امام بخش ناسخ
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوعِ صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
کسی خورشید رو کو جذب دل نے آج کھینچا ہے
کہ نورِ صبح صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابر باراں میں
تصور چاہیے رونے میں اس کے روئے خنداں کا
دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رو نے
گماں ہے تختۂ تابوت پر تختِ سلیماں کا
کسی سے دل نہ اس وحشت سرا میں میں نے اٹکایا
نہ الجھا خار سے دامن کبھی میرے بیاباں کا
تہہِ شمشیر قاتل کس قدر بشاش تھا ناسخؔ
کہ عالم ہر دہانِ زخم پر ہے روئے خنداں کا
جلال عارف
آداب جنوں اہل نظر بھول گئے ہیں
جیتے تو ہیں جینے کا ہنر بھول گئے ہیں
کیا اہل سفر ذوق سفر بھول گئے ہیں
رستے میں ہیں منزل کی خبر بھول گئے ہیں
غم بھول گئے غم کا اثر بھول گئے ہیں
تم کیا ملے ہم خود کو مگر بھول گئے ہیں
ہجرت کے عذابوں میں بسر ایسی ہوئی ہے
اک عمر سے ہم اپنا نگر بھول گئے ہیں
دنیا کے غم اپنوں کے ستم وقت کے تیور
کیا کیا نہ مرے دیدۂ تر بھول گئے ہیں
داؤد خاں راز
یہ زندگی کی ہار سے پہلے گزر گئی
اک داستاں بہار سے پہلے گزر گئی
وہ بات اعتبار کے قابل نہیں رہی
جو بات اعتبار سے پہلے گزر گئی
آنکھوں سے دیکھتے رہے دل کی تباہیاں
دل کی لگی قرار سے پہلے گزر گئی
ہوتے ہیں آج تک بھی خزاں ہی کے تذکرے
آئی بھی اور بہار سے پہلے گزر گئی
زاہد کی پارسائی کا اب کچھ نہ پوچھئے
اک شے تھی جو خمار سے پہلے گزر گئی
کیسے کہوں کہ لوٹ کے آ جائے گی اے رازؔ
وہ زندگی جو پیار سے پہلے گزر گئی
آفتاب شاہ عالم ثانی(مغل بادشاہ )
جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں
تیر سی دل کے پار ہوتی ہیں
رنجشیں میری اور اس گل کی
رات دن میں ہزار ہوتی ہیں
عشق میں بے حجابیاں دل کو
کیا ہی بے اختیار ہوتی ہیں
تو جو جاتا ہے باغ میں اے گل
بلبلیں سب نثار ہوتی ہیں
قمریاں بندگی میں تجھ قد کی
سر بسر طوق دار ہوتی ہیں
آفتابؔ اس کے وصل کی باتیں
باعث اضطرار ہوتی ہیں
اکبر عظیم آبادی
پھرتے ہیں جس کے واسطے ہم در بدر ابھی
کیا کیجیے نہیں ہے اسے کچھ خبر ابھی
کہہ دیں جو کچھ کہ دل میں ہے اپنے اگر ابھی
شرما کے دھر نہ دیں گے وہ کاندھے پہ سر ابھی
تھامے ہوئے ہیں ہاتھوں سے اپنا جگر سبھی
سنتے ہیں آئے گا وہ حسیں بام پر ابھی
چھیڑا ہے اس کی زلف کو باد صبا نے کچھ
آئے گی رفتہ رفتہ وہ سوئے کمر ابھی
یاروں کو ان کے مل بھی گئی منزل مراد
اکبرؔ کہ باندھ پائے نہ رخت سفر ابھی
صوفی تبسم
اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی
اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
افسون تمنا سے بے دار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے تابی کچھ عشق میں زیبائی
وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی
ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسمؔ تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی
حفیظ جالندھری
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
آغاز مصیبت ہوتا ہے اپنے ہی دل کی شامت سے
آنکھوں میں پھول کھلاتا ہے تلووں میں کانٹے بوتا ہے
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
ملاحوں کو الزام نہ دو تم ساحل والے کیا جانو
یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے یہ کشتی کون ڈبوتا ہے
کیا جانیے یہ کیا کھوئے گا کیا جانئے یہ کیا پائے گا
مندر کا پجاری جاگتا ہے مسجد کا نمازی سوتا ہے
خیرات کی جنت ٹھکرا دے ہے شان یہی خودداری کی
جنت سے نکالا تھا جس کو تو اس آدم کا پوتا ہے
اکبر الہ آبادی کے اہم اشعار
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے