خود مختاری

283

کسی ملک یا قوم کی ’’خودمختاری‘‘ کا معاملہ بھی فرد کی عزت کی طرح ہوتا ہے۔ انسان خود اپنی عزت نہ کرے تو دوسرے بھی اس کی عزت نہیں کرتے۔ خودتکریمی کا جذبہ چھپتا نہیں ہے۔ یہی معاملہ خودمختاری کا ہے کہ کوئی ملک یا قوم خود کو جتنا خودمختار سمجھتی ہے دوسرے بھی اسے اسی قدر خودمختار گردانتے ہیں اور اسی اعتبار سے اس کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ خودمختاری کوئی ایسا خزانہ نہیں جسے زمین میں گہرا دفن کیا جاتا ہو۔ کوئی ملک خودمختار ہو تو سب کو پتا چل جاتا ہے۔ نہ ہو تو یہ بات بھی راز نہیں رہتی۔

وزیراعظم گیلانی امریکا پہنچے تو صدر بش نے انہیں اطلاع دی تھی کہ امریکا پاکستان کی خودمختاری کا بڑا احترام کرتا ہے۔ لیکن امریکا وطن عزیز کی خودمختاری کا جتنا احترام کرتا ہے وہ ظاہر ہے۔ مگر اس میں امریکا کا کیا قصور! ہمیں اپنی خودمختاری جتنی عزیز ہے امریکا کو بھی وہ اتنی ہی عزیز محسوس ہوتی ہے۔

تاریخ کو دیکھا جائے تو ملک اور قوم کی عزت تو بڑی چیز ہے‘ صرف ایک فرد کے دفاع کے لیے بھی بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ قدیم یونان میں عورت کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی‘ مگر ہیلن آف ٹرائے اغواء ہوئی تو اُس کی بازیابی کے لئے ایک ہزار بحری جہازوں کا بیڑا روانہ کیا گیا‘ اور اس کی واپسی کے لئے اتنی بڑی جنگ ہوئی جو یونان کی پوری تاریخ پر چھاگئی‘ یہاں تک کہ ان کی اسطوری تاریخ یا Mythical History کا حصہ بن گئی۔ ایک عورت اور اتنا بڑا تاریخی واقعہ!

ہندوئوں کی تاریخ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ملتا ہے۔ یہاں عورت کا کردار بہت بڑا اور بہت مختلف ہے‘ لیکن ہے صرف ایک عورت ہی کا کردار۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوئوں کی اسطوری تاریخ میں رام اور راون کی جنگ صرف خیر اور شر کی جنگ نہیں ہے۔ اس کے پس منظر میں رام کی شریک ِحیات سیتا کے اغواء کی واردات بھی ہے۔ راون جو ان کا بادشاہ تھا‘ جنگل سے رام کی بیوی سیتا کو اغواء کرکے لنکا لے گیا۔ رام نے بالآخر سیتا کی بازیابی کے لئے لنکا پر حملہ کیا اور اس کے نتیجے میں ان کے اور راون کے درمیان وہ جنگ ہوئی جو ہندوئوں کی تاریخ میں مہابھارت کے بعد دوسری اہم جنگ ہے۔ اس جنگ میں رام کی فتح ہوئی۔ راون مارا گیا۔ اسی جنگ سے اردو زبان کو کئی ضرب الامثال اور خوبصورت محاورے فراہم ہوئے جن میں سے ایک یہ ہے ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘۔ مگر یہ ایک اور ہی قصہ ہے۔ یہاں اصل بات یہ ہے کہ ایک عورت کی بے تکریمی ایک بہت بڑی اور تاریخ ساز جنگ کا جواز بن گئی۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہندو تاریخ کا ’’Myth‘‘ ہے۔ ٹھیک ہے‘ مگر اہم بات یہ ہے کہ Myth میں بھی جنگ ایک عورت کی وجہ سے اور اس کی حرمت کے دفاع کے لئے ہورہی ہے۔

بہت سے قوم پرست سندھ میں محمدبن قاسم کی آمد کو راجہ داہر کے ہاتھوں چند مسلم خواتین کے اغواء سے متعلق نہیں سمجھتے‘ وہ سمجھتے ہیں کہ حجاج بن یوسف حملے کی تیاری کئے ہوئے تھا‘ مسلم خواتین کے واقعے نے محض ایک جواز فراہم کردیا۔ تو کیا رام نے بھی دراصل لنکا پر حملے کی تیاری کی ہوئی تھی اور سیتا کا اغواء حملے کا جواز بن گیا؟ دیکھا جائے تو مسلمانوں کا تو مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ اسلام امت ِمسلمہ اور مسلم برادری کو ہر جگہ خود تکریمی کے درجۂ کمال پر دیکھنا چاہتا ہے۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر افراد کی خودتکریمی کا یہ عالم ہے تو ملک اور قوم کی خودتکریمی کی عرف خودمختاری کا کیا عالم ہوگا! پاکستان تو ویسے بھی دارالسلام ہے۔ صرف پاکستان نہیں پوری امت ِمسلمہ۔

اپنی نسل اور اپنی نوع کے تحفظ کا شعور انسانوں میں کیا حیوانوں اور درختوں تک میں پایا جاتا ہے۔ بیماری کے جراثیم درختوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو درخت اپنی طرز کے پیغامات ہوا کے جھونکوں کے سپرد کرتے ہیں تاکہ ان سے فاصلے پر موجود درخت انہیں بیماری کی آمد سے قبل وصول کرکے اپنی تمام مدافعتی قوتوں کو بیدار اورمتحرک کرلیں۔ یہ نباتات کا وہ دفاعی نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں ودیعت کیاہے۔ درختوں کا ’’ملک‘‘ان کا اپنا وجود ہے۔ حیوانات کا ملک ان کا جغرافیہ ہوتاہے‘ ان کی نوع ہوتی ہے۔ اور ان کی حریف قوتیں ان کی طاقت کے بقدر ان کے ’’ملک‘‘ کی خودمختاری کا احترام کرتی ہیں۔

آخر امریکیوں نے کیا سمجھ لیا ہے! کیا ہم حیوانات اور نباتات سے بھی نچلے درجے کی کوئی شے ہیں؟ کیا ہماری کوئی تکریم نہیں؟کیا ہمارا کوئی ملک نہیں؟ کیا اس کی حدود کے کوئی معنیٰ نہیں؟ کیا ہماری کوئی خودمختاری نہیں؟ کافر اور مشرک تاریخ میں ایک عورت کے لئے بڑی بڑی جنگیں لڑتے رہے ہیں‘ کیا ہم اپنی مادرِوطن کا بھی دفاع نہ کریں گے؟ ہم جو اشرف المخلوقات ہیں۔ ہم جو مسلمان ہیں۔
nn

حصہ