وہ محکمہ ڈاک میں ملازم تھا۔ ڈاک بانٹنا اس کا کام تھا اور اپنا یہ فرض ادا کرتے ہوئے اسے بیس سال ہو گئے تھے۔
آج ایک خط اسے کھلا ہوا ملا تھا۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے کھول لیا۔ خط میں ایک طالب علم نے اپنے والد سے دو سو روپے منگوائے تھے جو اسےامتحانوں کی فیس کے لئے درکار تھے۔ اس نے خط پڑھا اور سوچ میں ڈوب گیا۔
اسے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جب اس کو محض تیس روپے نہ ملنے کی وجہ سے میٹرک کا امتحان کلیئر کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور وہ ڈاکیہ بن کر رہ گیا تھا۔
اس نے خط بند کیا اور متعلقہ پتے پر وہ خط پہنچانے کے لیے جاپہنچا۔ دستک دی تو اندر سے ایک بیمار آدمی باہر نکلا اور کھانستے ہوئے بولا۔
’’ہاں بھئی کیا بات ہے؟“
اس نے بے ساختہ ہاتھ روک کر خط چھپا لیا۔ مکان کی حالت اور بوڑھے کا حلیہ اسے بہت کچھ بتارہا تھا۔ بوڑھے نے پھر پوچھا۔ ’’کوئی خط آیا ہے میرا ؟“
وہ گڑ بڑا گیا۔” آں ، ہاں، نہیں جی۔“
بوڑھا کھانستے ہوئے بولا ۔ تو پھر دستک کیوں دی بھائی ؟“
’’وہ جی ایک مکان نہیں مل رہا، کوئی عبداللہ صاحب رہتے ہیں اس محلے میں؟“ اس نے بات بنائی۔
’’نہیں بھائی ، میرے علم میں تو نہیں ۔“
’’اچھا جی، شکریہ۔“ وہ بوڑھے کو کھانستا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
دوسرے دن اس نے بوڑھے کے طالب علم بیٹے کو تین سو رو پے بوڑھے کے نام سے منی آرڈر کر دیئے۔ خط کھول کر اس نے جو غیر اخلاقی حرکت کی تھی، ایک نیکی کے احساس نے اس کا داغ دھو دیا۔ اس کا دل مطمئن تھا ضمیر مطمئن تھا اور اسے اپنی حرکت پر اب کوئی پشیمانی نہیں تھی۔