کہیں کھو نہ جائیں ہم

293

’’کیا رکھا ہے اس ملک میں؟‘‘
یہ جملہ سنتے سنتے وہ بچپن سے جوان ہوگیا تھا اور اب تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا تو اس کو بھی اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔ کبھی کبھی وہ سخت ناامید ہوجاتا ’’میرے اماں ابا نے کس کس طرح میری تعلیم کا خرچ اٹھایا، اور اب میں نہ جانے کب تک نوکری کے حصول کے لیے دھکے کھاتا رہوں گا!‘‘

وہ اکثر سوچتا تھا کہ یہ جو اتنے امیر لوگ ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں، وہ بھی تو اِسی ملک سے کما رہے ہیں، اِسی ملک میں رہتے ہیں، پھر کیوں ہر کوئی یہ راگ الاپتا نظر آتا ہے کہ اِس ملک میں کچھ نہیں رکھا۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اِسی ملک میں کاروبار شروع کیا اور اب ان کی نسلیں اس کاروبار کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ کتنے لوگوں کا روزگار ان بڑے تاجروں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ تو پھر کیوں ہم کو نوکری نہیں ملتی؟ اور اگر ملتی بھی ہے تو دل ہی نہیں چاہتا کہ اتنی تعلیم کے بعد ایسی نوکری کریں۔

لیکن نوکری ہی کیوں…؟ کاروبار… ہاں کاروبار…کاروبار کیوں نہیں کرسکتا!

نوکری نہیں کاروبار۔ کیا اعلیٰ تعلیم نوکری کے حصول کے لیے ہی حاصل کرنی چاہیے؟کیا کاروبار کے لیے بہت سا سرمایہ چاہیے ؟
اُس کا دماغ اُسے کچھ الگ راستے پر لیے جا رہا تھا۔
کیا میں کوئی چھوٹا کاروبار شروع نہیں کرسکتا؟ ایک اور سوال نے سر اٹھایا۔
ابا کیا کر رہے ہیں۔ کیا میں ان کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتا؟ لیکن ابا تو اسکول وین چلاتے ہیں۔ اس میں آگے بڑھنے کا کیا کام ہے! وہ سوچنے لگا… مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تو ابا کے پاس آگیا۔

’’آپ اسکول وین چلاتے ہیں تو ہم اس کو کاروبار کیسے بنا سکتے ہیں؟‘‘
’’اتنا پڑھ لکھ کر؟‘‘ ابا نے حیرت سے پوچھا۔

’’ ابا میں نوکری نہیں کرنا چاہتا بلکہ نوکری دینا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کی بات سن کر ابا کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ انہوں نے دل میں سوچا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو کاروبار کو ہی اہمیت دی ہے۔ پھر کہا ’’بیٹا میں خود بھی دل سے یہی چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ مل کر کام کرو، ہم اسی کام کو بہت آگے تک بڑھا سکتے ہیں۔ میں نے کچھ رقم پس انداز کی ہوئی ہے۔‘‘

اور اس کو پھر نئے راستے دکھائے اور دونوں نے مل کر ایک وین اور لی، اور آہستہ آہستہ ایک سے دو… دو سے تین… اور پھر اس طرح سے ان کی اسکول وین کی ایک چین بنتی گئی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاحوں کو شہر میں گھمانے اور پکنک پر لے جانے کا کام بھی شروع کردیا۔ اپنے چھوٹے بھائی اور چچا زاد بھائی کو بھی ساتھ ملایا۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کسٹمرز سے شائستہ زبان میں بات چیت کرتا اور دوسری زبانوں کو بھی بول اور سمجھ لیتا۔
اب وہ کبھی کبھی سوچتا ہے کہ اگر اس نے نوکری کی ہوتی تو آج کسی کے زیردست کام کررہا ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو درست راہ دکھائی اور اس نے کاروبار کا راستہ چنا، جس کی بدولت آج معاشرے میں اس کا ایک مقام ہے اور کتنے ہی لوگوں کا روزگار اس کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ یقینا کوئی کام بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ دل سے کام کرنے میں ہی کامیابی ہے جو ہم اِس ملک میں رہ کر بھی کرسکتے ہیں۔ ابھی بھی ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو دشمنوں سے محفوظ رکھے ورنہ آج کا نوجوان تو تاریک راستوں کا مسافر بن گیا ہے۔ بس اس راستے میں ایک دیا روشن کرنے کی ضرورت ہے، پھر اِن شاء اللہ دیے سے دِیا جلتا جائے گا۔

حصہ