مزاحمتی نیوز نیٹ ورک:
7 ماہ ہوچکے، یہ معمولی عرصہ نہیں ہے۔ روس یوکرین دو پورے ملک ہیں، ان کی جنگ 2 سال سے چل رہی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یوکرین کے پیچھے یورپی یونین اور امریکا ہے، جبکہ روس خود ایک سپر پاور ہے۔ غزہ کے کیس میں تو اسرائیل، امریکا، یورپ سب مل کر ایک چھوٹے سے ’’گوریلا گروہ‘‘پر حملہ آور ہیں جس کے پاس آج بھی اسرائیل کے 98 شہری موجود ہیں۔ ان مغویوں کی تلاش میں پورا غزہ ملبے کا ایسا ڈھیر بن چکا ہے کہ امریکی ماہرین کے مطابق 8 سال اس کو صاف کرنے اور دوبارہ کھڑا کرنے میں لگیں گے۔ اس سب کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی، روزانہ اُس کے 5-10افسران اور سپاہیوں کی لاشیں اسرائیل جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر تحریکِ مزاحمت کے ایک ٹیلی گرام چینل پر تقریباً سوا لاکھ سبسکرائبر دُنیا بھر میں وہ خبریں لے رہے ہیں جنہیں بتانے کی کوئی اور ہمت نہیں کرسکتا۔ ٹیلی گرام بھی شاید اس لیے ہمت کررہا ہے کہ یہ ’روسی‘ ہے۔ پاکستان میں روسی ٹیلی کمیونیکیشن کے کئی پلیٹ فارمز پر سختی ہے، تاہم واٹس ایپ پر پابندیوں کے دور میں ٹیلی گرام نے جگہ بنا لی ہے۔7 اکتوبر کے بعد روس نے بھی ’حماس‘ کے چینلز پر کئی پابندیاں ظاہر کی۔ ایپل اور گوگل پر طوفان الاقصیٰ کے مناظر اور حملوں کی وڈیوز چلانے پر ’’بیرونی دبائو‘‘کے بعد ٹیلی گرام کے بھی (دکھاوے کے طور پر) ایسے چینلز کو بلاک کرنا پڑا جو ٹیک کمپنیز کی سروس کی شرائط کی خلاف ورزی بنتے تھے۔31 اکتوبر تک اُن کے دو ٹیلی گرام چینلز پر 12 لاکھ سبسکرائبر تھے۔ اس کے علاوہ تین اور چینل تھے جن کے 10لاکھ سبسکرائبر تھے، روس نے اُن کو بند نہیں کیا۔ بہرحال متبادل حکمت عملی بناکر کئی گروپس میں مختلف ناموں اور عنوانات سے تحریکِ مزاحمت نے اپنی خبروں کا نیٹ ورک بنایا۔ میں بھی خبروں کے حصول کے لیے جس نیٹ ورک میں شامل ہوں اُس کا نام ’resistance news network‘ ہے یعنی ’مزاحمت کی خبروں کا نیٹ ورک‘۔ یہ عملی طور پر پورا ایک جال ہے۔ تحریکِ مزاحمت کی تمام کارروائیوں کی خبریں ہی نہیں بلکہ پوری کارروائیوں کی وڈیو بھی جاری ہوتی ہیں اور وہیں سے دنیا بھر میں منٹوں میں پھیل جاتی ہیں۔ اِس ہفتے شمالی غزہ کے جبالیہ کیمپ میں تحریکِ مزاحمت کے بھرپور حملوں کی وڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلتی رہیں، ان کے پھیلنے سے صہیونی فوج کو توقع کے برخلاف شدید دھچکہ پہنچتا ہے۔ ٹیلی گرام چینل پر جاری کردہ تفصیل کے مطابق 15 مئی (یوم نکبہ) کو صہیونی فوج پر مختلف سمتوں سے کئی حملے کیے گئے جس میں 12 اسرائیلی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے، ڈی 9 بلڈوزر، مرکاوا ٹینک سمیت اُن کی فوجی چوکیاں تباہ کرتے ہوئے دکھائی گئیں۔ چینل پر پیغام دیا گیا کہ ’’حملوں میں ہم اپنے رب کی معجزاتی نصرت کی گواہیاں دے رہے ہیں۔ یہ اسلام کے لیے کتنے اعزاز کی بات ہے کہ ایک گوریلا گروہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر امریکی سامراج کی ایک طاقتور فوج کو شکست دے رہا ہے۔ ہر معرکہ، ہر دن ہمیں رب کی مدد کا یقین دلاتا ہے اور ایمان میں اضافہ کرتا ہے‘‘۔
ٹیلی گرام:
