قاتل ویکسین کی سوشل میڈیا پر گونج

431

9مئی کا سکہ:
9 مئی بہانہ پی ٹی آئی نشانہ، 9 مئی یوم فسطائیت، انتشاری ٹولہ، ڈی جی آئی ایس پی آر، نہ چھوڑا نہ چھوڑیں گے، 9مئی فالس فلیگ، عمران خان فائٹنگ فار پاکستان، مفاہمت نہیں مزاحمت کرو، 9مئی نیور اگین سمیت کئی ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتے نظر آئے۔ ایک جانب حکومتی ٹیم تھی جو 9 مئی کے یوم سیاہ کو ملک و قوم کے لیے ایک تکلیف دہ دن بتاتی رہی، 9 مئی کرنے والوں کو غدار ٹائپ کا درجہ دیتی رہی۔ دوسری جانب عمران خان کے چاہنے والے اپنے پرانے کلپس اور عدالتی کارروائی کے بیانیوں کے ساتھ عام معافی اور مذاکرات کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ اس میں گزشتہ سال 9 سوال والی وڈیو چلائی گئی۔ فسطائیت قرار دے کر اچھے دن دوبارہ آنے کی امید ظاہر کی گئی۔ اپنی حب الوطنی کے دلائل دیے گئے۔ جو بھی ہو، مجھے تو اِس بار ٹوئٹر پر پابندی کی وجہ سے مجموعی طور پر سوشل میڈیا دباؤ میں پہلے کی نسبت فرق محسوس ہوا۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو پیغام دیا گیا اُس کا مطلب بھی ’’نو لِفٹ‘‘ ہی تھا۔ وزیراعظم شہبازشریف ایک سال بعد بھی فرما رہے تھے کہ’’9مئی کے ملزمان کو قرار واقعی سزا ملے گی تاکہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں۔‘‘ ویسے کتنی اہم بات ہے کہ لوگ اتنے فخر سے احتجاج و توڑ پھوڑ کرکے اپنی وڈیوز بناتے رہے، انٹرویوز دیتے رہے، ان کو اپ لوڈ کرتے رہے، بعد میں یہی وائرل وڈیوز ان کی گرفتاری میں استعمال ہوئیں اور اُن کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ سوشل میڈیا کا منہج مستقل مجبور کرتا ہے کہ آپ اپنا اظہار کریں، وہ ’’ری پریزینٹیشن‘‘چاہتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ لوگ عمرہ کی عبادت کریں، حج کریں، روزہ افطار کریں، نماز پڑھیں۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر ہی سب اعمال و افعال کا اظہار کرتے ہیں۔ عمران خان نے تو لوگ ہی سوشل میڈیا کے تیار کیے ہیں، تو کیسے ممکن تھا کہ 9 مئی کے اعمال و افعال کرتے وقت وہ اُس کا ’’اظہار‘‘ نہ کرتے! میں بار بار بتاتا رہتا ہوں، ایک نہیں ہمارے درمیان دسیوں مثالیں روزانہ کھڑی ہوتی ہیں۔ اب یہ سوشل میڈیا ریاکاری سے بھی آگے کی چیز نظر آتا ہے، کیونکہ ’ریا کاری‘کے معاملات تو محض کچھ ہی ناظرین کے سامنے زبانی اظہار تک محدود تھے، یا بہت سے بہت کسی ایسے شخص کے سامنے تھے جس کو بتانا یا جتانا مقصود ہو، مگر سوشل میڈیا پر اس کا دائرہ عالمی بن جاتا ہے۔

