گڈ گورننس اور ریفارمز کی شاندار مثال
اِسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے باپ کو مصر جیسے عظیم الشان صوبے کا گورنر پایا۔ بڑے ہوئے تو خود اموی سلطنت کے ماتحت گورنری پر مامور ہوئے۔ شاہانِ بنی اُمیہ نے جن جاگیروں سے اپنے خاندان کو مالا مال کیا تھا ان میں ان کا اور ان کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا، حتیٰ کہ خاص ان کی ذاتی جائداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ رئیسوں کی طرح پوری شان سے رہتے تھے، لباس، خوراک، سواری، مکان، عادات و خصائل سب وہی تھے جو شاہی حکومت میں شاہ زادوں کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ماحول اس کام سے دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا تھا جو بعد میں انھوں نے انجام دیا۔ لیکن ان کی ماں حضرت عمرؓ کی پوتی تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو پچاس ہی برس ہوئے تھے جب وہ پیدا ہوئے، اُن کے زمانہ میں صحابہؓ اور تابعین بہ کثرت موجود تھے۔ ابتدا میں انھوں نے حدیث اور فقہ کی پوری تعلیم پائی تھی یہاں تک کہ محدثین کی صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے اور فقہ میں اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے۔ پس علمی حیثیت سے تو ان کے لیے یہ جاننے اور سمجھنے میں کوئی دقت نہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین مہدیین کے عہد میں تمدن کی اساس کن چیزوں پر تھی اور جب خلافت پادشاہی سے بدلی تو ان بنیادوں میں کس نوعیت کا تغیر واقع ہوا۔ البتہ جو چیز عملی حیثیت سے ان کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتی تھی وہ یہ تھی کہ اس جاہلی انقلاب کا بانی خود ان کا اپنا خاندان تھا، اس کے تمام فائدے اور بے حد و حساب فائدے ان کے بھائی بندوں اور خود ان کی ذات اور ان کے بال بچوں کو پہنچتے تھے اور ان کی خاندانی عصبیت، ذاتی طمع اور اپنی آئندہ نسل کی دنیوی خیرخواہی کا پورا تقاضا یہ تھا کہ وہ بھی تخت شاہی پر فرعون بن کر بیٹھیں، اپنے علم اور ضمیر کو ٹھوس مادی فائدوں کے مقابلے میں قربان کر دیں اور حق، انصاف، اخلاق اور اصول کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر جب 37 سال کی عمر میں بالکل اتفاقی طور پر تخت شاہی ان کے حصے میں آیا اور انھوں نے محسوس کیا کہ کس قدر عظیم الشان ذمے داری ان پر آن پڑی ہے تو دفعتاً ان کی زِندگی کا رنگ بدل گیا۔ انھوں نے اس طرح کسی ادنیٰ تامل کے بغیر جاہلیت کے مقابلے میں اِسلام کے راستے کو اپنے لیے منتخب کیا کہ گویا یہ ان کا پہلے سے سوچا ہوا فیصلہ تھا۔
تخت شاہی انھیں خاندانی طریق پر ملا تھا مگر بیعت لیتے وقت مجمع عام میں صاف کہہ دیا کہ میں اپنی بیعت سے تمھیں آزاد کرتا ہوں، تم لوگ جسے چاہو خلیفہ منتخب کر لو۔ اور جب لوگوں نے برضا و رغبت کہا کہ ہم آپ ہی کو منتخب کرتے ہیں، تب انھوں نے خلافت کی عنان اپنے ہاتھ میں لی۔
پھر شاہانہ کروفر، فرعونی انداز، قیصر و کسریٰ کے درباری طریقے، سب رخصت کیے اور پہلے ہی روز لوازمِ شاہی کو ترک کرکے وہ طرز اختیار کیا جو مسلمانوں کے درمیان ان کے خلیفہ کا ہونا چاہیے۔
اس کے بعد ان امتیازات کی طرف توجہ کی جو شاہی خاندان کے لوگوں کو حاصل تھے اور انھیں تمام حیثیتوں سے عام مسلمانوں کے برابر کر دیا۔ وہ تمام جاگیریں جو شاہی خاندان کے قبضہ میں تھیں، اپنی جاگیر سمیت بیت المال کو واپس کیں۔ جن جن کی زمینوں اور جائدادوں پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا وہ سب انھیں واپس دیں۔ ان کی اپنی ذات کو اس تغیر سے جو نقصان پہنچا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پچاس ہزار کی جگہ صرف دو سو اشرفی سالانہ کی آمدنی رہ گئی۔ بیت المال کے روپے کو اپنی ذات پر اور اپنے خاندان والوں پر حرام کر دیا، حتیٰ کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تنخواہ تک نہ لی۔ اپنی زندگی کا سارا نقشہ بدل دیا۔ خلیفہ ہونے سے پہلے شاہانہ شان کے ساتھ رہتے تھے، خلیفہ ہوتے ہی فقیر بن گئے۔