اب ٹیلی گرام کی بات ہو ہی گئی ہے تو تھوڑی سی معلومات آپ کو 2014ء میں شروع ہونے والی اس ’روسی‘ موبائل میسیجنگ ایپلی کیشن کی بھی دے دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت ٹیلی گرام کے 800 ملین یعنی 80کروڑ صارفین ہوچکے ہیں۔155 ممالک میں اس کی رسائی ہے اور 66 زبانوں کو یہ ایپلی کیشن سپورٹ کرتی ہے۔ اس کا کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ ورژن بھی ہے، مگر پاکستان میں کئی انٹرنیٹ سروسز پر اس کو چلنے نہیں دیا جاتا، موبائل پر ایپلی کیشن پھر بھی چل جاتی ہے۔ مین اسٹریم سوشل میڈیا تیزی سے ان گروپس کو ڈائون کررہا ہے جنہیں وہ سازشی نظریات والے سمجھتا ہے۔ ٹیلی گرام اب اُن بہت سے گروپس کے لیے ایک پُرکشش جگہ بن چکا ہے۔ اِس ایپلی کیشن میں بنیادی سہولت یہ ہے کہ نجی پیغامات پوری طرح خفیہ رکھے جا سکتے ہیں، یہ خصوصیت خفیہ ٹیلی گرام چیٹ کی سہولت کہلاتی ہے جس میں آپ مخصوص وقت کے بعد میسیجز کو ازخود ڈیلیٹ ہونے کا آپشن بھی دے سکتے ہیں۔ ٹیلی گرام آپ کو اپنی کسی بھی گفتگو یا رابطوں کو ضائع کیے بغیر اپنے اکائونٹ سے منسلک فون نمبر کو آسانی سے تبدیل کرنے کی بھی سہولت دیتا ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں متعدد اکائونٹس بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ ٹیلی گرام آپ کو اضافی پروفائل تصاویر اپ لوڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔گروپ میں دو لاکھ افراد تک شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ٹیلی گرام پر فائلیں شیئر کرنے کے سائز کی حد بھی ’ڈیڑھ جی بی‘ ہے۔ اس کے علاوہ آڈیو، وڈیو کال کی بھی سہولت ہے۔ آپ فعال طور پر ایک سے زیادہ ٹیلی گرام اکائونٹ بھی استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے فون پر ان کو باری باری تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
عمران خان کی وڈیو لنک:
ٹوئٹر پر پابندی برقرار ہے، اس کے باوجود جمعرات کو عدالتی سماعت میں بانی تحریکِ انصاف کی وڈیو لنک پر عدالت میں آمد ہوئی۔ عدلیہ نے اِس کارروائی کو ٹی وی چینلز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی مگر کسی عاشق نے اسکرین کی تصویر لے کر لیک کردی۔ لوگوں کو آسمانی ٹی شرٹ میں صاف ستھری تراش خراش کے ساتھ اپنے لیڈر کی ایک جھلک نے اس حد تک پہنچا دیا۔ #ڈر گئے خان کی جھلک سے، wewantimrankhanlive، ہمارا خان رہا کرو کے ہیش ٹیگ لسٹوں میں گردش کرتے رہے۔ یہ تحریک انصاف کے آفیشل اکائونٹ سے جاری ہوا، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا مگر وہ تحریر کے قابل نہیں۔
سعید انوربھی گھیرے میں:
پاکستان کے معروف مبلغ اور سابق کرکٹر سعید انور جب کرکٹ کھیلتے تھے تو مقابل ٹیم کو سخت حالات سے دوچار کرتے تھے۔ پھر دین کی تبلیغ میں شامل ہوئے تو بھی ’’حق بات‘‘ کہہ کر لبرل و فیمنسٹ طبقات کے لیے سخت حالات کا باعث بنے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس سے قبل عمران خان نے بھی ’خواتین کے کپڑوں سے متعلق دو مرتبہ بات کی‘، یقین مانیں فیمنسٹوں نے اپنے چہیتے وزیراعظم کو بھی اس پر معاف نہ کیا۔ اب کی بارسعید انور کی ایک وڈیو پوسٹ سوشل میڈیا پر جاری ہوئی جس میں انہوں نے قرآن مجید کے حکم اور نص کی تشریح کے ذیل میں بہت کچھ کہا، مگر حسبِ عادت ناقدین نے اپنے مطلب کی بات اٹھائی: ’’جب سے خواتین نے کمانا شروع کیا ہے، پاکستان میں طلاقوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘ یہ اتنی تلخ حقیقت تھی کہ سب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ گیا کیونکہ اس کے نتیجے میں سارا فیمنسٹ ایجنڈا ’’زمیں بوس‘‘ ہونے جارہا تھا۔ سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی مچ گیا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ سعید انور کی حمایت مجھے ویسی نظرنہیں آئی جیسی ہونی چاہیے تھی۔ اَب آپ پہلے اُن لوگوں کے بونگے دلائل سنیں اور پھر ان دلائل کی حقیقت کو سمجھیں۔ ایک صارف نے سابق کرکٹر کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اگر یہ سچ ہے تو جنگ میں عورتوں کو شامل کیوں کیا گیا؟ اِسلام تو اجازت دیتا ہے۔‘‘ ایک صارف نے سعید انور سے سوال کیا کہ ’’کیا بی بی خدیجہؓ تجارت نہیں کرتی تھیں؟