ڈاکٹر عفان کون ہیں؟
ڈاکٹر محمد عفان قیصر المعروف سموسے والی وڈیو نے ایک بار پھر ’لال ہے ساری گڈی لال ہے‘‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا کی قوت کا اظہار کردکھایا۔ڈاکٹر عفان ملتان سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے 2فیس بک پیجز ہیں جن کو وہ مستقل صحت کے امور سے متعلق آگہی دینے میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ایک فیس بک پیج پر 38لاکھ سے زائد فالوورز ہیں جبکہ دوسرے ویریفائڈ پیج پر 4 لاکھ۔یو ٹیوب پر ایک چینل ہے جس کے ڈھائی لاکھ سبسکرائبر ہیں ۔ ڈاکٹر عفان جگر کے اچھے ڈاکٹر شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اور ان کی ڈاکٹر (ریڈیولوجسٹ )اہلیہ بھی سماجی موضوعات پر اچھا احاطہ کرتے ہیں ۔ میں ان کے پیش کردہ مواد کو معلوماتی و سماجی اصلاح کی نوعیت کا قرار دیتا ہوں۔کئی خطرناک بیماریوں سے بچنے کے لیے ’سموسوں ‘سے اجتناب کی لہر کے بعد اُنہوں نے اب ’تربوز کے لال رنگ کا راز ‘فاش کر دیا۔ وہ ’فوڈ سائنٹسٹ ‘ تو نہیں ہیں تاہم پڑھے لکھے تجربہ کار ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے وہ عالمی تحقیقات کو پڑھ کر تجزیہ کرسکتے ہیں اور وڈیوز میں ثبوت بھی دکھادیتے ہیں۔
لال کرنے کا دیسی و کیمیکل ٹوٹکا:
تربوز لال نہ ہو تو کسی کام کا نہیں، پہلے تو اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے تربوز کا شربت بیچنے والوں کو دیکھیں کہ کیسے لال ’روح افزا‘ میں ڈبو کر سارے سفید تربوز 100 روپے میں سب کو کھلا دیتے ہیں اور لوگ بھی خوشی خوشی پی لیتے ہیں۔انڈیا کی کئی وڈیوز میں آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسے خوشنما طریقے سے تربوز بیچتے ہیں کہ لال ہونا اور میٹھا ہونا مسئلہ ہی نہیں۔تربوز کا اصل کام پانی ہے جو لال ہوئے بغیر بھی وہ دے سکتا ہے ۔میں نے تو اورنج اور پیلا تربوز بھی دیکھ لیا ، تو اس کا کیا ہوگا؟ذائقہ کی دیوانی قوم کو سمجھنا ہوگا کہ پھل انسان کی ذائقے کی ضرورت سے کہیں آگے کی چیز ہیں۔ اب یہ بدترین کاربائیڈ والے آم کھاکر ان کو سمجھ نہیں آئےگا ،مگر ڈاکٹر عفان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ویسے تربوز کو لال کرنے کااولین انسانی ’ٹوٹکا‘جو میں نے نوٹ کیا تھا وہ یہ کہ تربوز کے ٹھیلے والے لال رنگ کا کپڑا بطور چھت استعمال کرتے ہیں ۔ دن کی روشنی میںلال رنگ کے کپڑے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ جب وہ تربوز کی قاش کاٹ کر نکالتا ہے تو اس کے گودے کے رنگ میں لال کپڑے سے چھن کر آنے والی روشنی از خود لالی بھر دیتی ہے یہ کام رات کو لالٹین یا بلب کی روشنی میں بھی ہوتا ہے۔ہمارا موضوع ’تربوزکی افادیت‘ تو نہیں ہے مگر سوشل میڈیا پر تربوز کے اتنے چرچے اس ہفتے رہے کہ مجھے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ تربوز وہ پھل ہے جس کا کوئی حصہ بشمول سبز چھلکا بے کار نہیں ہوتا۔ تربوز کا سرخ رنگ کا گودا کھانے کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے اس سے بھی بہت کام کی چیز تیار ہوتی ہے۔میں نے تو ایک ہی دیکھی تاہم کئی ساری ہو سکتی ہونگی۔