گھر اور خاندان کی اس اصلاح کے بعد نظامِ حکومت کی طرف توجہ کی۔ ظالم گورنروں کو الگ کیا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کرصالح آدمی تلاش کیے کہ گورنری کی خدمت انجام دیں۔ عاملینِ حکومت جو قانون اور ضابطہ سے آزاد ہو کر رعایا کی جان‘ مال اور آبرو پر غیر محدود اختیارات کے مالک ہو گئے تھے، انھیں پھر ضابطہ کا پابند بنایا اور قانون کی حکومت قائم کی، ٹیکس عائد کرنے کی پوری پالیسی بدل دی اور وہ تمام ناجائز ٹیکس جو شاہانِ بنی اُمیہ نے عائد کر دیے تھے، جن میں آب کاری تک کا محصول شامل تھا، یک قلم موقوف کیے۔ زکوٰۃ کی تحصیل کا انتظام ازسر نو درست کیا اور بیت المال کی دولت کو پھر سے عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو ناانصافیاں کی گئی تھیں ان سب کی تلافی کی، ان کے معابد جن پر قبضہ کیا گیا تھا‘ انھیں واپس دلائے، ان کی زمینیں جو غصب کرلی گئی تھیں پھر واگزاشت کیں اور ان کے وہ تمام حقوق بحال کیے جو شریعت کی رو سے انھیں حاصل تھے۔ عدالت کو انتظامی حکومت کے دخل سے آزاد کیا اور حکم بین الناس کے ضابطے اور اسپرٹ دونوں کو شاہی نظام کے اثرات سے پاک کرکے اسلامی اصول پر قائم کر دیا۔ اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھوں اسلامی نظام حکومت دوبارہ زندہ ہوا۔
پھر انھوں نے سیاسی اقتدار سے کام لے کر لوگوں کی ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی زِندگیوں سے جاہلیت کے اُن اثرات کو نکالنا شروع کیا جو نصف صدی کی جاہلی حکومت کے سبب سے اجتماعی زندگی میں پھیل گئے تھے۔ فاسد عقیدوں کی اشاعت کو روکا۔ عوام کی تعلیم کا وسیع پیمانہ پر انتظام کیا۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم کی طرف اہلِ دماغ طبقوں کی توجہات کو دوبارہ منعطف کیا اور ایک ایسی علمی تحریک پیدا کر دی جس کے اثر سے اِسلام کو ابو حنیفہؒ، مالکؒ، شافعیؒ اور احمد بن حنبلؒ جیسے مجتہدین میسر آئے۔ اتباعِ شریعت کی روح کو تازہ کیا۔ شراب نوشی، تصویر کشی اور عیش و تنعم کی بیماریاں جو شاہی نظام کی بہ دولت پیدا ہو چکی تھیں، اُن کا انسداد کیا اور فی الجملہ وہ مقصد پورا کیا جس کے لیے اِسلام اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔
بہت ہی قلیل مدت میں اس انقلابِ حکومت کے اثرات عوام کی زِندگی پر اور بین الاقوامی حالات پر مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ ایک راوی کہتا ہے کہ ولیدؓ کے زمانہ میں لوگ جب آپس میں بیٹھتے تو عمارات اور باغوں کے متعلق گفتگو کرتے۔ سلیمان بن عبدالملک کا زمانہ آیا تو عوام کا مذاق شہوانیت کی طرف متوجہ ہوا۔ مگر عمر بن عبدالعزیز حکم ران ہوئے تو حالت یہ تھی کہ جہاں چار آدمی جمع ہوتے نماز، روزہ اور قرآن کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ غیر مسلم رعایا پر اس حکومت کا اتنا اثر ہوا کہ ہزار در ہزار آدمی اس مختصر سی مدت میں مسلمان ہو گئے اور جزیہ کی آمدنی دفعتاً اتنی گھٹ گئی کہ سلطنت کے مالیات اس سے متاثر ہونے لگے۔ مملکتِ اسلامی کے اطراف میں جو غیر مسلم ریاستیں موجود تھیں، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے انھیں اِسلام کی طرف دعوت دی اور ان میں سے متعدد ریاستوں نے اس دین کو قبول کر لیا۔
اسلامی حکومت کی سب سے بڑی حریف سلطنت اس وقت روم کی سلطنت تھی جس کے ساتھ ایک صدی سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس وقت بھی سیاسی کش مکش چل رہی تھی۔ مگر عمر بن عبدالعزیزؒ کا جو اخلاقی اثر روم پر قائم ہوا اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو ان کے انتقال کی خبر سن کر خود قیصر روم نے کہے تھے۔ اس نے کہا کہ:
’’اگر کوئی راہب دُنیا چھوڑ کر اپنے دروازے بند کرلے اور عبادت میں مشغول ہو جائے تو مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ مگر مجھے حیرت ہے تو اس شخص پر جس کے قدموں کے نیچے دُنیا تھی اور پھر اسے ٹھکرا کر اس نے فقیرانہ زِندگی بسر کی۔‘‘
اِسلام کے مجدّدِ اوّل کو صرف ڈھائی سال کام کرنے کا موقع ملا اور اس مختصر سی مدت میں اس نے یہ انقلاب عظیم برپا کرکے دکھا دیا۔ مگر بنی امیہ سب کے سب اس بندئہ خدا کے دشمن ہو گئے۔ اِسلام کی زِندگی میں ان کی موت تھی۔ وہ اس تجدید کے کام کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔آخر کار انھوں نے سازش کرکے اسے زہر دے دیا اور صرف 39 سال کی عمر میں یہ خادمِ دین و ملت دُنیا سے رخصت ہو گیا۔ جس کارِ تجدید کو اس نے شروع کیا تھا، اس کی تکمیل میں اب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی تھی کہ خاندانی حکومت کو ختم کرکے انتخابی خلافت کا سلسلہ پھر سے قائم کر دیا جاتا۔ یہ اصلاح اس کے پیش نظر تھی اور اس نے اپنے عندیہ کا اظہار بھی کر دیا تھا، مگر اموی اقتدار کی جڑوں کو اجتماعی زِندگی سے اکھاڑنا اور عام مسلمانوں کی اخلاقی و ذہنی حالت کو خلافت کا بار سنبھالنے کے لیے تیار کرنا آسان کام نہ تھا کہ ڈھائی برس کے اندر انجام پا سکتا۔
(حوالہ کتاب: تجدید واحیائے دین)