کے الیکٹرک: تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو

298

’’ہائے میری امی مر گئیں۔ صبح آفس جاتے ہوئے ملا تو ہشاش بشاش نظر آرہی تھیں۔ مار ڈالا ان ظالموں نے میری ماں کو۔ یہ قاتل ہیں، میں انہیں نہیں چھوڑوں گا، ایک ایک سے بدلہ لوں گا۔‘‘

’’کیا بکواس کررہے ہو، تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا جو پاگلوں کی طرح حرکتیں کررہے ہو! کہاں ہیں زینب خالہ؟ بلاؤ انہیں تاکہ وہ بھی تمہاری حرکتیں دیکھ لیں۔‘‘

’’شریف بھائی! قسم سے، امی اب اِس دنیا میں نہیں رہیں۔ صائمہ سے پوچھ لو، امی سسک سسک کر مر گئیں۔ گھر میں آکر دیکھ لو، میری تو دنیا ہی ختم ہوگئی ہے۔‘‘

’’حامد! ہوش کرو اور بتاؤ آخر بات کیا ہے؟‘‘

’’شریف بھائی میں آفس گیا ہوا تھا، صائمہ کا فون آیا کہ جلد گھر آجائیں امی کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، بس اتنا سننا تھا کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، سارے کام چھوڑ کر فوراً گھر پہنچا اور دیکھا کہ امی کہہ رہی تھیں میری سانس اکھڑ رہی ہے، بیٹا پنکھا چلا دو مجھے بہت گرمی لگ ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث ہم دونوں بہن بھائی مستقل ہاتھ سے پنکھا جھلتے رہے۔ امی مسلسل گرمی اور گھبراہٹ کا کہتے کہتے اگلے جہاں چلی گئیں، یہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہوا، یہ محکمہ میری ماں کا قاتل ہے، یہ ’کے الیکٹرک‘ نہیں بلکہ ’’قاتل الیکٹرک‘‘ ہے، میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

’’حامد صبر کرو، اللہ زینب خالہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی عطا کی ہوتی ہے انسان دنیا میں اُتنا ہی وقت گزارتا ہے، سب کچھ میرے رب کے ہاتھ میں ہے، جو بھی ہوتا ہے وہ اس کی مرضی و منشا کے مطابق ہوتا ہے، جو اِس دنیا میں آیا ہے اُسے ایک دن جانا ہے۔ میرے رب کے سوا سب فانی ہیں۔ حوصلہ کرو، خود کو سنبھالو، تم صائمہ کے پاس جاؤ، اُسے بھی حوصلہ دو۔ میں محلے والوں کو بتاتا ہوں، جہاں جہاں اطلاع دینی ہے مجھے نمبر دے دو، میں سب کو فون کردوں گا۔ تدفین کے انتظامات کے لیے قاسم کو کہہ دیتا ہوں۔ تم گھر جاؤ اور چھوٹی بہن کو دلاسہ دو۔‘‘

’’شریف بھائی! کیسے گھر جاؤں، کیسے صبر کروں! میرا دل بیٹھ رہا ہے، چھوٹی کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ آپ یقین کریں امی بالکل ٹھیک تھیں۔ انتہائی گرم موسم میں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے باعث جب ہماری حالت خراب ہوجاتی ہے تو سوچیں کہ عمر رسیدہ افراد اس اذیت کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں! بے شک ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی دین ہے، کون کتنا جیے گا یہ میرا رب ہی جانے، لیکن ناحق قتل کی سزا بھی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت 178 میں متعین کردی ہے:

’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘

اب کوئی مانے یا نہ مانے، کے الیکٹرک والوں نے ہی میری ماں کی جان لی ہے، لہٰذا اس محکمے کے اعلیٰ افسران قرآن کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق مجرم ہیں۔‘‘