سوشل میڈیا قوت :
مگر سوشل میڈیا نے تو ایسا کام کر دکھایا کہ اس کی ہولناکی مت پوچھیں۔ جی۔ہولناکی۔ اعداد و شمارسے پیدا ہونے والی نفسیات کی ہولناکی۔ لوگ ڈاکٹر عفان کی وڈیو کے 74 ہزار شیئر ، 7600کمنٹس ، 85 ہزار لائیکس دیکھ کر شاید دیوانے ہوگئے۔ڈاکٹر عفان نے صرف اپنے مریضوں کے تجربات اور دیگر ممالک سے آئی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق ایک وڈیو میں بتایا کہ ’’تربوز میں انجیکشن سے منتقل کیے جانے والا لال رنگ جس کیمیکل سے تیار ہوتا ہے وہ انسان کے اندر ہیضہ اور بعد ازاں مستقل استعمال سے جسم میں معدے و آنتوں کا کینسر پھیلاتا ہے ۔‘‘فوڈ کلر اُن کا اصل موضوع تھا ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہر قسم کا کیمیکل زہر ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ یہ گولی کی طرح اثر نہیں کرتا جیساکہ کھاتے ہی لوگ مرجائیں ، یہ اپنا کام جسم میں جا کر کرتا رہتا ہے اور پھر ناسور کی صورت ابھرتا ہے جسے بعد میں لوگ فلاں اسٹیج، فلاں اسٹیج کا کینسر کہتے ہیں۔ڈاکٹر قیصر نے جو دلائل کیمیکل کے زہریلے اثرات کے دیئے وہ اپنی جگہ درست ہیں۔ تاہم تربوز میں اس کو کتنا ، کب ، کیسے ڈالاجاتا ہے اس کی حقیقت ہو سکتا ہے و ہ نہ جانتے ہوں۔ ڈاکٹر عفان کے تربوز کیس میں سوشل میڈیا کی قوت ان معنوں میں بھی دیکھنے کو ملی کہ وہ لوگ بھی جو تیس چالیس سال سے مسلسل تربوز کھا رہے تھے وہ بھی تربوز پر ٹیشو پیپر لگاتے اور وڈیو بناتے نظرآئے ۔ہمارے زاہد چھیپا بھائی نے تو’ بابائے کیمیکل ‘ یعنی لندن پہنچ کر تربوز کاٹ کر ٹشو پیپر چپکا کر دکھادیا کہ گویا لندن کے تربوز میں تو لال رنگ ڈالنا ممکن نہیں۔ بہرحال ریٹنگ کا عالم یہ رہا کہ ایک چینل نے تو’’ڈاکٹر عفان قیصر کی نشان دہی پر تربوز کو ٹیکے لگانے والا پکڑا گیا۔‘‘ کی سرخی لگا کر باقاعدہ ٹیکہ لگانے کی وڈیو بنوائی اور وائرل کرائی۔ وڈیو کی سرخی ویوز پانے کے لیے دھوکہ دہی پر مبنی تھی ، سب چینل نے خود معاملہ سیٹ کیا تھا۔اس کے علاوہ یہ رد عمل بھی تھا کہ ’’اس لالچی شخص نے اپنا ایک ویلاگ بیچنے کی خاطر تربوز میں انجکشن لگانے کی جھوٹی اور بے بنیاد ویڈیو بنا کر ہزاروں غریب محنت کش کسانوں کا معاشی قتل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ہم اس ذہنی مریض کی اس بھونڈی حرکت کی مذمّت کرتے ہیں۔‘‘سب کو لگا کہ اس فارمولے کا رد ہونا چاہیے یا چیک کرنا چاہیے۔کمال کی بات ہے ناںکہ اچانک ایک وڈیو آتی ہے اور یوں انسان اپنے کم از کم تیس ، چالیس سال کے تجربات بلکہ نسل در نسل تجربات کو ایسے ایک جھٹکے میں اتار پھینکتا ہے اور ٹشو لگا کر رنگ چیک کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟
یہ اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کہ ہم ’ٹیکنالوجی‘ کی آمد سے جڑی ہوئی مرعوبیت میں جی رہے ہیں۔ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اب جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں اتنی جعل سازی ہے تو ایسا کیمیکل ایجاد ہونا کون سا ناممکن ہے جو تربوز کو لال کردیتا ہو۔ہم خود سوشل میڈیا پر جعلی دودھ، جعلی کیمیکل زدہ انڈے ، جعلی گھی، سب کی باقاعدہ تیاری کی وڈیوز دیکھ چکے ہیں کہ کیسے فیکٹری میں یا کسی گھر میں جعلی انڈے بھی تیار ہو جاتے ہیں تو پھر ’تربوز‘ کو کیسے اور کیوں معاف کیا جا سکتا ہے؟خوب جان لیں کہ ’سائنس ‘ علم کے نام پر ایک ایسے جبر کا نام ہے جو مستقل ’Reductionism پر چلتا ہے اور یہ سب کا سب ’سرمایہ‘ کی تشکیل کا کام کرتا ہے۔کیمیکل کا وجود خود اس ’Reductionism‘ کی تخلیق ہے ۔اب ہونے والی تمام ایجادات اس لیے ہوتی ہیں کہ اُس سے سرمایہ میں اضافہ ہو، اس لیے ان کی اقدار اور حقیقت کے سوال لایعنی ہوجاتے ہیں ،لہٰذا مغرب سے اخلاقیات کا بھی خاتمہ ہوگیااور صرف لذت و فائدہ رہ گیا جس کا حصول سرمایے سے ممکن ہوتا ہے ۔ پچاس کروڑ لوگوں کی لاشوں اور کھربوں روپے کی لوٹ مار پر اس جدید سائنس کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔لوٹ مار کی یہی دولت اور خدا کے وجود کا انکار ہی اس حیرت انگیز سائنسی ترقی کی بنیاد بنا جو آج ہر شخص کو فطری، حقیقی، ضروری اور عین اسلامی معلوم دیتاہے۔براعظموں کو جس طرح لوٹا گیا ہے خصوصاً امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ، ایشیا اور وہاں کے لوگوں کو جس طرح تہس نہس کر کے مال لوٹا گیا اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی اور سائنس کا پہیہ چلا ہے، صنعتی ترقی کیلئے کروڑوں افریقی غلام استعمال ہوئے اور ہلاک کئے گئے، غلاموں کا اس طرح استعمال کسی مذہبی معاشرے میں نہیں ہوا۔بس ایک مثال سے سمجھیں کہ انسان 7 ہزار سال سے سانس لے رہا تھا، کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ایک سے ایک معجزہ لیکر سوا لاکھ انبیا آئے ،صحابہ، اولیا سب آئے مگر کسی کو ضرورت نہیں پڑی کہ اس ’ہوا ‘کے اجزا کو دریافت کرے۔ مگر 17ویں صدی عیسوی میں (خداکے انکار کے بعد) ہی لوگ ’’ہوا کےاندر داخل ہوئے‘‘اُس کی مزید تجسیم کرکے آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، مونوآکسائڈسمیت گیسوں کو متعارف کرایا گیا۔ یوں کیمیکل کی وہ دنیا وجود پائی جس کی تباہ کاری ہم پر ایسے مسلط ہے کہ ’صاف ہوا ‘ اب اپنا وجود ہی کھو چکی ہے۔ کورونا نے سب کو ماسک یاد دلائے مگر یقین مانیں ایک فیصد لوگ بھی استعمال نہیں کرتے اور ہم خوشی خوشی یہ زہریلی سانس جسم میں لیتے ہیں بلکہ خرید کر گھر بھی لاتے ہیں ،کیونکہ ہم سے اپنا سب کچھ یہاں تک کہ ’فہم و شعور‘ بھی چھینا جا چکا ہے۔
غزہ احتجاج کے دو چہرے:
