یہ عام چراغ یا شمع کی بات نہیں جو رات کی تاریکی کو دور کرنے کے لیے جلائی جاتی ہے۔ یہ اُس چراغ اور شمع فروزاں کی بات کی جا رہی ہے جو صدیوں پر محیط کفر و ذلالت اور شرک، ظلم اور جبر کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے مکہ کی پُرخار اور سنگلاخ چٹانوں کی وادیِ ظلم و جبر میں ختم الرسل، امام الانبیا، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے اصحاب کے خونِ جگر سے جلائی ہے جو آج تک روشن ہے اور جب بھی اس کو بجھانے کے لیے شیطانی طاقتوں کی آندھی تیز ہوتی ہے اس کی لو پہلے سے زیادہ تیز ہوجاتی ہے۔
اِس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(صفی لکھنوی)
دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چھ صدیوں تک انسانیت پر کفر اور شرک کا غلبہ تھا، زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں تھا جہاں وحدہٗ لاشریک کی عبادت ہوتی ہو۔ شرق تا غرب موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کے ماننے والے یہود ونصاریٰ موجود تھے مگر یہودیوں نے عزیز علیہ السلام اور عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا لیا تھا۔ سرزمینِ فارس کے لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ ہند کے لوگ لاکھوں دیوی دیوتاؤں اور شجر و حجر کو کل بھی پوجتے تھے اور آج بھی پوجتے ہیں۔ اہلِ چین کنفیوشس کی تعلیمات کو بھول چکے تھے۔ مصر والے فراعین کی حنوط شدہ لاشوں میں راہِ نجات کے متلاشی تھے۔ سرزمینِ مکہ نے تو انسانیت کی ابجد کو بھول کر خانہ کعبہ کو 360 بتوں سے سجا رکھا تھا۔
ایسے میں آمنہ کے لعلؐ دریتیم، دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا بن کر آئے اور جب آپؐ کو غارِ حرا میں خرقہ رسالت عطا ہوا تو آپؐ نے اہلِ مکہ کو پکارا:
یا ایھا الناس قولو لا الٰہ الااﷲ تفلحون۔ یہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی، عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی۔ اس کلمے کا گونجنا تھا کہ مشرکینِ مکہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس شمعِ توحید کو بجھانے اور علَم بردارِ توحید کو ختم کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلانِ توحید اور بت شکنی کے بعد نمرود کی سفاکی اور قوم کی گمراہی کو جلال آیا اور نارِ نمرود میں عشقِ الٰہی سے سرشار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈالا گیا تورحمتِ خدا وندِ عالم جوش میں آئی اور آگ کو حکم ہوا ’’اے آگ میرے ابراہیم، میرے خلیل کے لیے گل و گلزار ہو جا۔‘‘
آگ میں ڈالنے کے باوجود شمعِ توحید نہ بجھی، نہ تا قیامت بجھے گی۔ یحییٰؑ کا سر قلم کیا گیا۔ زکریاؑ کو آرے سے چیرا گیا۔ پھر بھی دربارِ کفر میں صدائے توحید بلند ہوتی رہی۔ حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھانا چاہا، اللہ نے آسمان پر بلا لیا۔ حضرت موسیٰؑ کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنا چاہا، اللہ نے فرعون کی گود میں فرعون کو فنا کے گھاٹ پہنچانے والے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی۔
عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چھ صدیوں تک انسانیت کفر اور شرک کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ توریت، زبور، انجیل اور وید کے داعی نبیِ آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے۔ جب آمنہ کے لعلؐ، دعائے خلیل، نویدِ مسیحا پہلوئے آمنہ سے ہویدا ہوئے تو ساری دنیا نے دیکھا کہ خانہ کعبہ کے تمام بت اوندھے منہ گرے ہوئے تھے، بیت المقدس کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے، صدیوں سے روشن آتش کدہ بجھ گیا تھا اور قیصر روم کے دربار کے کنگرے گر گئے تھے۔ یہ ظہورِ توحید ورسالت اور غلبۂ توحید ورسالت کی واضح نشانیاں تھیں۔ 40 برس تک جس ہستیِ مبارک کو اہلِ مکہ امین و صادق کہہ کر پکارتے تھے اور آپؐ جس راستے سے گزرتے احتراماً نظریں جھک جاتی تھیں، جب آپؐ کو غارِ حرا میں خرقہ رسالت عطا کیا گیا اور حکم ہوا کہ ’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، اٹھیے، لوگوں کو (جہنم سے) ڈرایئے، رب کی بڑائی بیان کیجیے اور جسم کو پاک رکھیے‘‘ (سورہ المدثر)۔ آپؐ نے کوہِ صفا کی چوٹی پر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو پکارا اور پیغام توحید دیا۔ پھر کیا تھا ابولہب نے کنکریاں پھینکیں اور مشرکینِ مکہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ مکہ کے تیرہ سالہ دورِ رسالت میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اس شمعِ رسالت کو جو علَم بردارِ توحید تھے، بجھانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ مگر قافلۂ توحید و رسالت جوں جوں بڑھتا جاتا، ظلم و جبر کی آندھی تیز ہوتی جاتی۔ جب بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا جائے لگا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔‘‘ (الم نشرح)
مومنین کے حوصلوں کو مہمیز دینے کے لیے بشارت دی ’’فلاح تو مومنوں کو ہی حاصل ہوگی۔‘‘
شعبِ ابی طالب کی گھاٹیوں میں تین سالہ سوشل بائیکاٹ بھی آپؐ کے صبر و استقامت کو توڑ نہ سکا۔ طائف کی وادیوں میں آوارہ لڑکوں کی سنگ باری میں آپؐ شر پسندوں کی ہدایت کے لیے دعا کرتے رہے۔ مکہ کے پُر آشوب ایام میں سورہ الکوثر کی بشارت نازل ہوئی۔ رب العالمین نے فرمایا:
’’ہم نے آپ کو خیر کثیر (آبِ کوثر) عطا کیا، نماز قائم کیجیے اور قربانی دیجیے، بے شک آپ کا دشمن دُم کٹا (نابود) ہوجائے گا۔‘‘
شمع توحید و رسالت کی روشنی مکہ کو منور کرچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا، اور ٹھیک اُس رات آپؐ نے اپنے پیارے دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہجرت کی جس رات مشرکینِ مکہ آپؐ کو شہید کرنے کے لیے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرکے بیٹھے تھے، مگر میرے رب نے اُن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آپؐ بحفاظت نکل گئے۔ مگر ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ قبیلہ مدلج کے سراقہ بن مالک جو سو اونٹوں کے انعام کی لالچ میں آپؐ اور ابوبکر صدیقؓکو زندہ یا مُردہ گرفتار کرنے کے لیے آپ کے قریب پہنچ گئے تو آپؐ نے بددعا دی اور سراقہ کا گھوڑا پتھریلی زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ بن مالک نے گڑگڑا کر امان طلب کی۔ آپؐ نے اشارہ کیا اور ان کا گھوڑا نکل آیا، مگر لالچ میں آکر دوبارہ جارحیت کی کوشش کی تو اس بار گھوڑا پہلے سے زیادہ زمین میں دھنس گیا، مگر پھر امان طلب کرنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے یہ کہا ’’سراقہ! تم اس لیے نہیں ہلاک ہورہے ہو کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسریٰ کا کنگن دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اُس وقت تو سراقہ حیرت میں ڈوب گئے مگر ایمان لانے کے بعد دورِ فاروقیؓ میں جب ایران فتح ہوا تو دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ قبیلہ مدلج کے ایک ادنیٰ شخص کے ہاتھ میں کسریٰ کا کنگن اور سر پر اس کا تاج تھا۔
مدینہ کی دس سالہ زندگی میں آپؐ کی ذاتِ مبارکہ اور دینِ اسلام کی شمع توحید کو بجھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو 47 سرایا اور 27 غزوات درپیش ہوئے۔ ہجرت کے دوسرے سال میدانِ بدر میں کفر اور اسلام کی پہلی جنگ 17 رمضان المبارک کو لڑی گئی جس کو ’’یوم فرقان‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں ہزار کے لشکر کے مقابلے میں 313 فدائیانِ رسول بے سر و سامانی کی حالت میں مقابلے پر اترے اور مشرکینِ مکہ کے تمام بڑے سردار جہنم واصل ہوئے۔