حامد کی والدہ کا انتقال رضائے الٰہی سے ہوا تھا اس میں دو رائے نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح کے الیکٹرک ہر آنے والے دن کے ساتھ لوگوں پر قہر بن کر مسلط ہوتی جارہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کے الیکٹرک کے بارے میں اس قسم کی سوچ صرف حامد کی نہیں بلکہ 2019ء میں شہر کے مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سے 19 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے، اسی طرح 2016ء میں ہیٹ اسٹروک سے ہزاروں اموات ہوئیں۔ تحقیقات کے مطابق اُس وقت بھی زیادہ تر اموات بجلی نہ ہونے کے باعث ہوئی تھیں۔ اس لیے اس محکمے کو ’’قاتل الیکٹرک‘‘ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ماضی کو چھوڑئیے، آج بھی ہر گھنٹے کے بعد ڈھائی سے تین گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، جبکہ فالٹ کے نام پر ساری ساری رات بجلی بند کردی جاتی ہے۔ اس اذیت پر یہ کہنا درست ہے کہ اس ادارے کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اربابِ اختیار یزیدی ذہنیت کے مالک ہیں۔ شہر کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو اس محکمے کے شر سے محفوظ ہو۔ شدید گرمی میں گھنٹوں بجلی نہ ہونے کے باعث یہاں کے مکین ڈپریشن کا شکار ہوتے جارہے ہیں، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ہر دوسرا شخص تند مزاج، جبکہ چھوٹے بچوں کی تعلیم و صحت یہاں تک کہ ان کے پھلنے پھولنے پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 15 سے 18 گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ کے باوجود واجبات کے نام پر ماہانہ بارہ سے پندرہ ہزار روپے غنڈا ٹیکس وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ غریب عوام سے بھاری بلوں کی وصولی کے لیے باقاعدہ فورس بنائی گئی ہے جو سفید پوش افراد کی عزتیں پامال کرتی پھرتی ہے۔

جن صارفین پر نہ ہونے کے برابر بقایاجات ہیں انہیں زیادہ تنگ کیا جاتا ہے، جبکہ کنڈا مافیا کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جس کا میں خود گواہ ہوں۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے میں نے اپنے قریب سے گزرتی ہوئی گاڑی میں بیٹھے آپریشنل ڈیوٹی پر مامور ورکرز سے کہا ’’اس سڑک کے دونوں طرف بنی دکانوں میں چوری کی بجلی استعمال کی جارہی ہے، کنڈا مافیا نے ساری دکانوں پر ناجائز کنکشن دے رکھے ہیں، آپ چونکہ اس کام سے وابستہ ہیں یعنی آپ کی ڈیوٹی ناجائز کنکشن منقطع کرنے کی ہے لہٰذا یہ کنڈے کاٹ دیں‘‘۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ میری جائز شکایت پر کارروائی کرتے، لیکن ان میں سے ایک شخص بولا ’’ان کنڈوں سے تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ یہ لوگ کاروبار کررہے ہیں جو اچھی بات ہے، اگر تمہیں ان پر اعتراض ہے تو جاؤ تم بھی کنڈا لگا لو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ سب اپنے لوگ ہیں، اپنوں کے خلاف کارروائی کرنا ٹھیک نہیں‘‘۔ دیکھا آپ نے اس ادارے کے اہلکاروں کا کام، وہ کہہ رہے تھے کنڈا مافیا اپنے لوگ ہیں، اور تو اور مجھے بھی جائز کنکشن منقطع کرکے کنڈا ڈالنے کا رستہ دکھایا جا رہا تھا اور ساتھ ہی میٹر کو کنٹرول کرنے کے طریقوں سے بھی روشناس کرایا گیا۔ ان کے اس عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ڈیوٹی پر مامور اہلکار نہ صرف بجلی چوری میں ملوث ہیں بلکہ ایسے افراد کے لیے جو بجلی چوری کرتے ہیں، آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ یعنی آپ لاکھوں روپے کی بجلی چوری کریں اور پیکیج کے نام پر تھوڑی سی رقم ادا کرکے خود کو کلیئر کروا لیں اور پھر سے چوری کرنے لگیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اس فارمولے کے تحت معاف کی گئی رقم کو مختلف ایڈجسمنٹ کا نام دے کر غریبوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

