طارق جمیل کی رہائش گاہ پر شعری نشست

273

طارق جمیل کا شمار علم دوست شخصیت میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے سعید الظفر صدیقی کی صحت یابی کی خوشی میں ایک محفل سجائی جس میں رفیع الدین راز‘ صدر مشاعرہ تھے طارق جمیل نے کہا کہ سعید الظفر صدیقی ایک مستند قلم کار ہیں انہوں نے نظم اور نثر کے شعبوں میں قابل قدر کام کیا ہے ان کے شعری مجموعے قارئین ادب میں بہت مقبول ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام موضوعات شامل ہیں ان کی نظمیں ہمارے معاشرے کی عکاس ہیں‘ ان کے اشعار سن کر ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے سات جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ان کی طبیعت خراب تھی وہ اسپتال میں تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ اب صحت مند ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تن درستی عطا فرمائے‘ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رہے۔ رفیع الدین راز نے صدارتی خطاب میں کہا کہ سعیدالظفر صدیقی یگانہ روزگار شخصیت ہیں‘ اس طرح کے افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ غم جاناں بھی نمایاں ہے‘ ان کی نظموں میں تازہ کاری موجود ہے انہوں نے جدید لفظیات اور ماڈرن استعاروں سے اپنی شاعری سجائی ہے‘ ان کا شمار بھی دبستانِ کراچی کے اہم قلم کاروں میں ہوتا ہے۔

سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ وہ طارق جمیل کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ محفل سجائی‘ میں تو اردو زبان و ادب کا ادنیٰ سا خدمت گزار ہوں‘ میں نے تمام زندگی یہ کوشش کی ہے کہ شعر و سخن کی ترقی ہو۔ ہم اپنی ادبی گروہ بندیوں سے نکل آئیں‘ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر زبان و ادب کی خدمت کریں‘ آپس کے اختلافات بھلا کر ادب کی ترویج ترقی میں اپنا حصہ شامل کریں۔ شاعری کی ترقی میں مشاعروں کا اہم کردارہوتا ہے‘ مشاعرے روح کی غذا ہیں‘ شاعری سے ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ہم ذہنی طور پر خوش حال ہوتے ہیں۔ شاعری اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی کے تمام اہم موضوعات شاعری میں شامل ہیں جو شاعری زمینی حقائق پر مشتمل ہوتی ہے وہ زندہ رہتی ہے۔

مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ خالد میر‘ شجاع الزماں شاد‘شوکت کمال چیمہ ایڈووکیٹ‘ اوریاسر سعید صدیقی‘ نے کلام پیش کیا۔ خالد میر نے کلماتِ تشکر میں کہا کہ حلقۂ اربابِ تخلیق آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف چل رہی ہے‘ ہمارے ساتھ جو لوگ جڑے ہوئے ہیں وہ سب کے سب شعر و سخن کے دل دادہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہماری ترقی کا سفر جاری رہے گا۔

ادارۂ انشا کراچی و حیدرآباد کا مشاعرہ

پروفیسر صفدر علی انشا نے اپنی رہائش گاہ پر جان کاشمیری کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت سلمان صدیقی نے کی۔ ڈاکٹر عتیق الرحمن جیلانی (حیدرآباد) تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ سید آصف نقوی اور میجر (ر) اعظم اطہر مہمانان اعزازی تھے۔ پروفیسر صفدر علی انشا نے نظامت کے فرائض کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ جان کاشمیری اور میجر اعظم اطہر کو ہم دبستان کراچی کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ حضرات نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور آج بھی آپ شعر و سخن کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ جان کاشمیری کا شمار شاعری کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے‘ آپ کے شعری مجموعہ ادب کا سرمایہ ہیں۔ آصپ نے ہر صنفِ سخن میں اشعار کیے تاہم غزل آپ کی شناخت ٹھہری ہے۔ آپ نے شاعری میں قابل فخر کارنامے انجام دیے‘ ایک کتاب ایسی بھی شائع کی جس میں تمام مطلعے شامل ہیں یہ ایک نیا تجربہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔ آپ کی خدمات سے تشنگانِ علم و ادب استفاد کر رہے ہیں۔

سلمان صدیقی نے صدارتی خطاب میںکہا کہ پروفیسر صفدر علی انشا نے طنز و مزاح میں اپنا مقام بنایا ہے‘ اس کے علاوہ وہ ایک صحافی اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔ آج انہوں نے جن صاحب کے لیے محفل سجائی ہے وہ قادرالکلام شاعر ہیں‘ ان کے 24 شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میجر اعظم کمال اطہر نے زندگی بھر شعر و سخن کی آبیاری کی‘ وہ علم دوست شخصیت ہیں‘ ان کے کریڈٹ پر بے شمار شان دار پروگرام ہیں۔ ان کے اشعار زندگی سے بھرپور ہیں۔ آج کے مشاعرے میں تمام شعرا نے بہترین کلام پیش کیا۔ دبستان کراچی بھی شاعری کا مرکز و محور ہے۔ یہاں کے شعرا اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ آج کل یہاں امن و امان بہتر ہے جس کی وجہ سے یہاں روزانہ کئی کئی ادبی پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ اس شہر کی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے شان دار محفلیں سجا رہی ہیں۔

جان کاشمیری نے کہا کہ وہ کراچی آکر بہت خوش ہیں‘ یہاں کا ادبی ماحول اس بات کا مظہر ہے کہ شاعری ترقی کر رہی ہے۔ ویسے بھی فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری ہی سب سے زیادہ فعال ہے۔ جس معاشرے میں شعرائے کرام کی بے قدری ہوتی ہے وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ موضوعاتی شاعری اور مزاحمتی شاعری ہمارے معاشرے کے انقلابی اقدامات کا حصہ ہیں۔ شاعر ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ معاشرے میں سب کو زندگی کی سہولیات میسر ہوں‘ امن و امان قائم ہو۔ اس موقع پر انہوں نے پروفیسر صفدر علی انشا کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے اعزاز میں محفل سجائی۔ میجر (ر) اعظم کمال اطہر نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے‘ جو لوگ شعر کہہ رہے ہیں وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ آج کی محفل میں بھی بہت عمدہ شاعری سامنے آئی ہے۔ میں پروفیسر صفدر علی انشان کا ممنون و شکر گزار ہوںکہ انہوں نے ایک شان دار پروگرام مرتب کیا۔

ڈاکٹر عتیق الرحمن جیلانی نے کہا کہ کراچی اردو زبان و ادب کا اہم دبستان ہے تاہم حیدرآباد میں بھی سندھی اردو مشاعرے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ شعرائے کرام اپنے اشعارکے ذریعے معاشرے کی فلاح و بہبود میں مصروف ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم میں جمع ہو جائیں۔ مشاعرے میں سلمان صدیقی‘ جان کاشمیری‘ ڈاکٹر عتیق الرحمن جیلانی‘ میجر اعظم کمال اطہر‘ سید آصف نقوی‘ صفدر علی انشا‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حیدر حسنین جلیسی‘ نسیم شیخ‘ سہیل شہزاد‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ اور شائق شہاب نے کلام پیش کیا۔

حصہ