پر چلنے والے ہر دم پیسہ کمانے اور اس کے جوڑنے میں لگے رہتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے میں حیلہ بہانہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو اللہ کی بصیرت کا نور حاصل کرتے ہیں وہ اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اس کا جھوٹا سا جزو ہے۔ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے جہاںکے لیے وہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کی ہر لمحہ کوشش کرتا ہے۔

فرض صدقہ کو اعلانیہ دینا افضل ہے۔ مگر جو صدقہ فرض نہ ہو اسے چھپا کر دینا بہتر ہے۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا اعلانیہ انجام دینا فضیلت رکھتا ہے اور نوافل کا چھپا کر اداکرنا بہتر ہے کیوں کہ چھپا کر نیکیاں کرنے سے انسان کے اخلاق اور نفس کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے اس کے اوصافِ حمیدہ میں اضافہ ہوتا ہے اور برائیوں میں کمی آتی جاتی ہے۔

ابتدائے اسلام میںمسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں کی مدد میں تامل کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ صرف مسلمان حاجت مند ہی صدقہ‘ خیرات کے مستحق ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے مگر دنیاوی مال و متاع سے اپنے غریب غیر مسلم رشتے داروں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ آپؐ کے عہد مبارک میں کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو ہمہ وقت دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا اور کسب معاش کے لیے وہ وقت نہیں نکال پاتے تھے۔ تاریخ میں انہیں اصحابِ صفہ کہا جاتاہے۔ یہ تین‘ چار سو نفوس تھے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے اور ہر وقت حضو اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے‘ ہر خدمت کے لیے حاضر رہتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس مہم پر چاہتے ان کو بھیج دیتے اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا تو یہ مدینے ہی میں دین کا علم حاصل کرتے اور دوسروں کو بھی اللہ کے دین کی تعلیم دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدد کو انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف قرار دیا کیوں کہ غیرت اور حمیت کی بنا پر کسی سے سوال نہیں کر سکتے تھے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کی اس طرف توجہ دلائی کہ خصوصیت سے اصحاب صفہ کی مدد کی جائے۔ صدقہ دینے والوں کی فیاضی‘ ہمدردی‘ فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی کی تعریف کی۔ صدقے اور خیرات دینے سے معاشرے میں اجتماعی طور پر ہمدردی اور انسیت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح دوسرے کی مدد کرنا کہ ’’ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو‘‘ بڑے اعلیٰ ظرف کی علامت ہے۰

سورہ حدید میں انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا گیا ہے کیوں کہ ایمان محض زبانی اقرار اور ظاہری اعمال کا نام نہیں بلکہ اللہ اس کے دین کے لیے مخلص ہونا اس کی اصل روح اور حقیقت ہے۔ یہ مال و دولت دراصل اللہ ہی کادیا ہوا ہے۔ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی اور اخلاصِ نیت ہرحال میں قابل قدر ہے اور یہ مال اللہ کے ذمہ قرض ہے جو اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا۔ آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہوگا جنہوں نے راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہوگا۔

جومال اللہ نے بندوں کو دیا ہے وہ اللہ کا بخشا ہوا ہی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ مال کسی اور کے پاس چلا جائے گا اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کو اجر کا مستحق بنانا ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا‘ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ کے ہاں ایک بکری ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر تشریف لائے تو پوچھا ’’بکری میں سے کیا باقی رہا؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ایک شانے کے سوا ساری بکری بچ گئی۔‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صرف ہوا وی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ کہ تو صدقہ کرے اور اس حال میںکہ تو صحیح و تن درست ہو مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو‘ تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو‘ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے۔‘‘ (مسلم‘ بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدمی کہتا ہے کہ میرا مال… مال مال حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا یا پہن کر پرانا کر دیا یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے چھوڑ کر دوسروں کے لیے جانے والا ہے۔‘‘ (مسلم)