(باب نمبر 6 )
کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو زیادہ کام کرتے ہیں؟ آپ کو اپنے ماحول میں ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو دوسروں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ وہ کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سوال صرف زیادہ زر کمانے کا نہیں بلکہ حقیقی روحانی تسکین کے حصول کا بھی ہے۔ جو لوگ اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اُن کی زندگی دوسروں سے ہٹ کر اور خاصے بلند معیار کی ہوتی ہے۔
کسی بھی ماحول میں اُنہی لوگوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو زیادہ محنت کرتے ہیں۔ زیادہ محنت کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کو جو کام بھی دیا جائے اُسے دل جمعی سے انجام تک پہنچائیں اور تھوڑا سا زیادہ کام کریں۔ جو لوگ اپنے ادارے، دفتر یا دکان کو زیادہ وقت دیتے ہیں، زیادہ محنت کرتے ہیں اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نتائج دیتے ہیں اُنہیں زیادہ پسند ہی نہیں کیا جاتا بلکہ کسی بھی غیر معمولی صورتِ حال میں اُنہیں ساتھ یا برقرار رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کوئی بھی آجر ایسے ملازم ہی کو پسند کرے گا جو دوسروں سے زیادہ اور اچھا کام کرتا ہوگا۔ کسی بھی ادارے میں ملازمین مجموعی طور پر ایک ہی سطح پر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ کارکردگی کا حجم اور معیار کم و بیش یکساں ہوتا ہے۔ ایسے میں جو دوسروں سے زیادہ متوجہ ہوکر کام کرے اور بہتر نتائج دے وہ انتظامیہ اور مالکان کی نظر میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ ایسے ملازم کو بیشتر معاملات میں اہمیت دی جاتی ہے۔
عام آدمی کو اگر یہ سمجھائیے کہ وہ جہاں بھی کام کر رہا ہے وہاں اُسے زیادہ کام کرنا چاہیے تو وہ پلک جھپکتے میں بدک جاتا ہے۔ فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جتنے پیسے ملتے ہیں بس اتنا ہی کام کافی ہے۔ اضافی کام کیوں کیا جائے؟ یہ سوچ انسان کو محدود کرنے والی ہے۔ زیادہ اور بہتر کام کرنے ہی کی بدولت انسان عام سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا، کر دکھانا چاہتے ہیں اُنہیں یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ دوسروں سے زیادہ اور بہتر کام کرنا ہی پڑے گا۔ کسی بھی کامیاب انسان کی آپ بیتی پڑھ جائیے، آپ کو قدم قدم پر اندازہ ہوگا کہ انہوں نے بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے دوسروں سے کہیں زیادہ اور اعصاب شکن تھکن سے دوچار کرنے والی محنت کی۔ کامیابی کی طرف لے جانا سب سے اہم اور کارگر ’’شارٹ کٹ‘‘ دوسروں سے زیادہ کی جانے والی محنت ہی تو ہے۔ کسی کی موجودگی کو پوری شدت سے اُسی وقت محسوس کیا جاتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں اور سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لاتے ہوئے کام کرتا ہے۔ دنیا ہر اُس انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو محض جانتا ہی نہ ہو بلکہ اُنہیں بروئے کار لانے پر متوجہ بھی رہتا ہو۔ کسی بھی انسان کو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہے … یہ کہ وہ کیا کرتا ہے اور کس حد تک کرتا ہے۔ جو اپنی صلاحیت اور سکت کو دوسروں سے بڑھ کر بروئے کار لاتا ہے اُس کی کارکردگی فوری طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ لوگ جب کسی کو غیر معمولی لگن کے ساتھ کام کرتا ہوا پاتے ہیں تو اُس کی طرف تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ آجر ایسے افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو لگے بندھے انداز سے کام کرنے کے بجائے بھرپور لگن کے ساتھ کام کرنے پر متوجہ رہتے ہوں۔
یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انسان جس قدر محنت کرتا ہے اُسے اُتنی ہی زیادہ محنت کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ بھرپور کوشش کرنے والوں کو قدرت مزید کام کی سکت بھی دیتی ہے اور لگن بھی۔ زیادہ کام کرنے سے انسان اپنے وجود کو بہتر انداز سے بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ یہ عمل بھرپور ذہنی تسکین اور روحانی طمانیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ آپ کو جس کام کے لیے رکھا گیا ہے وہ پوری محنت سے کیجیے اور کوشش کیجیے کہ اِس سے کچھ زیادہ بھی ہو۔ جب آپ کچھ آگے جاکر محنت کرتے ہیں تب دوسروں کو آپ کے اخلاص کا اندازہ ہوتے ہیں اور آپ کی موجودگی محسوس کی جاتی ہے۔ زیادہ کام کرنے سے انسان ان تمام لوگوں کی نظر میں وقیع ٹھہرتا ہے جو کام کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ وصف انسان کو رفتہ رفتہ اتنا نمایاں کردیتا ہے کہ کام لینے والے اُسے نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔
کام کے جدید ماحول میں اس بات کی خاص اہمیت ہے کہ جو کچھ طے کیا گیا ہے اُس سے زیادہ کام کیا جائے۔ زیادہ کام کرنے سے انسان کا ضمیر بھی مطمئن رہتا ہے کہ جو کچھ دیا جارہا ہے اس کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول پر پوری دیانت سے نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ طے شدہ اوقاتِ کار کے دوران جس قدر کام کیا جانا چاہیے اُس سے کہیں کم کام ہو پاتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ جو معاوضہ دیا جارہا ہے اُس سے کم کام کرتے ہیں۔ یہ بات ایسی نہیں کہ آسانی سے حلق سے اُتر سکے۔ بات کچھ یوں ہے کہ دفاتر، فیکٹریز اور دکانوں میں ہمارے وقت کا بڑا حصہ لایعنی باتوں اور لاحاصل سرگرمیوں میں ضائع ہوتا ہے۔ دفتر اور فیکٹری میں عام طور پر آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اس میں ایک گھنٹے کے لیے کھانے کا وقفہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باقی سات گھنٹوں میں بمشکل تین یا چار گھنٹے ہی کام ہو پاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی پوری ایمان داری سے اپنے مقررہ اوقات ہی کو بھرپور طور پر بروئے کار لانے کی کوشش کرے تو دوسروں سے بہت حد تک نمایاں ہو جاتا ہے۔
اپنے حصے کا کام بہتر انداز سے کرنا بھی بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے یعنی لوگ آپ کو محسوس کرتے ہیں، اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ چاہیں تو تھوڑا سا زیادہ کام کرکے سب کی نظر میں اپنی وقعت مزید بڑھا سکتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام بھرپور انداز سے کرنا اور تھوڑا بہت زیادہ کام کرنا در حقیقت سرمایہ کاری ہے۔ جب ہم زیادہ کام کرتے ہیں تو دوسروں کی نظر میں بلند ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہی اصل سرمایہ کاری ہے۔ مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی میں اس بات کی خاص اہمیت ہے کہ آپ کے حوالے سے لوگوں کی رائے مثبت ہو۔ اگر ساکھ اچھی ہوگی تو آپ کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے اور آپ بہتر طور پر کام کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔ اپنے حصے کے کام سے تھوڑا زیادہ کام کرنا انسان کو دوسروں سے بالکل الگ کردیتا ہے۔ آجروں کی نظر میں بلند ہونے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں مگر زیادہ محنت کے ذریعے ادارے کو فائدہ پہنچانے سے بڑھ کر کوئی بھی طریقہ کارگر نہیں۔ یہ سرمایہ کاری آپ کو بہت جلد بہت سے فوائد سے ہم کنار کرے گی۔ دنیا کا ایک عظیم اصول یہ بھی ہے کہ محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ جس نے طے کرلیا ہے کہ دوسروں سے زیادہ اور اچھا کام کرنا ہے اُنہیں اِس کا کوئی نہ کوئی معاوضہ مل کر ہی رہتا ہے۔
ایک طرف تو اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ آپ اپنے حصے کا کام ہی نہیں کریں بلکہ اِس سے ایک قدم آگے بھی جائیں۔ آپ کے کام کی مقدار بھی اہم ہے مگر معیار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے کتنا اور کیسا کام کیا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ لوگ آپ کے کام کی مقدار اور معیار ہی نہیں دیکھتے بلکہ اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ کام کے دوران آپ کا رویہ کیسا رہا ہے۔ اگر آپ نے اپنے حصے کا اور اضافی کام خوش دِلی سے کیا ہو تو لوگ آپ کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ لوگ اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ آپ اپنا کام خوش مزاجی اور خوش دِلی سے کریں۔
کسی بھی شخص کے لیے منصب اور معاوضے کا تعین بہت سے معاملات دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنا کام کرتا ہے۔ پھر یہ کہ کام کا معیار کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کام کے دوران مزاج کیسا رہتا ہے۔ انسان کا رویہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ معیار کے ساتھ ساتھ مقدار بھی دیکھی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ کس مزاج کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگر آپ اپنا کام خوش دِلی سے انجام دیتے ہیں تو لوگ محسوس کیے بغیر نہیں رہتے۔ یہ سب کچھ مل کر ہی آپ کے لیے صِلے کا تعین کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشرے میں لوگوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ جو لوگ زیادہ محنت کرتے ہیں وہی زیادہ معاوضہ پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مجموعی ماحول اور مزاج یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام جیسے تیسے مکمل کرکے جان چھڑائی جائے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اپنے ہی ماحول میں زیادہ کام کرنے والوں کو زیادہ معاوضہ اور بھرپور کامیابی حاصل کرتا ہوا دیکھ کر بھی لوگ کچھ نہیں سیکھتے اور کام سے بچنے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
