’’مدرز ڈے‘‘فلسطینی مائوں کے نام

کے حوالے سے آج مجھے دنیا کی سب مائوں کے ساتھ فلسطین کی مسلمان مائیں بھی یاد آرہی ہیں جو 7 اکتوبر 2023 سے دن رات اپنے بچوں کی لاشیں سینے سے لگا رہی ہیں‘ آنکھوں میں آنسو اور زبان پر ’’الحمدللہ‘‘ ہے۔ یا اللہ! تو نے ان کے دلوں کو اپنی رحمت سے کس قدر طاقت بخشی ہے کہ وہ ہر لمحہ تیرے شکر سے غافل نہیں ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے شہید بچے جنت میں ان کے داخلے کے سبب بنیں گے۔

ہم مسلمان تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اور احادیث کے بموجب ہر دن ماںکا دن ہے اور اس کی فضیلت اس حد تک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیروں کے نیچے جنت رکھ دی۔ وہی جنت جس کا طول و عرض زمین و آسمان جتنا ہے۔ ماں کی توقیر اور عظمت سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ فلسطین میں اسرائیل کے ظلم و ستم کی انتہا نے زمین کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک اس ظلم و درندگی میں لب سیے ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس دہشت ناکی پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ ماں کی آہ و فغاں تو براہِ راست عرش کو ہلا دیتی ہے۔ مگر فلسطینی مائوں کا صبر انہیں شکوے سے باز رکھے ہوئے ہے۔

ہمارے گھر میں اگر کوئی ایک شخص دہشت گردی کا شکار ہو جائے تو گھر کی عورت بے قرار ہو کر‘ تڑپ کر باہر نکل آتی ہے۔ آفرین ہے ان مظلوم مائوں پر جو دن رات اولاد کا زخم سہہ رہی ہیں اور کبھی سر کھولے‘ بال بکھرائے‘ نوحے پڑھتے نظر نہیں آتیں۔ وہ صبر اور شکر کی تصویر بنی اپنے ننھے ننھے بچوں کی لاشیں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے حیا کی تصویر بنی اللہ کا شکر کرتی نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ ہر ماں کی طرح میری ماں بھی بہت بہادر خاتون تھیں۔ ہر دکھ‘ تکلیف پر صبر شکر کرنے والی۔ ظلم کرنے والے کو معاف کر دینے والی اور ہر ایک کی خدمت کرنے والی۔ پورے خاندان کے بچے انہیں ’’خالہ جان‘‘ کہتے تھے۔ خواہ وہ چچا زاد بہن بھائی ہوں یا ماموں زاد۔ وہ اپنے زمانے کی پڑھی لکھی خاتون تھیں مگر پڑھی لکھی خواتین سے بہت بہتر اور اعلیٰ ظرف رکھنے والی۔

ان کا فلسفۂ زندگی صرف قربانی دینا اور سب کو معاف کر دینا تھا۔ وہ ہر شخص سے محبت اور پیار سے ملتی تھیں۔ دوسروں کی خامیوں کی پردہ پوشی کرنے والی اور اپنے سینے کو کینے سے پاک رکھنے والی۔

امی کا تعلق مغلیہ شاہی خاندان سے تھا مگر پاکستان کے قیام کے بعد جب اپنی ساری جاگیر اور دولت ہندوئوں کو دے کر چلی آئیں تو اس کے بعد انہوں نے کبھی اس دولت اور جائدادکا ذکر تک نہیں کیا۔ ان کے اپنے چچازاد بہن بھائیوں نے ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر ساری جائداد اپنے نام کرا لی تھی تب بھی اُنہیں کسی چیز کا قلق نہ ہوا۔ ہمیشہ محبتوں کو فروغ دینے والی میری امی سادہ مزاج‘ سب پر جلدی بھروسہ کر لینے والی تھیں۔ ہم لوگ اگر کسی کے ظلم و زیادتی کی بات کرتے وہ فوراً ٹوک دیتیں ’’بیٹا اپنی زبان کو غیبت سے پاک رکھو‘ غیبت کرنا بڑا گناہ ہے۔‘‘ جب ہم لوگ انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ فلاں شخص واقعی ایساہے تو وہ معصومیت سے کہتیں ’’تمہیں کیا پتا‘ تم بدگمانی مت کرو۔‘‘ بس یہیں ہم لوگوں کی بولتی بند ہو جاتی۔ اس ’’صبر و شکر‘‘ نے ان کی زندگی کو بہت آسان بنا دیا تھا۔ نہ کسی سے گلہ‘ نہ شکوہ۔ اپنے کام سے کام رکھنا۔ ہمیشہ دوسروں کے کام آنا۔ مقدور بھر م کرنا۔ بہت سارے لوگ ایسے تھے جو ان سے ملنے آتے اور وہ ضرورت مند ہوتے تو ان کی ضرورت اتنی خاموشی سے پوری کرتیں کہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے کو خبر نہ ہوتی۔

