ول فورم کے تحت منعقدہ سیمینار سے مقررین کا خطاب
وومن اسلامک لائرز فورم خواتین وکلا پر مشتمل ایک ایسا ادارہ ہے جو آگاہی پروگرام کے تحت ایسے معاشرتی معاملات کو موضوعِ بحث بناتا ہے جن سے وکلا کے اندر تحرک پیدا ہو تاکہ عملی اقدامات کی طرف پیش قدمی ہوسکے، اس طرح ان اقدامات کے مثبت ثمرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میںa لے کر ایک متوازن اور خوش گوار معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ اس سلسلے میں ول فورم 2009ء میں اپنے قیام سے ہی مختلف موضوعات پر کراچی بار اور ملیر بار میں ہر سال، جب کہ ہائی کورٹ بار میں وقتاً فوقتاً سیمینار منعقد کرتا ہے۔ سیمینار میں زیادہ تر ایسے موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں جو آئین و قانون میں موجود ہوتے ہوئے بھی یا تو عملی طور پر نافذالعمل نہ ہوں، ان میں کوئی سقم ہو، یا وقت کے تقاضوں پر پورا نہ اترتے ہوں۔ موضوع کی وسعت اگر اس بات کی متقاضی ہو کہ اس میں دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی رائے جاننا بھی ضروری ہو تو متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ لہٰذا امسال ول فورم کی ٹیم نے متفقہ طور پر آئین کے آرٹیکل 25الف جو کہ تعلیم سے متعلق ہے، کو سیمینار کے موضوع کے طور پر زیر بحث لانے پر غور کیا۔ یہ موضوع منتخب کیے جانے کی اگرچہ کئی وجوہات تھیں جن میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ گزشتہ سال 2023ء میں محض دو دن میں 54 بل پاس کیے گئے، ان بلز میں پارلیمنٹ میں تعلیمی مافیا کے کالے دھن کو سفید بنانے کے لیے 25 یونیورسٹیاں بنانے کی بھی منظوری دی گئی، جبکہ پہلے سے ہی استحصالی اور طبقاتی تعلیمی نظام نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں۔ درس گاہیں نشے کے اڈے بن چکے ہیں۔ بہاولپور یونیورسٹی کے واقعے نے تو قوم کے سر شرم سے جھکا دیے۔ حال ہی میں کراچی میں انٹرمیڈیٹ امتحانات کے نتائج میں غفلت و لاپروائی سے کراچی کے لاکھوں بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیمی ادارے محض ڈگری فروخت کررہے ہیں، تعلیم و تربیت برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ دنیا کی 300 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں۔ اس کے علاوہ گھوسٹ اسکولوں کی بھرمار ہے، اور یہ سب کچھ آئین کے آرٹیکل 25 الف میں بنیادی حقوق میں تعلیمی حق حاصل ہونے کے باوجود ہورہا ہے۔ آئینِ پاکستان کے بابِ اوّل ’’بنیادی حقوق‘‘ کے آرٹیکل 25 الف کے تحت ’’ریاست 5 سے 16سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقۂ کار پر، جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے، مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔‘‘
رواں سال ول فورم نے 25 اپریل کو کراچی بار اور 30 اپریل کو ملیر بار میں بعنوان ’’آئینِ پاکستان کے ہوتے ہوئے تعلیم کا حق کہاں؟‘‘ کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا۔ موضوع کی مناسبت سے اگرچہ آئینِ پاکستان کی ترجمانی وکلا نے کی، تاہم تعلیم کی ترجمانی کے لیے شعبہ تعلیم سے بھی ماہرین کو مدعو کیا گیا جن میں ڈاکٹر معروف بن رئوف اسسٹنٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن، راحیلہ وقار ڈائریکٹر نصاب (curriculum) , the inspiration Midel School شامل تھے۔ وکلا نمائندگان میں سابق صدر کراچی بار، سندھ بار کونسل کے ممبر ایڈووکیٹ نعیم قریشی نے کراچی بار، جب کہ سابق صدر ملیر بار اور سندھ بار کونسل کے ممبر ایڈووکیٹ اشرف سموں نے وکلا نمائندگان کی ترجمانی کی۔ ول فورم کے ایگزیکٹو ممبرز بہ شمول چیئرپرسن ایڈووکیٹ روبینہ قادر جتوئی نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پروگرام کے انعقاد اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے فورم کی ترجمانی کی اور اس حساس موضوع پر آواز بلند کی۔
کراچی بار اور ملیر بار کے متعدد وکلا نے موضوع پر کھل کر بات کی اور اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں ایسے ہوش ربا حالات و واقعات جو تعلیم کے بگاڑ یا تباہی کی وجہ بنے ہوئے ہیں، حاضرینِ محفل کے سامنے رکھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکرہے کہ مقررین کو پہلے سے ہی موضوع کی وسعت اور طوالت کے پیش نظر چار حصوں میں منقسم کردیا گیا تھا تاکہ مقررین موضوع کے جس حصے پر بات کرنا چاہیں اُن کے لیے محدود وقت میں جامع بات کرنے کا موقع بھی ہو اور مسائل کے حل سے متعلق سفارشات بھی اپنی تحقیق یا تقریر میں پیش کر سکیں۔ یہ ذیلی موضوعات درج ذیل تھے:
