بزم شعرو سخن کا سالانہ مشاعرہ

321

کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ کثرت سے بولی اور سمجھی جائے۔ اسی وجہ سے اردو کی ترقی میں مشاعروں کا اہم کردار رہا ہے۔ یوں تو انگریزی زبان میں بھی شعری محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے مگر جو عوامی پزیرائی اردو اور فارسی کے مشاعروں کو حاصل ہوئی اس کی نظیر کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔

مشاعرے کا رواج ہمارے ہاں نیا نہیں، اس کے ڈانڈے خواجہ میر درد کی خانقاہ میں ماہانہ بنیاد پر ’’آموختہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی شعری محافل سے ملتے ہیں۔ درد کی خانقاہ سے یہ سلسلہ برصغیر کے نوابین کے ہاں پہنچا اور لال قلعہ دہلی کے مغل دربار میں اسے عروج حاصل ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد ریڈیو پاکستان کے مشاعروں، روزنامہ ڈان، انجمن سادات امروہہ اور اب شہر کی ادبی تنظیموں نے اردو تہذیب کے اس ادارے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

بزمِ شعرو سخن بھی ایسی ہی ادب دوست ساتھیوں کی ایک تنظیم ہے جو ہر قسم کی ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر تواتر کے ساتھ چھوٹی بڑی شعری نشستیں اور سال میں ایک بار مرکزی سطح کا بڑا فیملی مشاعرہ منعقد کرتی ہے۔

سوشل میڈیا اور او لیول کے اس دور میں ہماری آنے والی نسل کو اردو زبان اور تہذیب کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اس طرح کی محافل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسی سلسلے کا ساتواں سالانہ فیملی مشاعرہ ہفتہ 4 مئی کی ایک خوش گوار شام کو مقامی سبزہ زار پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تعاون سے منعقد ہوا جس میں سامعین کی ایک بڑی تعداد شعرائے کرام کے کلام سے لطف اندوز ہوئی، دو ہزار سے زائد نشستوں کی مشاعرہ گاہ اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کر رہی تھی اور بہت سے سامعین نے کھڑے ہو کر مشاعرہ سنا جو کہ رات کے ڈھائی بجے تک جاری رہا۔

مشاعرے کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جب کہ مہمان اعزازی کراچی کے بزرگ شاعر انور شعور تھے۔ جن دیگر شعراء نے اپنا خوب صورت کلام پیش کیا ان میں طارق سبز واری، ریحانہ روحی، جاوید صبا، سلمان صدیقی، وضاحت نسیم، اجمل سراج، ڈاکٹر فیاض وید، فرخ اظہار، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، عبدالحکیم ناصف، ڈاکٹر سلمان ثروت، صفدر علی خان انشا، یاسر سعید، محترمہ صوفیہ زاہد، عفت مسعود اور عدیل احمد عدیل شامل تھے۔

فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورتِ حال کے پسِ منظر میں بھی شعرائے کرام نے نظمیں اور قطعات پیش کیے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمن نے خصوصی طور پر شرکت کی اور بزمِ شعر و سخن کی ترویجِ‘ اردو کے ضمن میں کی جانے والی کوششوں اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ نظامت کے فرائض شہر کے معروف نظامت کار شکیل خاں اور ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے ادا کیے۔

مقامی اسکول کے دو بچوں نے مرحوم حمایت علی شاعر اور مرحوم راحت اندوری کے گیٹ اَپ اور انہی کے مخصوص انداز میں ان کا کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ مشاعرے کے آغاز میں منتظم ِ مشاعرہ عدیل سلیم جملانہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مہمانو ں اور شعرا کو خوش آمدید کہا۔ بزم کے معتمدِ عمومی عبید ہاشمی نے بزم کے اغراض و مقاصداور سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جب کہ بزم کے صدر شیخ طاہر سلطان پرفیوم والا نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ شعرا کو گل دستے پیش کیے گئے۔ مشاعرے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی جب کہ شرکا کے لیے عشائیے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

حصہ