اپنے وجود کو بہتر مستقبل اور بڑے کام کے لیے تیار کرنا آسان کام نہیں۔ صلاحیت اور سکت کا گراف بلند کرنے کے ساتھ ساتھ مہارت کا معیار بھی بلند کرنا پڑتا ہے۔ لوگ بالعموم اپ ڈیٹنگ پر توجہ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپ ڈیٹنگ کے ساتھ اپ گریڈنگ بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ خود کو اپ گریڈ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ انسان نئے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرے۔ دوسرا، آسان طریقہ یہ ہے کہ زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالے۔ یہ عادت کسی کسی میں ہوتی ہے۔ جب انسان غیر معمولی حد تک محنت کرتا ہے تو اپ گریڈ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اہلیت دوسرے لوگوں میں خال خال ہوتی ہے۔ جب تک نئے علوم و فنون میں مہارت کا آپشن بروئے کار نہیں لایا جاتا تب تک زیادہ محنت کرنے کے آپشن کو اپناکر اپ گریڈ ہونے میں کچھ ہرج نہیں۔
اپنے حصے سے کچھ بڑھ کر محنت کرنے کی عادت اپنانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انسان یہی سوچتا رہتا ہے کہ جتنا کام دوسرے کر رہے ہیں اُس سے زیادہ کیوں کروں۔ بظاہر تو یہ سوچ معقول ہے۔ منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جتنا معاوضہ دیا جارہا ہے اُس سے زیادہ کام نہ کیا جائے۔ مگر جناب، منطق اور کامن سینس سے ہٹ کر بھی ایک چیز ہوتی ہے جسے عقلِ سلیم کہتے ہیں۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دوسروں سے الگ کھڑا ہو یعنی اُس کی کارکردگی ایسی ہو کہ لوگ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرے۔
اپنے آپ کو نمایاں کرن کے لیے انسان کو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ انسان کو دوسروں سے الگ کرتا ہے۔ جدید علوم کے ساتھ ساتھ فنون کا سیکھنا بھی انسان کو نمایاں کرتا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر دوسروں سے بہتر ہونا چاہتا ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ پڑھنا پڑے گا۔ مطالعہ ہی اُسے بتائے گا کہ اِس وقت دنیا بھر میں علاج سے متعلق کیا تحقیق ہو رہی ہے۔ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اُسے اہمیت دی جائے تو اپنے آپ کو اپ گریڈ تو کرنا ہی پڑے گا۔ زیادہ کام کرنے کی صورت میں انسان کئی امور ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ ادارے کا وفادار ثابت ہو رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنی انتظامیہ اور مالکان کو یہ یقین بھی دلا رہا ہوتا ہے کہ کوئی بھی اہم منصب ملنے کی صورت میں وہ زیادہ اور بہتر کام کرے گا کیونکہ وہ زیادہ کام کرنے کا عادی ہے۔
اگر آپ نے کچھ کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو پھر زیادہ محنت کرنے کے حوالے سے اگر مگر کیوں؟ زیادہ محنت کرنے سے آپ میں مزید محنت کرنے کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ اور بہت سی عادتوں کی طرح محنت بھی عادت ہے۔ اس عادت کو آپ جس قدر پروان چڑھائیں گے یہ اُسی قدر پروان چڑھتی جائے گی۔ دنیا بھر میں لوگ محنت کو پیدائشی وصف کی حیثیت سے نہیں پاتے بلکہ عادت کے طور پر اپناتے ہیں۔ محنت کی عادت انسان کو غیر معمولی بناتی ہے۔ جن کے ذہن پر دن رات کام کی دُھن سوار رہتی ہے اُنہیں لوگ دور ہی سے پہچان لیتے ہیں۔ محنت کی عادت کو اپنانے والے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ وہ کسی کے معاملات میں غیر ضروری طور پر دخل بھی نہیں دیتے اور اپنے معاملے میں کسی کو دخیل بھی نہیں ہونے دیتے۔ اُن کی زندگی خاصی بامقصد ہوتی ہے۔ سوال صرف زیادہ آمدن کا نہیں۔ محنت کرنے والوں کو اِس بات سے زیادہ غرض ہوتی ہے کہ زندگی بامعنی ہو، بامقصد ہو اور دوسروں کو مفید محسوس ہو۔
کامیاب وہی ہیں جو کام کے معاملے میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ زیادہ کام کرنے سے انسان الگ پہچانا جاتا ہے۔ یہ شناخت اُس کے لیے غیر معمولی حد تک مفید ثابت ہوتی ہے۔ جب لوگ کسی کو زیادہ کام کرنے کے حوالے سے پہچانتے ہیں تو اُس سے استفادے کا ذہن بھی بناتے ہیں۔ ایسے شخص کو مواقع ملتے رہتے ہیں۔ یوں زندگی میں معنویت بڑھتی جاتی ہے۔ دوسروں سے ایک قدم آگے رہنا ہی زندگی کو زیادہ بارآور بناسکتا ہے۔ اور دوسروں سے آگے رہنے کے لیے زیادہ محنت کو عادتوں کا لازمی جُز بنانا پڑتا ہے۔