راشد نور کے ساتھ ایک شام اور مشاعرہ

305

کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام معروف شاعر‘ صحافی راشد نورکے ساتھ ایک شام منائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ اس پروگرام کے پہلے حصے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی نے کی جب کہ ڈاکٹر حنا عنبرین طارق نے پروگرام کی نظامت کی۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ راشد نور نے نظامت کاری‘ صحافت اور شاعری میں نام کمایا ہے‘ وہ ادبی منظر نامے کا معتبر حوالہ ہیں‘ ان کی شاعری میں سہل ممتنع نمایاں ہے۔ وہ زندگی کے تمام روّیوں پر کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ اب وہ کراچی سے امریکہ منتقل ہو گئے ہیں۔

جاوید صبا نے کہا کہ راشد نور کی زندگی کی شعر و سخن کی ترقی میں گزر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں بہت سے قلم کاروں کو پروموٹ کیا اور بے لوث کام کیا۔ یہ سنجیدہ مزاج انسان ہیں‘ ان کے والد صاحب قادرالکلام شاعر تھے۔ شاعری راشد نورکے خون میں شامل ہے‘ ان کی غزلوں کا مجموعہ زیر اشاعت ہے۔

خالد معین نے کہا کہ راشد نور بہت حساس شخصیت کے مالک ہیں‘ ان کے شعری سفر میں ان کا ایک کالم ’’بازگزشت‘‘ مشہور ہوا۔ ان کی شاعری میں چھوٹی بحروں میں کافی اشعار پائے جاتے ہیں‘ ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’لمحہ موجود‘‘ ہے جو کہ عن قریب مارکیٹ میں آنے والا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت معروف صحافی اور شاعر اختر سعیدی کے ذمے ہیں جو کہ راشد نور کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں انہوں نے راشد نور کے لیے ایک نظم پڑھی جس میں راشد نور کے فن اور شخصیت پر بھرپور روشنی ڈالی گئی۔

ڈاکٹر سعید خاور نے کہا کہ کراچی پریس کلب ایک ایسا ادارہ ہے جو صحافت کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی ترقی میں بھی بے حد فعال ہے۔ ہمارے ادارے میں تمام ادبی تنظیموں کے لیے مواقع میسرہیں کہ وہ اپنے پروگرام ہمارے یہاں کریں‘ ہم نے صحافی دوستوں کے لیے بہت سی سہولیات رکھی ہیں۔ راشد نور کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے انہوں نے اپنے معاشرے کا بہ غور مطالعہ کیا ہے اور زمانے کی ناقدریاں ان کے اشعار میں نمایاں ہیں۔

علاء الدین خانزادہ نے کہا کہ کراچی پریس کلب ایک معتبر ادارہ ہے‘ ہم صحافیوں اور شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں‘ آج ہم نے راشد نور کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے محفل سجائی ہے جو کہ بہترین انسان ہیں‘ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں‘ سہل ممتنع میں اشعار کہتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں‘ ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے‘ ان کے اشعار میں معاشرے کے رنج و غم نظر آتے ہیں۔ ان کی نظمیں بہت تروتازہ ہیں‘ ان کی غزلوں میں غنائیت اور شعری محاسن موجود ہیں‘ ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ انہوں نے صحافتی میدان میں بڑی محنت کی ہے‘ ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ادبی خدمت کرتے رہے‘ ان کی والد نور بریلوی ایک مستند شاعر تھے‘ وہ حمد و نعت کے حوالے سے بہت مشہور ہوئے‘ ان کے کلام میں غزلیات شامل ہیں۔ راشد نور کی مصروفیت نے انہیں وقت نہیںدیا اس لیے ان کا شعری مجموعہ ابھی تک نہیں آسکا لیکن سنا ہے کہ اب بہت جلد وہ منظر عام پر آجائے گا۔

اخلاق احمد نے کہا کہ راشد نور نے بڑی محنت کی ہے‘ وہ دل شکن حالات میں بھی صحافت سے اپنا رشتہ جوڑے رہے‘ انہوں نے حق وصداقت کی آواز بلند کی‘ وہ زمانے میں اچھائیاں پھیلانا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے خلوصِ دل سے عوام الناس کو اپنے اشعار سنائے‘ وہ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف نبرد آزما ہیں‘ ان کے یہاں مزاحمتی اشعار بھی نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے غزل کے روایتی مضامین سے منہ نہیں موڑا۔

راشد نور نے اس محفل میں اپنے اشعار سنا کر خوب داد حاصل کی انہوں نے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس ادارے کے لیے میرے یہ پروگرام ترتیب دیا جس میں کراچی کے بہت سے اہم قلمکار شریک ہیں‘ آج کی یہ نشست بہت یادگار ہے اس میں بہت اچھی شاعری اور خوب صورت گفتگو کی ہے میں تو اردو ادب کا ایک طالب علم ہوں‘ میں نے جن صاحبان عقل و دانش سے کچھ فیض کیا ان میں حامد مد نی اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم شامل ہیں۔ دبستانِ کراچی میں بہترین شاعری ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی انتہائی ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیے‘ وہ کسی شخص سے مرعوب نہیں ہوئے۔ انہوں نے سچائیاں رقم کی ہیں‘ انہوں نے جو انٹرویوز کیے ہیں ان کی اشاعت کا ارادہ ہے تاہم ان کا شعری مجموعہ بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔

عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ راشد نور نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل ان کی شناخت ٹھہری۔ غزل کہنا ایک مشکل عمل ہے کہ اس کے لیے وسیع مطالعے اور مختلف النوع کے مضامین درکار ہوتے ہیں۔ غزل کے ایک شعر ایک انتہائی چھوٹی نظم کہلاتا ہے۔ راشد نور غزل کے بہترین شاعر ہیں اور نظموں میں بھی دسترس رکھتے ہیں‘ ان کی وجۂ شہرت میں صحافت اور نظامت کاری بھی شامل ہیں۔ میں کراچی پریس کلب کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے ایک جینوئن قلم کار کی حوصلہ افزائی کے لیے محفل سجائی۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے صدارتی خطاب میں کہا کہ کراچی پریس کلب ادبی خدمات کے حوالے سے بھی قابل ستائش ہے یہاں کی پروگرام بہت شان دار ہوتے ہیں جس کا کریڈٹ ادبی کمیٹی اور دیگر افراد کو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی محفل کے مرکزِ نگاہ معروف شاعر و صحافی راشد نور بدلتے ہوئے وقتوں کے ساتھ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ وہ شائستہ مزاج شخصیت ہیں‘ وہ اردو ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد سے بھی استفادہ کیا ہے ان کی شاعری میں اسلامی نوعیت کے مضامین بھی نظر آتے ہیں۔ رثائی ادب سے بھی انہیں محبت ہے اور وہ غزل میں بھی نئے نئے تجربات سے گزر رہے ہیں ان کی عزت و شہرت میں ترقی ہو رہی ہے۔ اب راشد نور نے بھی الیکٹرانک میڈیا سے دوستی کر لی ہے۔ ہم ان کا کلام اور ان کے کالمز الیکٹرانک میڈیا میں پڑھ سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ راشد نور مزید عزت و شہرت حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ڈھیروں خوشیاں نصیب فرمائے۔

تقریب میں اختر سعیدی‘ عنبرین حسیب عنبر‘ راشد نور‘ علاء الدین خانزادہ‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ ڈاکٹر عنبرین طارق‘ احمد امتیاز‘ سحرتاب رومانی‘ کشور عدیل جعفری‘ خورشید احمد‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار اور رانا خالد محمود نے کلام پیش کیے۔

حصہ