1۔ ضرورتِ تعلیم ، 2۔ نظام ِتعلیم، 3۔ نصاب ِتعلیم، 4۔ ذریعہ تعلیم
ول فورم کی ایگزیکٹو ممبرز ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے کراچی بار، جب کہ ایڈووکیٹ عائشہ شوکت نے اپنا تحقیقی مقالہ ملیر بار میں پیش کیا، جس میں ان تمام ذیلی موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے اپنی تحقیق کا جو نچوڑ پیش کیا اس میں اُن کا کہنا تھا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد سوچ، شعور اور اپنے نصب العین سے جوڑنا ہے، آئینِ پاکستان میں واضح دفعات ہونے کے باوجود ہمارے ہاں تعلیم کی صورتِ حال مخدوش ہے۔ انہوں نے 2009ء کی ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق کُل آبادی کا 58 فیصد ناخواندہ ہے جس میں 69 فیصد مرد جب کہ 45 فیصد خواتین شامل ہیں۔ جبکہ خواتین کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ عورت ہی بہتر خاندان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ ایڈووکیٹ عائشہ شوکت نے ریاست کی ذمہ داری کو اجاگر کیا۔ اُن کے مطابق وفاق کو ملک میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے، ملک میں موجود تمام تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے، نصاب کا مقصد قوم کی تہذیب اور مذہبی اقدار کے مطابق نوجوان نسل کو پروان چڑھانا ہوتا ہے، نوجوان نسل کو معاشی ترقی میں شامل کرنے کے لیے نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس کے لیے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تعلیمی شعبے کو صوبوں کے حوالے کیا گیا جس کے نتیجے میں تعلیمی انحطاط میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ’ایک قوم، ایک نصاب اور ایک نصب العین‘ کے لیے ضروری ہے کہ وفاق تعلیم کے شعبے کو اپنی تحویل میں لے۔ مسلمانوں کے تابناک دور کی طرز پر نصاب کو دینی اور دنیاوی تعلیمات کا بہترین نمونہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ایڈووکیٹ نعیم قریشی کا کہنا تھا کہ سیمینار کے موضوع میں جس 1973ء کے آئین کا حوالہ دیا گیا وہ سرے سے ملک میں نافذالعمل ہی نہیں ہے۔ اس آئین کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا جارہا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں نشستوں کی خرید و فروخت کی گئی، ایسے میں جن نمائندگانِ پارلیمنٹ کو یہ تعلیمی پالیسیاں بنانی ہیں وہی مخلص نہیں ہیں تو کس طرح آئینِ پاکستان کے ہوتے ہوئے تعلیم کا حق دیا جائے گا؟ ایڈووکیٹ اشرف سموں نے سندھ حکومت کی نااہلی پر کھل کر بات کی، اُن کا کہنا تھا کہ سندھ میں اس وقت 5000 اسکول بند کردیے گئے ہیں۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر معروف بن رئوف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئینِ پاکستان عملاً متحرک نہیں ہے۔ سائنس ایک عملی مضمون ہے، اس کو بھی رٹّا والا بنا دیا گیا ہے، تعلیم کا مقصد ہی فوت ہوچکا ہے، تعلیم محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ایک ہی ملک و قوم میں تعلیمی میدان میں کئی طبقاتی نظام موجود ہیں۔
راحیلہ وقار نے اپنے خطاب میں پاکستان میں گھوسٹ اسکول اور گھوسٹ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہونے کا انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گھوسٹ اسکولوں میں قبضہ گروپ اپنے جانوروں کو رکھتے ہیں، جو اساتذہ وہاں تعینات ہوتے ہیں وہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں جبکہ پرائیویٹ اداروں میں امتحانات میں نمبرز کا حصول ترجیح ہے، یہ محض تجارتی ادارے بن کر رہ گئے ہیں، اس کے علاوہ اساتذہ باشعور اور تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ آج کے کرپٹ افراد ان ہی اسکولوں سے نکل رہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ جو والدین بچوں کو اسکول نہ بھیجیں ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔
وکلا برادری سے دو ایسے وکلا نے بھی سیمینار میں اظہارِ خیال کیا جو شعبہ قانون سے تعلق رکھنے کے ساتھ قانونی تعلیم کی ترسیل میں بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان میں سے ایک پروفیسر ایڈووکیٹ محمد کامل خان کا کہنا تھا کہ قوم کے پیسوں کو پرائمری تعلیم پر استعمال کیا جائے، جب کہ پروفیسر ایڈووکیٹ مقصود صاحب کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 25 الف کے تحت اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اسلامی لائرز موومنٹ کراچی کے صدر ایڈووکیٹ عبدالصمد خٹک نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کا خاطرخواہ حصہ نہیں ہے اس لیے خواندگی کی شرح کم ہے۔ تعلیم کو اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے، بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ایڈووکیٹ سکینہ منور جیل میں قیدیوں کے لیے کام کرتی ہیں، کنوینر اوور سائٹ کمیٹی فار پریزن نے تعلیم کے موضوع پر جیل میں ہونے والے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ دیگر وکلا میں ایڈووکیٹ عبدالحنان، ایڈووکیٹ طاہرہ شاہ، ایڈووکیٹ تسلیم درانی نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ سیمینار کے اختتام پر ول فورم کی چیئرپرسن ایڈووکیٹ روبینہ قادر جتوئی نے سیمینار کے موضوع پر تمام مقررین کی رائے کو یکجا کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا آئین ایک نعمت ہے، اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو اس کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ علم کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف ملا، اسلام نے علم پر زور دیا ہے، اس لیے آئین میں بھی اسے تحفظ دیا گیا ہے۔ سیمینار کے اختتام پر حکومت سے تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے مطالبات اور تجاویز قرارداد کی صورت میں پیش کی گئیں جنہیں حاضرین نے کثرتِ رائے سے منظور کیا۔ قرارداد کے نکات درج ذیل ہیں:
1۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 الف حق ِتعلیم کے تحت 5 سے 16 سال کے بچوں کو لازمی مفت تعلیم فراہم کی جائے، اور وزارتِ تعلیم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے، آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں، نیز پیشہ ورانہ مہارت کے تعلیمی اداروں میں مناسب فیس مقرر کی جائے، جو طلبہ کی استطاعت میں ہو۔
2۔ سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں نصاب ِتعلیم کا فرق ختم کرکے پورے پاکستان میں یکساں نصاب ِتعلیم نافذ کیا جائے، نیز ہر تعلیمی کلاس کے نصاب میں مکمل ترجمہ قرآن و سنت/ احادیث کو درجہ بدرجہ لازمی کیا جائے۔
3۔ آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے، طلبہ / عوام الناس کو انگریزی زبان کی غلامی سے نکالا جائے۔
4۔ ترقی یافتہ ممالک میں رائج تعلیمی نظام کے طریقہ کار کو اختیار کیا جائے تاکہ نقل کے رجحان اور رٹاّ کلچر کا خاتمہ ہو اور طلبہ کی ذہنی صلاحیتیں سامنے آئیں۔
5۔ وزارتِ تعلیم کی لازمی ذمے داری ہے کہ گھوسٹ اسکولوں اور گھوسٹ اساتذہ کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے مؤثر قانونی اقدامات کیے جائیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ تعلیمی اداروں کو کاروبارکا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
6۔ تعلیمی اداروں سے متعلق شکایات کے اندراج کے لیے ضلعی سطح پر شکایتی مراکز قائم کیے جائیں۔
7۔ استاد قوم کے معمار ہیں، ان کی پیشہ ورانہ قابلیت اور تربیت میں اضافے کے لیے تربیتی کورسز کروائے جائیں اور یہ کورسز ہر سطح کے اساتذہ کے لیے باقاعدہ ترتیب دیے جائیں۔ نیز وفاقی وزارتِ تعلیم پورے پاکستان میں اساتذہ کی تربیت کا یکساں معیار/ نصاب قائم کرے۔
8۔ سیکنڈری اور انٹر بورڈ کے عہدیداران کا تقرر آئین کے مطابق ایمان داری اور صداقت کی بنیاد پر کیا جائے نہ کہ زبان، علاقے یا تعلق کی بنیاد پر۔
9۔ پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، ڈکیتی، راہ زنی، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے تعلیم کی اہمیت اور ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، اس لیے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
10۔ ٹیلنٹ کے نام پر رقص و موسیقی کے مقابلے باعث ِشرم ہیں، وفاقی وزارتِ تعلیم اس طرح کی بے مقصد، غیر اسلامی و غیر اخلاقی سرگرمیوں کے انعقاد کے اعلان کا فوری نوٹس لے، نیز تعلیمی اداروں میں اسلامی تہذیب و ثقافت پر مبنی سرگرمیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
11۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اس بات پر توجہ دے کہ درج بالا قرارداد کے نکات کے مطابق کم از کم چھ ماہ کے اندر اس کے نفاذ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، بہ صورتِ دیگر عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے۔