ن م راشد
!زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
ان کہی سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے بے ریا خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
تم ابھی سے ڈرتے ہو
رئیس مینائی
افق کی منڈیروں پہ
دن کا تھکا ماندہ سورج کھڑا تھا
اور اس کا بدن سرخ شالوں کی زد میں جھلستا رہا
وہ چپ چاپ گم سم
خلاؤں کو تکتا رہا
ایک گونگا تماشائی بن کر
یکایک خلاؤں کی پہنائیوں میں
پس پردۂ شب سے
اک چیخ ابھری
وہ مغرور سورج
جو اپنی تکمیلی شعاعوں کے زہریلے کانٹوں سے
معصوم دھرتی کا سینہ کھرچتا رہا تھا
کسی سرد پتھر کی مانند چپ ہو گیا
اندھیروں کی یلغار سے
دم بخود رہ گیا
رہبر تابانی دریاآبادی
جگر میں درد نہ رکھ دل میں اضطراب نہ رکھ
تو اپنی آنکھوں میں اس بے وفا کے خواب نہ رکھ
جنوں زدہ ہی نکالیں گے اب کوئی صورت
خرد پرستوں سے امید انقلاب نہ رکھ
امیر شہر کی خوشنودیوں سے کیا حاصل
تو رہن اس کے لئے ہونٹوں کے گلاب نہ رکھ
نہ جانے کون سے دروازے سے وہ داخل ہو
کسی بھی دور میں بند اپنے دل کے باب نہ رکھ
سفر اگر ہے ضروری تو جا مگر اے دوست
کسی بھی شخص کو ہم راہ و ہم رکاب نہ رکھ
وہ اپنے فن کی بدولت کہاں نہیں مقبول
ہنر وروں کے سر احسان انتخاب نہ رکھ
شباب تو ہے بذات خود ایک ہنگامہ
تو مجھ پہ تہمت ہنگامۂ شباب نہ رکھ
خود اپنا تجزیہ کر اپنی خامیوں کو ڈھونڈ
کسی کی ذات پہ الزام اجتناب نہ رکھ
جو ہونا ہے یہیں ہو جائے اے مرے مولا
مرا حساب سر روز احتساب نہ رکھ
جو مجھ سے ملنا ہے رہبرؔ تو مل کھلے دل سے
کہ درمیاں کوئی پردہ کوئی حجاب نہ رکھ
رفیق الزماں
کتنا پوشیدہ ہواؤں کا سفر رکھا گیا
آنے والے موسموں سے بے خبر رکھا گیا
آج بھی پھرتا ہوں اس کی جستجو میں ہر طرف
کون سی بستی میں آخر میرا گھر رکھا گیا
چند مبہم خواب آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں میں
اور کیا میرے لیے زاد سفر رکھا گیا
دوستوں میں کچھ مری پہچان تو باقی رہے
اس لیے مجھ میں عجب رنگ ہنر رکھا گیا
اس ہتھیلی پر چمکتی ریت کے ذرے ہیں اب
جس ہتھیلی پر کبھی گنج گہر رکھا گیا
نوک نیزہ پر کبھی طشت رعونت میں کبھی
ہر تماشے کے لیے میرا ہی سر رکھا گیا
میرا اپنا خوف ہی کیا کم تھا لیکن اے رفیقؔ
میری اپنی ذات میں کس کس کا ڈر رکھا گیا
راز مراد آبادی
چمن میں آتش گل بھی نہیں دھواں بھی نہیں
بہار تو یہ نہیں ہے مگر خزاں بھی نہیں
بچھڑ گئے ہیں کہاں ہم سفر خدا جانے
نقوش پا بھی نہیں گرد کارواں بھی نہیں
طواف کعبہ کیا بت کدہ بھی دیکھ آئے
سکون قلب یہاں بھی نہیں وہاں بھی نہیں
قفس ہے گوشۂ راحت قفس ہے دار اماں
غم چمن بھی نہیں فکر آشیاں بھی نہیں
کہاں کے گیت کہاں کی غزل کہ ہم سخنو
بہت دنوں سے ہمیں جرأت فغاں بھی نہیں
امجد اسلام امجد کے چند اہم اشعار
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہجر کی رات کا کنارا نہیں
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
درد کا رستہ ہے یا ہے ساعت روز حساب
سیکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں