آخر شب کے ہم سفر

226

’’نہیں بتایئے کاکا‘‘… وہ مچل کر بولی۔

نواب صاحب تیوری پر بل ڈال کر اسے دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے آہستہ آہستہ کہا ’’دیپالی بیٹی… تمہارے ٹھاکر دادا بھی زمیندارتھے اور ان کی اور میرے والد مرحوم کی آپس میں خاصی دوستی تھی، دونوں کے ہاں ناچ گانے اور ناٹک کی محفلیں جمتی تھیں اور عیش ہوتے تھے اور یہ دونوں بزرگ میرے ابا مرحوم اور تمہارے ٹھاکر دادا انگریزوں کے وفادار تھے‘‘۔ پھر وہ جیسے یک لخت پرانی باتیں سوچنے لگے۔ چند لحظوں بعد انہوں نے کہا ’’اسکول میں بنوئے چندر اور میں ہم جماعت تھے۔ بنوئے چندر شاید پانچ چھ سال مجھ سے چھوٹا ہے۔ مگر مسلمان رئیس زادہ ہونے کے کارن میری انگریزی تعلیم خاصی بے پروائی اور دیر میں شروع کروائی گئی تھی… خیر… وہ آنکھیں بند کرکے ابروئوں پر داہنے ہاتھ کی اور انگوٹھا پھیرنے لگے۔ اور پھر کہا ’’ہمارا ایک اور کلاس فیلو بھی تھا۔ وہ سید مرتضیٰ حسین، جو بڑا کٹر نیشنلسٹ مسلمان ہے اور تمہارے وشوا بھارتی میں پڑھاتا ہے۔ خیر… پھر تمہارے باپ اور چچا اپنی قومی تحریک میں شامل ہوگئے، وہ جس سیاست میں شامل ہوئے، وہ میرے نزدیک مسلمانوں کی مخالفت سیاست ہے، کیا تم سمجھتی ہو مجھے بے چارے دنیس کی شہادت کا صدمہ نہیں ہوا…؟

اب بھی جب اس کی آنکھیں اور شکلیں اور باتیں یاد آتی ہیں دل کٹ کر رہ جاتا ہے، مگر بیٹی مجھے محسوس یہی ہے کہ وہ گمراہ تھا اور اپنی جان اس نے بے کار ضائع کی۔ یہ تشدد پسندی اور بم پھینکنا، گولیاں مار دینا۔ اس طریقے سے کیا برطانیہ کی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ مگر اب بہرحال اس کا زور کم پڑچکا ہے۔ خیر بھائی دیپالی، یہ بڑے گنجلک معاملے ہیں۔ بڑی ہوگی تو سمجھوگی۔نو عمری کا جوش ہے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہو۔ مگر سر دھڑ کی بازی سوچ سمجھ کر لگانا چاہئے، اور بی بی تم اس فلاکت زدہ زمانے میں پیدا ہوئیں۔ تم بے چاری نے دیکھا ہی کیا ہے، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ تمہاری چندر کنج نے بھی کبھی اچھے دن دیکھے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اگر تمہارے ٹھاکر دادا کے زمانے کی امارت تھوڑ سی کبھی تک باقی ہوتی تو شاید تم اس جوش و خروش سے نوابوں اور امیروں کی مخالف نہ ہوتیں‘‘۔

’’لیکن اومارائے تو ابھی بڑی رئیس زدہ ہیں‘‘۔ دیپالی نے کہنا شروع کیا۔

’’ہاں… میں جانتا ہوں۔ میں سنا ہے کہ بیرسٹر پری توش رائے کی لڑکی تم سب کی سرغنہ اور گرو بن گئی ہے۔ مگر میں اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ دیپالی میں پرانی وضع کا آدمی ہوں۔ میرے خیالات پر تم کو غصہ ہی آئے گا۔ خیر تو تم مجھ سے ڈسکس کیا کرنا چاہتی تھیں؟‘‘ وہ پھر مسکرانے لگے۔

’’کاکا… میں صرف یہ کہہ رہی تھی ’’دیپالی نے اب ذرا غیر یقینی لہجے میں کہا ’’کہ بٹوارے کے لیے اتحاد کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے؟‘‘

’’اتحاد… اتحاد ہے کہاں…؟ پنجاب کا آریہ سماج اور مہاراشٹر اور بنگال کی ہندو تجدید اتحاد کی نشانیاں ہیں…؟

’’میں دوسرے صوبوں کے متعلق تو نہیں جانتی کاکا۔ ہمارے بنگال کی ہندوئوں اور مسلمانوں کا کلچر تو بالکل ایک ہے‘‘۔

’’مانتا ہوں بھائی… یہاں کا کلچر ایک ہے۔ یہاں کی لوک سنگیت، لوک ساہتیہ ہر چیز میں مسلمانوں کا کتنا بڑا حصہ ہے۔ مگر ہندوئوں نے کبھی اس کا اعتراف کیا؟ بنگالی کلچر سے ان کی مراد محض ہندو بنگالی کلچر ہوتی ہے۔ پچھلی صدی میں تو زور شور سے یہ بحث چھیڑی گئی تھی کہ بنگلہ مسلمانوں کی زبان ہی نہیں۔ بنگلہ ادب اور تہذیب صرف ہندوئوں کا ورثہ ہے۔ کیا ہم اتحاد نہیں چاہتے تھے؟ خدا کی قسم ہم اتحاد چاہتے تھے اور پچھلے آٹھ سو سال کی تخلیق شدہ بنگالی لوک سنگیت اور ادب اس کا مکمل ثبوت ہے… مگر اب مسلمانوں سے اتنی نفرت۔ ان کے لئے حقارت کا ایسا رویہ… تم نے آنند مٹھ پڑھا ہے؟‘‘

دیپالی نے نفی میں سر ہلایا۔

’’لیکن بنگال کے مسلمان پسماندہ اور مفلس کسان اور ماہی گیر اور ملاح اور کاریگر ہیں۔ اپنی مدافعت میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تمہارا ہندو بنگالی پریس نواب سر سلیم اللہ کو انگریز کا پٹھو کہتا ہے اور یہ جو اتنے بنگالی ہندو نائٹ ہیں۔ یہ انگریز کے پٹھو نہیں…؟‘‘

دیپالی خاموش رہی۔ نواب صاحب نے ذرا جوش سے بات جاری رکھی۔ ’’تم بنگالی کلچر کے اتحاد کی بات کرتی ہو۔ بالکل صحیح ہے۔ سو ڈیڑھ سو سال قبل تک یہ کلچر واقعی ایک تھی۔ راجہ رام موہن رائے عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ نوابین مرشد آباد کے دور تک ہندو شرفاء فارسی پڑھتے تھے۔ تمہارے گرودیو، جن کا خاندانی نام انگریزوں نے ٹھاکر کے بجائے ٹیگور کردیا۔ ٹھاکر کا یہ خطاب… اس خاندان کو بنگال کے مسلمان نوابوں ہی نے دیا تھا۔ تم، یہ بات جانتی ہو؟‘‘۔

دیپالی نے پھر نفی میں سر ہلایا۔

’’ایک زمانے میں یہ ٹھاکر خاندان پیر علی برہمنوں کا گھرانا کہلاتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے قنوجی براہمنوں کی ذات پات کی قیود توڑ کر مسلمان نوابوں کے یہاں ملازمت کرلی تھی۔ خود اپنا نام دیکھو۔ سرکار، مجموعہ دار یا مزمدار، تعلقہ دار اور قانون گو۔ یہ سب بنگالی کائستھوں کے مغل عہدے تھے، جو اب تمہاری ذات بن چکے ہیں‘‘۔ نواب صاحب نے پیچوان کی نے ایک طرف رکھ کر لمبی سانس لی۔

’’مگر کاکا… دیپالی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ہندو تجدیدیت کے ساتھ مسلم تجدیدیت بھی تو شروع ہوئی بنگال میں…‘‘ سندر بن میں ریحان نے اسے ایک شام دہابی تحریک کے متعلق بتایا تھا۔ جس کی زیر قیادت مسلمان مولوی انیسویں صدی میں بنگالی مسلمان کسانوں سے کہتے پھرتے تھے کہ وہ اپنے ہندوانہ رسم و رواج ترک کردیں‘‘۔ اور پھر لڑوا دیا انگریزوں نے آپس میں‘‘۔ اس نے آواز بلند کہا۔

’’ہر بات کا الزام انگریز کے سر تھوپنا بالکل غلط چیز ہے۔ تم لوگ چند سفر وضو کی بناء پر اپنی ساری دلیلیں پیش کرتے ہو‘‘۔ انہوں نے گھڑی دیکھی اور چونک کر کہا۔ ’’تمہارے ساتھ اس بیکار مغز سوزی میں اتنا وقت نکل گیا۔ مجھے ابھی تقریر بھی تو لکھنی ہے‘‘۔ انہوں نے تپائی پر سے کاغذ اُٹھایا۔

’’کاکا… مجھے سنائیے اپنی تقریر‘‘۔

’’بھاگ جائو‘‘۔

’’نہیں کاکا…‘‘ اس نے اُن کے ہاتھ سے کاغذ چھین لیا اور نامکمل صفحہ پڑھنے لگی‘‘۔ اس گزری حالت میں بھی مسلمانانِ بنگال نے عیسائی مبلغین کے خلاف اور ہندو حیاء کی مدافعت میں اخبار اور رسالے نکالے اور ہمارے لیڈر قوم کی بے چارگی پر خون کے آنسو روتے رہے۔ بھائیو۔ واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد سے آج تک لاہور سے لے کر چاٹگام اور دہلی سے لے کر مدراس تک کے مسلمان محض خون کے آنسو روتے رہے ہیں۔ اگر اب عمل کا وقت آگیا ہے‘‘۔

دیپالی نے پڑھ کر کاغذ میز پر رکھ دیا۔

نواب صاحب المشرق کا فائل الماری میں واپس رکھنے کے لیے آرام کرسی سے اُٹھے۔ دیپالی بھی اُٹھ کھڑی ہوئی‘‘۔ تم نے مسلم احیاء کے متعلق کسی کانگریسی کی کتاب پڑھی ہوگی‘‘۔

جی نہیں کاکا۔ ’’ریحان کا نام اس کی زبان پر آتے آتے رہ گیا‘‘۔ ایسے ہی بس اِدھر اُدھر سے سنا ہے‘‘۔