‘‘ ایک خاتون صارف نے لکھاکہ ’’ایسی بہت سی خواتین طلاق یافتہ ہیں جو ملازمت پیشہ نہیں۔ آنکھیں بندکرکے بیان دے دینا کوئی عقل مندی تو نہیں، طلاق ایک معاشرتی بگاڑہے جس میں مرد بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ ہر بات میں مولوی بن کرخواتین کو اٹیک کرنے سے گریزکیا کریں۔‘‘ ایک صارف نے تو سعید انور کے آسٹریلیا والے حوالے کو ہی جھوٹ قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی اخلاق سے گرے ہوئے کئی کمنٹس تھے جن میں اکثریت مرد اکائونٹ ہولڈرز کی تھی۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ تنقید اگر ہوئی بھی ہے تو ملازمت پیشہ عورتوں پر، جبکہ تکلیف سب سے زیادہ مردوں کو ہوتی دکھائی دی۔
سیلیبرٹی کلچر:
ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ ’’سیلیبرٹی کلچر‘‘ میں شمار ہوتا ہے۔ ہر چیز کی ’’اینڈورسمنٹ‘‘ اب ہمارے ہاں ’’سیلیبرٹیز‘‘ سے کرائی جاتی ہے۔ شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ، فریج، اے سی، پلاٹ، مکان، فلیٹ جو بھی لینا ہوتا ہے اُس کے لیے ایک مشہور شخصیت سے بات کہلوائی جاتی ہے۔ ڈبے کا دودھ چاہے زہریلا ہی کیوں نہ ہو، وہ خود اُس کو نہ پیتا ہو، مگر اشتہار میں وہ مشہور اداکار اُس کے بھرپور فوائد بتائے تو ہی لوگ یقین کرتے ہیں۔ یہ بالکل عام سی بات ہو چکی ہے۔اس سے قبل یعنی اشتہار کاری سے قبل یہ ساراپیمانہ ’’پیکیجنگ‘‘کے پاس تھا، لوگ پیکیجنگ دیکھ کر فیصلہ کرتے چاہے اُس پر جو لکھا ہوا ہے وہ درست ہو یا نہ ہو۔ یہ سارا کلچر ’’اظہار‘‘ Representationکا کہلاتا ہے جس نے اب پوری انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے۔اِس لیے ’سعید انور‘ کی بات اُن کے نزدیک معمولی نہیں قرار دی جا سکتی،خصوصاً جب وہ وائرل ہوجائے۔
پاکستان میں غلامی اور مرعوبیت کی وجہ سے فیمن ازم کی تینوں شکلیں بیک وقت سرایت کررہی ہیں۔ خالق نے مرد کو ’’قوام‘‘ یعنی ’’ذمہ دار‘‘ بنایا ہے کہ وہ کفالت کرے گا، یہ کام پوری 7ہزار سالہ انسانی تاریخ میں کسی عورت کو کبھی نہیں دیا گیا۔ یہ جو خواتین کی آج معاشرت میں شمولیت، مساوات و برابری کے نعرے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں شامل ہونے کا عمل ٹھونسا جا رہا ہوتا ہے اس کی تاریخ محض 200 سال کی ہے۔ 200 سال قبل بھی یہ عمل یورپ میں شروع ہوا، ہمارے خطے میں تو اس ’زہر‘ نے محض 100-120 سال میں قدم رکھا ہے۔ آپ خود بتائیے اگر آپ کے نزدیک ’اسلام دینِ فطرت ہے‘ اور اسلام نے مرد و عورت کو عین ان کی فطرت کے مطابق الگ الگ کام کا ذمہ دار بنایا ہے تو جو بھی اس کے برخلاف کام کرے گا، نتائج ’غیر فطری‘ ہی ہوں گے۔ آسٹریلیا ہو، امریکا ہو یا پاکستان… ’’زہر‘‘کھانے سے سب مرتے ہی ہیں۔
مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی معاشرت و ریاست کا مقصد ایسی ترتیب وجود میں لانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہر فرد، قبیلہ، گروہ یا مرد ہو یا عورت… سب کے لیے حقِ عبدیت والی زندگی گزارنا ممکن ہوسکے، یعنی اسے ثواب کمانے اور گناہ سے بچنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں تاکہ وہ جنت کا حق دار بن سکے۔ اس کے مقابلے پر مغربی علمیت ایک ایسی معاشرت ترتیب دیتی ہے جو ہر قسم کی عبدیت سے بالاتر ہوتی ہے اور انسان کو صرف مستقل آزادی کی طرف دھکیلتی ہے… اپنے ہر ارادے، فکر، خواہش و طلب کو پورا کرنے کی آزادی کی طرف۔ اس کے لیے وہ ’سرمایہ‘ کو متعارف کراتی ہے جس کا ایک ہی کام ہوتا ہے کہ اس سے اپنی ہر خواہش پوری کرلی جائے۔ یہ صرف خواہش ہی نہیں بلکہ سب کچھ پالینے کی حرص و ہوس کو فروغ دیتا ہے۔ اس لیے فیمن ازم کی جڑ میں ’آزادی‘ کا وہ تصور ہے جو حصولِ ’سرمایہ‘ سے بھی جڑا ہوا ہے۔