کمال نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے تقدیر میں کوئی بات لکھ ہی دی گئی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ورنہ انشا اللہ ہم کامیاب ہی لوٹ کر آئیں گے بس آپ ہماری وہاں تک رہنمائی فرما دیں باقی جو ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ڈالی جا رہی ہے، انشا اللہ ہم وہ پوری کرکے ہی دم لیں گے۔
کیا ہمارے والد صاحب بھی ہمارے ہمراہ ہونگے، جمال اور کمال نے پوچھا۔ نہیں، بلکہ اب وہ آپ کو آپ کی قیام گاہ پر بھی نہیں ملیں گے۔ میں نے انہیں اپنی خاص رہائش گاہ منتقل کر دیا ہے اور ہر قسم کے حالات سے انھیں آگاہ کر دیا ہے۔ تمہارے آئندہ کے لائحہ عمل کے متعلق بھی انہیں تفصیل آگاہ کر دیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تم دونوں کے آئندہ کے لائحہ عمل کے متعلق جب ان کو آگاہ کیا گیا تو ان کے چہرے پر کسی بھی قسم کی تشویش کے آثار نہیں پائے گئے بلکہ ساری تفصیل سن کر انہوں نے یہی کہا کہ اللہ نے چاہا تو میرے بیٹے کسی نہ کسی خوش خبری کے ساتھ لوٹیں گے۔
ابھی ایک گاڑی آپ کو آپ کی رہائش گا تک جھوڑ کر واپس آ جائے گی لیکن آپ کے پاس کل آدھا گھنٹہ ہو گا جس میں آپ کو اپنی مہم کےلیے ہر قسم کی تیاری کرنا ہوگی۔ جو جو کپڑے آپ کو زیبِ تن کرنے ہیں کر لینے ہونگے۔ جو جو بھی ضروری سامان اپنے ساتھ رکھنا آپ ضروری سمجھتے ہونگے رکھنا ہے۔ آپ کےلیے ایک دوسری گاڑی ٹھیک آدھے گھنٹے بعد پہنچے گی۔ اس میں آپ کو سوار ہو جانا ہے۔ یہ گاڑی آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر چھوڑ آئے گی۔ وہاں سے آگے آپ کس طرح جائیں گے، یہ آپکا کام ہے۔ ہمیں یہی ہدایات ملی ہیں اس لیے ہم حقیقتاً معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہماری روایات میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہم مہمانوں کو کسی ویرانے میں یکا و تنہا چھوڑ جائیں۔
انسپکٹر حیدر علی کو صرف اتنی ہی ہدایات دی گئیں تھیں کہ وہ فاطمہ کو اپنے ہمراہ رکھے۔ پورے راستے اس نے جہاں جہاں بھی قیام کیا وہ وقفے وقفے سے ملنے والی ہدایات ہی کے مطابق ہی تھا۔ اسے یہ علم تو ضرور تھا کہ اس کو جمال اور کمال پر مسلسل نظر رکھنی ہے لیکن یہ علم نہیں تھا کہ یہ نگرانی اتنی منصوبہ بندی سے کی جائے گی کہ جمال اور کمال جیسے چاق و چوبند بچوں کو بھی تعاقب کئے جانے کی خبر نہیں ہو سکے گی۔ ہر جگہ گاڑیوں کی تبدیلی انھیں یہ گمان بھی نہ ہونے دے گی کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ یہ انسپکٹر حیدر علی کی یقیناً بھول تھی۔ جمال اور کمال کو اپنا پیچھا کئے جانے کا تو کسی حد تک گمان تھا اور یقین کی حد تک تھا، لیکن وہ بہر حال یہ جان لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے کہ اگر کوئی ان کے تعاقب میں ہے تو وہ کون ہے اور اس تعاقب کا مقصد کیا ہے۔ فاطمہ جو انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ تھی، وہ تو آغازِ سفر میں ہی اس بات کو جان چکی تھی کہ آگے جانے والی گاڑی کا تعاقب کیا جا رہا ہے لیکن وہ اس بات کو قطعاً نہیں جان سکی تھی کہ آگے جانے والی گاڑی میں کون کون ہے۔ بارہا اس نے کوشش کی کہ وہ جان سکے لیکن جہاں جہاں ان کا قیام رہا، وہ آگے جانے والی گاڑی سے اترنے والی گاڑی سے ہمیشہ اگلے ہوٹل میں رہا۔ فاطمہ کو اس بات کا اندازہ بھی بہ خوبی ہو چکا تھا کہ انسپکٹر حیدر علی کو نہ صرف یہ علم رہا ہوگا کہ اگلی گاڑی میں کون ہے بلکہ انسپکٹر حیدر علی کو یہ بھی ضرور معلوم رہا ہوگا کہ اگلی گاڑی کے مسافروں کی آخری منزل کونسی ہے۔ تعاقب کے اصولوں کو وہ بھی خوب سمجھتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تعاقب کرنے والے تعاقب کی جانے والی گاڑی سے کئی کئی کلومیٹر آگے جا کر قیام کریں یا گاڑی بدلنے میں کہیں کہیں اتنی دیر لگائیں کہ آگے جانے والی گاڑی کو دوباہ پانا مشکل ہو جائے کیونکہ آگے جانے والے کسی بھی موڑ پر اپنا راستہ بدل سکتے ہیں۔ یہ سب اندازے قائم کرنے کے باوجود بھی فاطمہ نے نہ تو انسپکٹر حیدر علی سے اپنے شک کا اظہار کیا اور نہ ہی بار بار گاڑیاں بدلنے پر وضاحت طلب کی۔ یہی بات اس کی برد باری اور کم عمری میں بھی بہت پختہ انداز فکر کی دلیل تھی۔ ادارے نے بھی اسے نہیں بتایا تھا کہ جمال اور کمال کسی مہم پر بھیجے جا رہے ہیں۔ اسے بس یہی کہا گیا تھا کہ جن جن کے ساتھ اسے ادارہ ٹریننگ کےلیے شامل کرتا رہا ہے، ان میں سے ایک فرد ادارے کے ساتھ بغاوت کر گیا ہے اور بغیر کسی اطلاع، اس نے راہِ فرار اختیار کر لی ہے۔ ادارہ سمجھتا ہے کہ شمالی علاقوں میں جس طرح کی وارداتیں ہو رہی ہیں، اس میں اُسی کا ہاتھ ہے۔ خاص طور سے عسکری ٹیموں کے جو جو افراد اغوا یا قتل کئے جا رہے ہیں، اس میں اس کا مرکزی کردار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ادارے کے کئی اہم مقامات اور رازوں سے واقف ہے اس لیے اس کا ڈھونڈا جانا بہت ضروری ہے۔ تمہارا کام یہ پتا لگانا ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔ اتنا ادارے کو اندازہ ہے کہ وہ شمالی علاقے میں کہاں کہاں پایا جا سکتا ہے لہٰذا انسپکٹر حیدر علی تم کو جہاں جہاں لے جائیں وہاں ہوٹلوں، بازاروں اور مختلف ریسٹ ہاؤسز میں اسے تلاش کرو۔ یہ سن کر فاطمہ نے حیرت سے کہا کہ میں اسے کیسے تلاش کر سکوں گی تو جواب میں کہا گیا کہ تم ہی ہو جو اس کو تلاش کر سکتی ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم جانی پہچانی شخصیت کی مہک کو سونگھ لینے کی قدرتی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہم نے اپنے سینٹر میں تمہیں بارہا ٹریننگ کےلیے بلایا ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق اگر تم کسی ایسے فرد کے قریب سے گزرو گی جس کے ساتھ ٹریننگ لیتی رہی ہو تو تم اسے ضرور پا لوگی۔ ایسا محسوس ہوتے ہی تم انسپکٹر جمشید کو فوراً آگاہ کر دینا تاکہ وہ ایسے فرد کے خلاف مناسب کارروائی کر سکے۔(جاری ہے)