امریکہ و یورپ میں غزہ جنگ بندی کے لیے جاری احتجاج مستقل شدت اور نئی شکلیں لے رہا ہے۔گرفتاریاں، نوکریوں سے بے دخلی کے بعد اب کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ورکرز یونین کی ہڑتال بھی شروع ہوگئی ہے۔مسئلہ فلسطین 1947 یعنی استعماری دور کی یادگار کے طور پر اسرائیل کے قبضے اور فلسطینی عوام کی محکومیت کو ایک گندی گالی سمجھا جاتاہے ۔زمین اور قدرتی وسائل کی چوری سے لے کر نسل پرستی اور سرمایہ داری تک، اسرائیل نے خود کو نوآبادیاتی ہتھکنڈوں سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ اس لیے وہاں کے پورے احتجاجی عمل میں لیفٹ کی’ نظریاتی مزاحمت ‘کے رنگ نظر آتے ہیں، اسلام تو وہاں پہلے بھی کہیں نہیں تھا۔ایک دوست نے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ میں اتنے شدید احتجاج ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں سناٹا ہے۔ میں نے سمجھا یا کہ، پہلی بنیادی بات تویہ ہےکہ وہاں امریکہ ، یورپ اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ، مالی امداد و عسکری امداد بھیج رہے ہیں۔اس لیے اُن کو فوری روکنا ہی اصل کام ہے۔پھر امریکہ و یورپی تعلیمی اداروں میںانسانیت ، نسل پرستی racism ، استعمار colonialism ، آزادی اظہار کاجو درس دیا جاتا ہےاُس کی پامالی سے تو ایسا ہی احتجاج بنتا ہے۔ اسرائیل کو اب وہاں ایک نسل پرست استعمار کے طور پر قبول کرا جا چکا ہے۔ یہود یوں اور صیہونیوں میں فرق پیدا ہو چکا ہے۔ صیہونیوں کی نظام پر گرفت اور امریکی ریاست کی غیر معمولی حمایت نے انسانیت کی آڑسوشلسٹ مزاحمتی نظریات کو رستہ دیا ہے۔امریکی و یورپی جامعات میں فلسطینی عربوں کی بڑی تعداد مختلف شکلوں میں موجود ہے جو 70سال سے نقل مکانی یا زمینیں جبراً فروخت کرکے یہاں پہنچے۔اِن کی اگلی نسلیں جوان ہو رہی ہیں اور اپنی تاریخ کے اثرات کے ساتھ ہی بڑی ہو رہی ہیں۔ابلاغ کے وسائل نے مزید بات سمجھانے کے لیے آسانیاں کر دی ہیں۔ پاکستان نے تو اپنے پا سپورٹ پر بھی لکھ دیا ہے کہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر نہ پاکستان وہاں براہ راست کوئی مال بھیج رہا ہے نہ اسلحہ نہ فوج۔ہاں یہ کہنا جس ملک کو مانتے نہیں ہو اس سےلڑنے کے لیےفوج بھیج دو، یہ اتفاق سے پاکستان کے آئین میں لکھا ہی نہیں اور نہ امریکہ وآئی ایم ایف ایسی کسی مہم کی اجازت دیں گے۔البتہ پاکستان نے مصنوعات کے بائیکاٹ سے بالکل نہیں روکا ۔ اب جس کو مک ڈونلڈ ، کے ایف سی، پیپسی ، نیسلے وغیرہ نہیں کھانا پینا نہ کھائے ۔ البتہ جو اسلام آباد میں سیو غزہ کیمپ پر کیا گیا ہے وہ ناقابل فہم عمل ہے۔ اتنی بڑی بڑی ریلیاں، جلسے ہو رہے ہیں مگر ڈی چوک پر بیٹھے چند لوگوں کو اس طرح روندنا سمجھ سے باہر ہے۔اس لیے امریکہ و یورپ کے اسرائیل سے تعلقات کے مقابلے میں پاکستانی حکومت کسی کھاتے میں نہیں آتی۔یہ غزہ احتجاج کے2چہرے ہیں ۔ اس میں عرب ممالک، ترکیہ و افریقی ممالک میں سناٹے پر سوال ضرور کیا جانا چاہیے کیونکہ عربوں نے فلسطین کے پہلے پڑوسیوں کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی بنائے ہوئے ہیں۔