آپ اپنا بجلی کا بل اٹھا کر دیکھ لیں، صارفین سے بل میں 9مختلف قسم کے ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں جن میں پہلا ٹیکس ’الیکٹریسٹی ڈیوٹی‘‘ ہے۔ یہ صوبائی حکومت کی طرف سے لگایا جانے والا ٹیکس ہے جو ایک سے ڈیڑھ فیصد کی شرح سے تمام صارفین کے بلوں میں شامل ہوتا ہے۔

دوسرا ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) ہے، یہ 17فیصد کی شرح سے ان دنوں تمام بجلی صارفین پر لاگو ہے۔

تیسرا ٹیکس پی ٹی وی لائسنس فیس کے نام سے ہے۔ گھریلو صارفین کے بل میں اس ٹیکس کے نام پر 35روپے اور کمرشل صارفین کے بل میں 60روپے شامل کیے جاتے ہیں۔

چوتھا ٹیکس ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کے نام سے ہے جو لائف لائن گھریلو صارفین کے سوا ہر کسی پر 0.43روپے فی کلوواٹ آور کی شرح سے لاگو ہوتا ہے۔

پانچواں ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے۔ یہ ٹیکس ہر ماہ مختلف شرح سے لاگو ہوتا ہے۔

چھٹا ٹیکس ’ایکسٹرا ٹیکس‘ کے نام سے لاگو کیا گیا ہے۔ یہ صنعتی اور کمرشل صارفین (جو ایکٹو ٹیکس دہندہ نہیں ہیں) پر بل کی رقم کے لحاظ سے 5فیصد سے 17 فیصد تک لاگو ہوتا ہے۔

ساتواں ٹیکس ’فردر ٹیکس ہے جو 3فیصد کی شرح سے گھریلو اور زرعی صارفین کے سوا اُن تمام صارفین سے وصول کیا جارہا ہے جن کے پاس سیلز ٹیکس ریٹرن نمبر (ایس ٹی آر این) نہیں ہے۔

آٹھواں ٹیکس انکم ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس بھی بل کی رقم اور ٹیرف کے لحاظ سے مختلف شرح سے لاگو ہوتا ہے۔

نویں ٹیکس کو سیلز ٹیکس کا نام دیا گیا ہے جو 5فیصد کی شرح سے 20ہزار تک کے کمرشل بلوں اور 20ہزار سے زائد گھریلو بلوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام کی جیبوں پر اُس وقت بڑا ڈاکہ ڈالا جاتا ہے جب حکومت بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کرتی ہے۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بات چلی تھی خالہ زینب کے انتقال پر ہونے والی لوڈشیڈنگ سے، لیکن کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ تو اس پر اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ کے الیکٹرک ایسی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس سے جڑے شکایتی مراکز ہوں یا بلنگ ڈپارٹمنٹ یا پھر آپریشنل سیل… ہر جگہ نااہلی،کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ بات لوڈشیڈنگ تک ہی محدود رہے، لہٰذا بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پینے کے صاف پانی کی سپلائی کی بندش پر بھی کے الیکٹرک کو ہی ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا۔ اندھیرے میں ڈوبی شاہراہوں سے گزرتی گاڑیوں اور راہ گیروں کے ساتھ ہونے والی چھینا جھپٹی بھی کے الیکٹرک ہی کے کھاتے میں ڈالی جائے گی۔ اسی طرح اسپتالوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث ہونے والی اموات بھی کے الیکٹرک انتظامیہ کے ذمے ہوں گی۔ اگر طائرانہ نگاہوں سے جائزہ لیا جائے تو بآسانی اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ کراچی سے نہ تو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے اور نہ ہی اضافی بلنگ سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی غریب عوام کو لوٹنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، کیونکہ اس بے لگام ادارے کے افسران ایک ایسا مافیا بن چکے ہیں، جن کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنا کراچی کے عوام کے بس کی بات نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مافیا سے جان چھڑا کر کراچی کو اندھیروں سے کون نکال سکتا ہے؟ تو اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ یہ کام صرف ایسا حکمران طبقہ ہی کرسکتا ہے جو اہل، محب وطن، ذمے دار،کرپشن سے پاک، محنتی اور ذاتی مفادات سے ماورا ہو۔ پاکستانی قوم کو کب ایسا حکمران طبقہ نصیب ہوگا؟خدا جانے۔ ہم تو بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔

حصہ