ایک سال بعد ہی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے احد کے معرکے میں آپؐ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ ابتدا میں مسلمانوں کو فتح ملی مگر چند تیر اندازوں کی غفلت سے بازی پلٹ گئی اور 70 اصحابِ رسول شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ آپؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کیا گیا، آپؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور آپؐ کی شہادت کی خبر بھی عام ہوئی جو غلط تھی، اور مشرکوں نے خوشی کا اظہار کیا اور یہ سمجھا کہ آج شمع توحید بجھ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ الصف میں ارشاد فرمایا ’’یہ کافر اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں مگر اللہ اس نور کو غالب کرکے رہے گا کافروں کو جتنا بھی ناگوار گزرے۔‘‘ (سورہ توبہ میں بھی یہ آیت موجود ہے۔) علامہ اقبال نے کہا:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یہودیوں نے آپؐ پر جادو کرایا، زہر دے کر شہید کرنے کی کوشش کی۔ جنگِ احزاب میں یہود ونصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کی مشترکہ فوج چڑھ دوڑی لیکن آندھی نے ان کا کام تمام کردیا۔ میدانِ تبوک میں قیصر روم لڑے بغیر پسپا ہوکر چلا گیا۔ پھر کیا تھا، ہجرت کے دسویں سال فتح مکہ کے بعد مکہ بتوں سے پاک ہوگیا اور’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اس لیے کہ باطل مٹنے کے لیے ہے‘‘ سچ ثابت ہوا، اور ہر دور میں ہوا اور ہوتا رہے گا۔ دورِ فاروقیؓ میں مدینہ کی چھوٹی سی ریاست شرق تا غرب ساڑھے 33 لاکھ مربع میل میں پھیل چکی تھی۔ اسی دور کے متعلق یہ کہا گیا کہ
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
یہودیت اور عیسائیت کے جھوٹے علَم بردار ڈھیر ہوچکے تھے، مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ صنعاء سے حضر موت تک تنہا ایک عورت سفر کرتی تھی اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں تھا، درندے بھی اپنی درندگی بھول چکے تھے۔ مگر شیطانی طاقتوں کو چین کہاں! ایک ملعون آتش پرست ابولولو فیروز نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر عین نمازِ فجر میں خنجر سے وار کیا۔ آپؓ شدید زخمی ہوئے اور یکم محرم الحرام 23 ہجری کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپؓ دعائے رسول تھے، آپؓ کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عمر کی زبان سے اللہ بولتا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو اللہ عمر کو نبی بناتا۔‘‘ آپؓ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عمر کو دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔‘‘ تمام مغربی دانش وروں کا اتفاق ہے کہ اگر مزید دس سال تک حضرت عمرؓ کی خلافت ہوتی تو دنیا میں کوئی غیر مسلم نہ رہ جاتا۔‘‘ اس سانحۂ عظیم کے بعد یہ ریشہ دوانی جاری رہی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر شومیِ قسمت سے عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ملتِ اسلامیہ کا اتحاد پارہ پارہ ہونا شروع ہوا اور اس میں شدت اُس وقت آئی جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت اور بنوامیہ کی حکمرانی کا آغاز ہوا، اور یزید کے دور حکمرانی میں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسینؓ و اہلِ بیت نے آج تک مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیا۔ یہ شیطانی طاقتوں کی بڑی کامیابی ضرور تھی مگر فتوحاتِ اسلامیہ جاری رہیں۔ مسلمان یورپ کے قلب تک پہنچ گئے۔ اسپین کی فتح کے بعد تو عالمِ عیسائیت پر جیسے بجلی گر گئی۔ قسطنطنیہ کی فتح اور ترک خلافت نے چھ صدیوں تک تین براعظموں پر اسلام کی حکمرانی کو قائم رکھا۔ پوپ اعظم نے اسلام کو مٹانے کے لیے صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا جو آج بھی مسلم دنیا پر مسلط ہیں، مگر تمام تر جارحیت، سفاکی اور درندگی کے باوجود اسلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ترک خلافت کے خاتمے کے بعد پوری مسلم دنیا انگریز سامراج کی غلامی میں جا چکی تھی، ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوچکا تھا، مگر آزادی کی تحریکیں ہر جگہ جاری تھیں۔ اسی دوران یورپ کی ملکِ ہوس گیری میں جرمنی کے اندر ہٹلر کو عروج حاصل ہوتا ہے جس نے چند سال کے اندر اتنی طاقت حاصل کرلی کہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس پانچ سالہ جنگ میں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہودیوں کی نسل کُشی کی گئی، برطانیہ کی وسیع تر سلطنت پارہ پارہ ہوگئی اور بیشتر مسلم دنیا کو آزادی مل گئی، اور روئے زمین پر مدینہ کی پَرتو ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوگئی جو آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والی پہلی اور عالم اسلام کی دوسری سب سے بڑی آبادی رکھنے والی ریاست ہے۔ اسلام کا خاتمہ کرنے، مسلمانوں کے دلوں سے اللہ اور رسولؐ کی محبت نکالنے اور قرآن کی حقانیت کو گہنانے کی ہزار کوششوں کے باوجود اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔ افغانستان میں روس کی پسپائی کے بعد وسط ایشیا کی تمام مسلم ریاستوں کو آزادی نصیب ہو ئی۔ 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا لیکن 20 سال تک افغانستان کی خاک چھاننے اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد رسوا کن پسپائی اس کا مقدر ٹھیری۔
یہی منظر کشمیر میں حریت پسندوں کی مزاحمت کی وجہ سے نظر آرہا ہے۔ مٹھی بھر مجاہدین ساڑھے آٹھ لاکھ بھارتی فوج کا گزشتہ تین دہائیوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ فی الحال فلسطین میں حماس کی ابابیلوں نے اسرائیل ہی نہیں بلکہ تمام عالمی طاغوتی طاقتوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہ سرفروشانِ دین گزشتہ سات ماہ سے دندان شکن جواب دے رہے ہیں، گو کہ غزہ کی زمین پر قابلِ رہائش کوئی جگہ نہیں رہی۔ دنیا حیران ہے کہ یہ کون مخلوق ہے! امریکا، یورپ بلکہ پوری غیر مسلم دنیا طلبہ وطالبات اور سول سوسائٹی کے عوام اہلِ فلسطین کے حق میں نعرہ زن ہیں سوائے مسلم دنیا کے حکمرانوں کے، جو بے غیرتی اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں۔ لیکن قربان جائیے اہلِ غزہ اور حماس کی استقامت پر، جسے دیکھ کر یورپ اور امریکا میں اسلام قبول کرنے کی لہر اٹھی ہے جس طرح 9/11کے بعد قرآن پڑھنے اور اسلام قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
ایک طرف بھارت میں ہندوتوا کی جارحیت جاری ہے، دوسری جانب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ہندو انتہا پسند خوف زدہ ہیں، تیسری جانب ہندوستان کے اعتدال پسند، اور ہندوؤں کا دانشور طبقہ مسلمانوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘
بہت جلد چرخِ کہن یہ تماشا دیکھ لے گا کہ اسلام ایک بار پھر دنیا کے ہر انسان کے دل کی آواز بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبیِ برحق کو دینِ برحق دے کر مبعوث کیا ہے تاکہ آپؐ دینِ اسلام کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردیں چاہے مشرکوں کو جتنا بھی ناگوار گزرے۔ (سورہ الصف)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فریضہ انجام دیا اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اب یہ کام امتِ مسلمہ کا ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