تھیلے سیمیا:خون کی ایک موروثی بیماری

363

عمیر ثناء فائونڈیشن گزشتہ 20سال سے تھیلے سیمیا کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہے

ہم میں سے اکثر لوگ تھیلے سیمیا کے نام سے تو واقفیت رکھتے ہوں گے لیکن شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ یہ خون کی ایسی بیماری ہے جس میں کوئی مبتلا ہو تو پھر اُس کی زندگی کتنی مشکل بن جاتی ہے یہ احساس کرنا بھی شاید مشکل ہو، کیونکہ ان افراد کو زندہ رہنے کے لیے تقریباً ہر ماہ ہی خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے اور پیچیدہ ہونے کے ساتھ ایک مہنگا عمل بھی ہے۔ مریض اور اس کے قریبی رشتے دار جس امید اور ناامیدی کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں اس کرب و تکلیف کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔

تھیلے سیمیا خون کی ایک موروثی خرابی ہے جو ہیموگلوبین کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے۔ ہیموگلوبین ایک پروٹین ہے جو خون کے سرخ خلیات میں پایا جاتا ہے اور جسم کے مختلف حصوں تک آکسیجن پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تھیلے سیمیا میں ہیموگلوبین کی کمی کی وجہ سے جسم کو کافی آکسیجن نہیں مل پاتی، جس کے نتیجے میں تھکاوٹ، کمزوری اور دیگر علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

تھیلے سیمیا دنیا بھر میں صحت کا ایک عام مسئلہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت(WHO) کے اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار بچے تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بیماری خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم، مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں عام ہے۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً پانچ ہزار بچے تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بیماری ملک کے تمام حصوں میں پائی جاتی ہے، لیکن بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں زیادہ ہے۔

اقسام اور علامات:
تھیلے سیمیا کی دو بنیادی اقسام ہیں:
٭بیٹا تھیلے سیمیا: یہ سب سے عام قسم ہے اور اسے ’’مڈائٹیرینین انیمیا‘‘ یا ’’کولیس انیمیا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
٭الفاتھیلے سیمیا: یہ بیٹا تھیلے سیمیا سے کم عام ہے اور اس کی علامات کم شدید ہوتی ہیں۔
تھیلے سیمیا کی علامات کی شدت اس بات پر منحصر ہے کہ بیماری کی کس قسم کا شکار ہیں اور اس کی شدت کتنی ہے۔ علامات میں شامل ہوسکتے ہیں:
٭تھکاوٹ٭کمزوری٭سانس لینے میں دشواری٭پیلاپن٭بڑھا ہوا جگر ٭چہرے کی ہڈیوں کی غیر معمولی شکلیں٭ بچوں کی سست نشوونما اور بلوغت میں تاخیر٭ ہلکا سر یا سانس کی قلت ٭ سیاہ پیشا ب

وجوہات:
تھیلے سیمیا ایک موروثی بیماری ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔ اگر دونوں والدین تھیلے سیمیا کے کیریئر ہیں، تو اُن کے بچے کو بیماری کی شدید شکل ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
تشخیص:

تھیلے سیمیا کی تشخیص عام طور پر خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان ٹیسٹوں میں ہیموگلوبین کی سطح اور قسم کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جینیاتی ٹیسٹنگ بھی تھیلے سیمیا کی تشخیص کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

علاج:
تھیلے سیمیا کا کوئی علاج نہیں ہے، لیکن علاج علامات کو بہتر بنانے اور زندگی کے معیار کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔ علاج میں شامل ہیں:

٭خون کی منتقلی: یہ تھیلے سیمیا کے لیے سب سے عام علاج ہے۔ صحت مند شخص کا خون بیمار شخص کے جسم میں منتقل کیا جاتا ہے۔

٭آئرن کی تھراپی: تھیلے سیمیا کے مریضوں کو اکثر آئرن کی تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کا جسم آئرن کو اچھی طرح جذب نہیں کرپاتا۔

٭دوا: کچھ دوائیں تھیلے سیمیا کے مریضوں میں ہیموگلوبین کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد کرسکتی ہیں۔

٭بون میرو ٹرانسپلانٹ: یہ ایک انتہائی علاج ہے جو صرف شدید تھیلے سیمیا کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ میں مریض کو ایک صحت مند شخص سے بون میرو کی پیوند کاری کی جاتی ہے۔
پاکستان میں تھیلے سیمیا صحت کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے پر اثر پڑتا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچوں کی جان چلی جاتی ہے، اور جو بچ جاتے ہیں وہ اکثر صحت کے شدید مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عمیر ثناء فائونڈیشن گزشتہ 20سال سے تھیلے سیمیا کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھا کہ تھیلے سیمیا کا ملک میں تیزی سے پھیلنا تشویش ناک ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ آگاہی مہم کے باوجود تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ ڈاکٹر ثاقب کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے خاتمے کے لیے سرکاری ونجی ادارے مشترکہ جدوجہد کریں تاکہ ’تھیلے سیمیا سے محفوظ پاکستان‘ کا خواب پورا ہوسکے، پاکستان میں ہر سال 5 ہزار بچے تھیلے سیمیا کا مرض لے کر پیدا ہورہے ہیں، یہ مرض والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اگر ماں اور باپ تھیلے سیمیا مائنر کا شکار ہوں تو 25 فیصد امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ تھیلے سیمیا میجر کا ہوگا۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس مرض میں خون بننے کا عمل رک جاتا ہے، اس کے نتیجے میں مریض کو ہر پندرہ دن بعد خون لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شادی سے قبل تھیلے سیمیا کے ٹیسٹ کے ذریعے ہی اس مرض کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔

تھیلے سیمیا ایک سنگین بیماری ہے، لیکن علاج اور روک تھام کے اقدامات کے ذریعے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان تھیلے سیمیا کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ کام نہیں کررہی ہے۔ اس بیماری سے نمٹنے کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنا اور خون کے عطیات کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔تھیلے سیمیا ایک سنگین بیماری ہے، لیکن یہ روک تھام اور علاج کے ذریعے قابلِ انتظام ہے۔ اگر آپ تھیلے سیمیا کے بارے میں فکرمند ہیں، تو اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔

حصہ