ہم لوگوں کو بھی ہمیشہ ہاتھ کھلا رکھنے کی ہدایت کرتیں۔ اللہ سے ہمیشہ آسان موت کی دعا کرتیں۔ پیار کرنا اور محبتوں کو پھیلانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا۔
محلے والوں کا بہت زیادہ خیال رکھتیں۔ پڑوسیوں کو روزانہ کچھ نہ کچھ پکا کر بھیجتیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت بہت ساری ہندو لڑکیوں کو ان کے گھروں میں پہنچایا جب کہ خود ہمارے گھر ہندوئوں کے ہاتھوں محفوظ نہ تھے۔ میں سوچتی ہوں ایسی آئیڈیل مائیں اب فلسطینی مائوں کے روپ میں نظر آرہی ہیں۔

کینیڈا سے میری ایک عزیزہ جو ڈاکٹر ہیں‘ وہ فلسطین کے زخمیوں کے لیے غزہ پہنچیں تو انہوں نے بتایا کہ غزہ میں لوگ فاقے کر رہے ہیں مگر وہاں کے لوگ اتنے مہمان نواز ہیں کہ اگر ان کو تھوڑا سا بھی میسر آجاتا ہے تو وہ ہم جیسے (ڈاکٹر) کو کھلانے میں پہل کرتے ہیں۔ وہ ایثار اور قربانی کی تصویر ہیں۔ دوسرے پیاسوں کو پانی پلانے والے‘ دوسرے بچوں کو کھانا کھلانے والے۔ وہ احادیث پر عمل کرنے والے ہیں۔ ان کی عورتیں غزوۂ احد کی مسلمان خواتین کی طرح اپنے باپ‘ بھائی اور بیٹے کی شہادت پر بھی باحجاب نظر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’ہم نے باپ‘ بھائی‘ بیٹا کھویا ہے حیا تو نہیں کھوئی۔‘‘ سلام ہے ان فلسطینی مائوں کو جو اپنے چار‘ چار بیٹوں کی کفنائی ہوئی لاشوں کے پاس کونے میں صبر و شکر سے بیٹھیں ’’الحمدللہ‘‘ کہہ کر بیٹوں کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔

میری ماں بھی ایسی ہی باہمت خاتون تھیں۔ ہر مشکل پر صبر اور شکر کرنے والی‘ ہر تکلیف کو مسکرا کر برداشت کرنے والی۔ ان کا مقصدِ حیات صرف خدمت اور محبت کرنا اور محبت پھیلانا تھا۔ کاش آج ہم سب بھی محبت کو مقصدِ حیات بنا لیں تو زندگی کا سفر آسانی سے کٹ جائے۔ شکر کو زبان کا کلمہ بنا لیں تو اللہ تعالیٰ ہماری مشکلات کو آسان کر دے۔ کسی فلسطینی ماں کو ابھی تک خدا سے شکوہ کرتے نہیں سنا‘ نہ اُنہیں کسی سے شکایت ہے۔ نوجوانوں کو اللہ کی راہ میں بھیج کر ہر ماں مطمئن ہے کہ آخر جنت میں تو سب سے ملاقات ہونی ہے۔ یہ زندگی تو ویسے بھی چند روزہ ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ کاش یہ فلسفۂ حیات ہر ماں سمجھ لے۔

فلسطین میں امریکی سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک تقریباً 35 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں 13 ہزار بچے ہیں جب کہ شہید مائوں کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ چکی ہے اس کے علاوہ 19 ہزار زخمی ہیں۔ ہر روز اوسطاً 37 بچے مائوں کی ممتا سے محروم ہو رہے ہیں۔

مسلم ممالک غزہ کی نسل کشی پر خاموش ہیں۔ اہلِ فسلطین کی مدد اور نصرت کے لیے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے طلباء کا احتجاج تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ انڈیانا کی وائس ڈین غزہ کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے زار و قطار رورہی ہیں۔ امریکہ کی قدیم یونیورسٹی پرسٹن کے طلباء نے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ اس میں طالبات بھی شامل ہیں۔ اہلِ غزہ کے صبر و ثبات برداشت و تحمل ایمان و ایقان نے ناممکن کو ممکن بنا کر رکھ دیا ہے۔

آج ساری دنیا میں ’’مدرز ڈے‘‘ منایا جا رہا‘ میں حیران ہوں کہ مدرز ڈے منانے والوں کو فلسطینی مائیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ ماں اور بچے کو ختم کرکے اسرائیل فلسطین میں نسل کشی کر رہا ہے‘ اس کے ہاتھ توڑنے والے دَم سادھے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی غیرت کو جگا دے۔ حکمران کاسہ لیے اِدھر اُدھر پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ فلسطین کو اسرائیل کے دجالی فتنے سے نجات دے۔

nn