نواب صاحب الماری کھول کر کتابوں کا جائزہ لینے لگے۔ دیپالی نے دریچے سے باہر جھانکا ریحان نے کہا تھا۔ آج سے دو سو برس قبل تک بہت سے بنگالی صوفی گورکھ وجے جیسے اس قسم کی کتابیں لکھتے تھے۔ اور وشنو پدگاتے تھے۔ بہت سے صوفیوں کے سلسلے منترک یوگ تک کے ہم شکل تھے۔ بنگالی خانقاہوں میں ایک اچھا خاصا ’’مسلم یوگ ساہتیہ‘‘ تخلیق ہوچکا تھا۔ مدار شاہ کے فقیر اور ہندو یوگی تقریباً ایک جیسے تھے۔ اور یہ مداری فقیر اور ہندو سنیاسی ۱۷۷۰ء کے بھیانک قحط کے بعد کمپنی کی افواج سے لڑتے بھڑتے پھرے تھے۔ اور ریحان نے بتایا تھا کہ ایک مرتضیٰ شاہی فقیروں کا سلسلہ تھا۔ جن کے گرد سید مرتضیٰ آنند نے یوگ قلندر اور وشنو بھجنوں کی ایک کتاب لکھی تھی ایک مادی شدہ برہمن زادی ان پر عاشق ہو کر اُن کی چیلی بن گئی تھی۔ اس کا نام آنند مایا دیبی تھا۔ اسی لیے وہ مرتضیٰ آنند کہلاتے تھے۔ مثال کے طور پر … ریحان نے کھنکار کر اضافہ کیا تھا جس طرح اس خاکسار کو بائول فقیر سید ریحان دیپالی کہا جائے گا۔ دریچے میں کھڑے کھڑے دیکپالی کو یہ بات یاد کرکے ہستی آگئی۔ ’’YOU AND I ME TWO ARE THE STUFF ALL HUMAN LOVE IS MADE OF‘‘ ریحان نے کہا تھا‘‘۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے سارے بائول معنی عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی اور انسانیت کے عشق کے متعلق کیا گاتے پھرتے تھے؟ شیخ مدن بائول، شتولن شاہ، حسن رضا، لالن شاہ… یہ سنگیت کار درویش جن کی شاعری اور موسیقی نے اتنی شدت سے گرو دیو کی شاعری اور موسیقی کو متاثر کیا۔ کیا یہ مشترکہ ورثہ نہیں؟‘‘۔ اور دیپالی نے خود اپنے گائوں میمن سنگھ میں دیکھا تھا۔ کہ برہما دتیہ فقیر جو مسلمان تھے۔ منتر پڑھ کر اور گھنٹیاں بجا بجا کر مسلمان کسانوں کی مرادیں پوری کرنے کا تپ کرتے تھے اور مسلمان کسانوں کے ہاں شادی کے موقع پر منگل چنڈی وجے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ خود ریحان رونوسیاں تھے۔ رونو ہندوئوں کا نام بھی تھا۔ کیا یہ سب تہذیبی مماثلت یا اتحاد کے بعد حد سطحی مظاہر ہیں، یا ان کے پیچھے کوئی ایسی گمبھیر، تاریخی، نسلی اور نفسیاتی معنویت بھی پنہاں ہے۔ جو سیاسی تبدیلیوں سے بلند سے بلند تر اور ماورا رہے گی؟ دیپالی بہت زیادہ اُلجھ کر دریچے سے مڑی۔ نواب صاحب الماری بند کرکے لکھنے کی میز کی طرف جارہے تھے۔

’’یہ سب طبقاتی سیاست ہے‘‘۔ دیپالی نے ریحان کے الفاظ دہرائے اور اونچی آواز میں کہا۔ ’’اب میں جاتی ہوں کاکا‘‘۔

نواب صاحب نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ اور شاہانہ وقار سے چلتے ہوئے اس کے نزدیک آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’تم بیٹی۔ مجھے آج تک معلوم نہ تھا کہ اتنا زیادہ پڑھ لکھ گئی ہو مجھے تمہاری طرف سے بہت تشویش ہوگئی۔ لڑکیوں کے لیے پڑھ لکھ جانا بہت مضر ہے۔ اسی لیے میں نے جہاں آراء کو کالج سے اُٹھا لیا۔ تمہارا اصل فرض وہ ہے، جس کے لیے اندر تمہارا انتظار کیا جارہا ہے۔ جائو جا کے اپنے بھائی نیر کی بری کے جوڑے ٹانکو۔ جائو۔ بھاگو…‘‘

’’جی کاکا…‘‘ دیپالی نے ہنس کر کہا۔ اور تقریباً دوڑتی ہوئی کتب خانے سے باہر نکل گئی۔ نواب صاحب کیس میں سے عینک نکال کر بڑی میز پر جابیٹھے۔

ارجمند منزل کے پائیں باغ کے وسط سنگِ سُرخ کا بڑا خوبصورت تالاب تھا۔ جس کے چاروں طرف اُونچی، کنگورے دار منڈیروں کے ساتھ ساتھ مہنگی بنچیں نصیب تھیں۔ اور بیرونی سیڑھیوں کے دونوں جانب حسنہ خاکی جھاڑیاں تھیں۔ تالاب کے کنارے سیمل کے نیچے کئی لڑکیاں ایک تخت پر جمع سلائی میں مصروف تھیں۔ قریب ہی گھاس پر سیتل پاٹیاں بچھی تھیں اور بڑی سرگرمی سے جوڑے سل رہے تھے۔ تالاب کی دوسری جانب گلاب خاص کے گھنے سائے میں ایک شکستہ سا ’’شاہی تخت‘‘ بچھا تھا جس پر انجم آراء اطلسی دلائی پھیلائے اس پر گوٹے کا چومکھا جال بنانے میں مصروف تھی۔

یہ ’’شاہی تخت‘‘ اس زمانے کی یادگار تھا جب نواب نورالزماں مرحوم کے ہاں ارجمند منزل کے باغ میں جاترا والوں کی منڈلیاں آکر ڈیرے ڈالتی تھیں۔ لوک ناٹک کھیلے جاتے تھے۔ بنگالی تھیٹر کمپنیاں تاریخی، سوشل اور سیاسی ڈرامے اسٹیج کرتی تھیں اور شہر کے ہندو اور مسلم امراء جمع ہو کر ’’شاہ جہاں‘‘، ’’ٹیپو سلطان‘‘، ’’سراج الدولہ‘‘، ’میر قاسم‘‘، ’’کرانی جیون‘‘ اور ’’خودی رام باسو‘‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ (خودی رام باسو، جو ایک دہشت پسند نوجوان تھا۔ اور جسے مظفر پور کے انگریز جج کنگز فرڈ پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں ۱۹۰۸ء میں پھانسی ہوئی تھی۔ ہزاروں ہندو گھروں میں اس کی راکھ تبرک کی طرح تقسیم کی گئی۔ اور لوگ اس کے تعویز بنا بنا کر پہننے لگے۔ اس کے متعلق مقبول ڈرامہ بھی ارجمند منزل میں کھیلا جاچکا تھا) یہاں گریش چندرا اور ٹیگور کا چرچا رہتا تھا اور بنگلہ سنگیت ناٹکوں کی موسیقی گونجنی تھی۔

ڈھاکے میں اردو تھیٹر ۵۷ء سے پہلے سے قائم تھا۔ اور اواخر انیسویں صدی تک یعنی جب نواب نور الزماں فرید پور سے آکر وہاں سکونت پذیر ہوئے۔ شہر میں متعدد تھیٹر کمپنیاں موجود تھیں جن کے منشی اور ایکٹریس لکھنو سے منگوائے جاتے تھے اور ایکٹریس مردانہ پارٹ کرتی تھیں۔ ۱۸۷۶ء تک جب نواب قمر الزماں کے دادا پہلی بار فرید پور سے ڈھاکے آن کررہے تھے۔ شہر میں چونتیس تھیٹر کمپنیاں قائم تھیں۔ اور اس زمانے سے لے کر آج تک ارجمند منزل میں ناٹک کا سلسلہ جاری تھا۔ بنگالی زمینداروں کو تھیٹر کا ازحد شوق تھا۔ اپنے گھروں میں اسٹیج کیے جانے والے ڈراموں میں اکثر وہ خود بھی ایکٹنگ کرتے تھے۔ ’’جلسہ گھر‘‘ زمینداروں کے مکان کا لازم حصہ تھا۔ ارجمند منزل کے جلسہ گھر میں اب سیاسی میٹنگیں بھی ہوتی تھیں۔ مگر اس کا اسٹیج اور دیگر سازو سامان جوں کا توں موجود تھا۔ نواب نور الزماں کے چھوٹے بھائی نواب زادہ فخر الزماں مرحوم نے خود ایک تھیٹر کمپنی کھولی تھی۔ خواص و عوام سبھی اسٹیج کے رسیا تھے۔ کلکتہ میں مدتوں سے ریوالونگ اسٹیج موجود تھی۔ اور ’’ترکی حور‘‘ ناٹک میں پہلی بار بیک گرائونڈ میں فلم کے مناظر سے کام لیا گیا تھا۔ کلکتہ، ڈھاکہ اور دوسرے شہروں کے ہر محلے کی اپنی ناٹک منڈلی تھی۔ دیہات میں جاترادالے گائوں گائوں گھومتے تھے۔

(جاری ہے)

حصہ