قاتل ویکسین:
وی پی این کی مجبوری کی وجہ سے برطانیہ کے بھی ٹرینڈز لائن میں آجاتے ہیں۔ ان میں جب مشہور کورونا ویکسین Astrazenecaکو دیکھاتو چونک اُٹھا۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عائشہ غازی نے ایک خوفناک تصویر کےساتھ مطلع کیا کہ ’’AstraZeneca کووڈ ویکسین نے اپنا انجیکشن تیار کرنا بند کردیا ہے اور اب اسے یورپی یونین کی مارکیٹ سے واپس لے لیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے عدالت میں تسلیم کیا ہے کہ ان کی پروڈکٹ خون جمنے کے شدید ضمنی اثرات کا سبب بن سکتی ہے۔ برطانوی عدالت میں پچاس افراد کی طرف سے 100 ملین پاؤنڈ جرمانہ اس کمپنی سے مانگا گیا تھا۔ کمپنی کیا لکھیں یہ تو دنیا کی مشہور ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ کی تیار کردہ ویکسین تھی۔ یہ وہ 50 افراد تھے جو اس ویکسین سے مختلف طریقوں سے متاثر ہوئے تھے۔کمپنی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ویکسین نے ایک خاص اثر پیدا کیا جس نے بہت کم خاندانوں پر تباہ کن اثر ڈالا ہے۔ پہلا کیس پچھلے سال دو بچوں کے والد جیمی اسکاٹ نے درج کروایا تھا، جسے خون کے لوتھڑے بننے اور دماغ پر خون آنے کے بعد دماغ میں مستقل چوٹ لگی تھی جس نے اُسے اپریل 2021 ء میں ویکسین لگنے کے بعد کام کرنے سے روک دیا تھا۔ اسپتال سے اس کی بیوی کو تین بار فون کرکے بتایا گیا کہ اس کا شوہر مرنے والا ہے۔ آسٹرا زینیکا دعووں کا مقابلہ کررہی ہے لیکن فروری میں ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک قانونی دستاویز میں اس نے قبول کیا ہے کہ اس کی کوویڈ ویکسین آسٹرا زینیکا کچھ معاملات میں TTS کا سبب بن سکتی ہے، یعنی خون جمانے کا۔ ظاہر سی بات ہے اگر خون جم جائے گا تو فالج، ہارٹ اٹیک سمیت بے شمار نتائج سامنے آسکتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی اور سیرم انڈیا کے تعاون سے تیار کردہ آسٹرا زینیکا کووڈ ویکسین نے اب اپنا یہ ویکسین انجیکشن تیار کرنا بند کردیا ہے اور مارکیٹ سے بھی واپس لے لیا ہے۔ 3سال بعد یہ ہولناک حقیقت سامنے آئی ہے، ٹیلی گراف کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں پر ٹرائل کرکے یہ ویکسین لانچ کی گئی تھی مگر چند دن بعد ہی ویکسین کے زہریلے اثرات سامنے آگئے تھے لیکن اس کے باوجود ویکسین کو نہیں روکا گیا۔ محض نزلہ، کھانسی و بخار جیسے وائرل کا مقابلہ کرنے کے نام پر پوری دنیا بند کرکے اربوں انسانوں کے جسموں میں زبردستی یہ زہر انڈیلا گیا۔150 ممالک میں یہ خوب بیچی گئی اور کھربوں روپے کمائے گئے۔ لوگ چائنا، جرمنی و برطانیہ کی ویکسین کی تقسیم کے ساتھ ویکسین جسموں میں خوشی و ریاستی جبر سے لگواتے رہے۔ اب 7 مئی 2024 ء کو یورپی کمیشن نے اعلان کیا کہ یہ والی ویکسین استعمال کے قابل نہیں ہے۔ برطانوی-سوئیڈش دوا ساز کمپنی نے پہلے ہی 2021 ء سے ویکسین کے لیے اپنی EU مارکیٹنگ کی اجازت واپس لے لی تھی، جس کا برانڈ Vaxzevria ہے۔ اپریل 2021 ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی اس کے مہلک سائیڈ ایفیکٹ کا ذکر کیا تھا، تاہم سرمایہ دارانہ نظام ایسے تمام امور کے دفاع میں سارے رستے کھول کر رکھتا ہے، اس لیے فیصلہ ہوتے ہوتے 3 سال مزید لگ گئے۔ آبادی ختم کرنے کا جو ہولناک منصوبہ 4 سال قبل تجزیہ کاروں نے پیش کیا تھا، وہ صاف طور پر سامنے آگیا ہے۔ یہ پوری میڈیکل سائنس کھڑی ہی سرمائے کے عنوان سے ہے، اور سرمائے کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں، وگرنہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جب اپریل میں نوٹ کرلیا تھا تو اس کو تب ہی روک دیا جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا کبھی ہوتا بھی نہیں۔

فلسطین بننے والا ہے:
امریکی جامعات میں فلسطین کی آزادی کے لیے جو کچھ مستقل ہورہا ہے، وہ بہرحال ناقابلِ یقین حد تک قابلِ مسرت ہے۔ بات یورپ کی ایلیٹ جامعات تک جا پہنچی ہے۔ امریکا میں سالانہ گریجویشن سرگرمیوں کو جس طرح سبوتاژ کیا گیا،2500 کے قریب گرفتاریاں کی گئیں وہ معمولی بات نہیں ہے۔ سوشل میڈیا امریکی جامعات کی احتجاجی وڈیو کلپس سے بھرا ہوا ہے۔ شروع میں تو مجھے بھی یہ لگا کہ ’لیفٹ‘ اپنے اثرات سے اس موضوع کو ڈھانپ رہا ہے۔ تاہم جب میں نے وہاں کی تصاویر، نعروں اور وڈیوز میں ’تحریک مزاحمت‘ کے نام کے ساتھ حمایت دیکھی، جب میں نے نسل کُشی بند کرنے کے مطالبے کے ساتھ ’انتفادہ‘ کے نعرے سنے اور دیکھے تو لگا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک 1988 ء سے قبل تک ’الفتح‘ اور یاسرعرفات کی صورت ’لیفٹ‘ کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ مگر اب صورتِ حال الگ ہی کروٹ لے رہی ہے۔ تادم تحریر آخری اطلاعات تک ادارئہ اقوام متحدہ فلسطین کو194واں رکن بناکر الگ ملک کی صورت تسلیم کرلے گا۔ عرب دنیا نے بارہا 2 ریاستی حل کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد عملاً دنیا کے سامنے اب فلسطین اور اسرائیل 2 ریاستیں بن جائیں گی۔ ان 7 ماہ کی عظیم قربانیوں اور عزیمت کی داستانوں کا انجام ایسا ہوگا یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو یہ ایک ماہ بعد کرکے ہزاروں مسلمانوں کو مرنے اور غزہ کو مزید کھنڈر ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ سوشل میڈیا پر سخت ردعمل جاری ہے۔ سعودی عرب نے تو سوشل میڈیا پر سخت سنسر لگایا ہوا ہے، اس کے بعد بھی جو لوگ بات کررہے ہیں وہ اُن کو گرفتار کررہا ہے۔ پڑوسی مصر میں سیسی کا حال تو ہم سب جانتے ہیں۔ ملک بننے کے بعد تحریک مزاحمت اور الفتح کے درمیان اقتدار کی رسّا کشی شروع ہوگی اور سب تتربتر ہونے کا غالب امکان ہے۔ اچھا، اس پوری صورت حال میں اسرائیل نے ایک دن بھی خاموشی اختیار نہیں کی، وہ مستقل بمباری کررہا ہے۔ سوشل میڈیا پر معصوم مسلمانوں کی شہادتیں، زخمیوں کی وڈیوز احتجاج اور اشتعال کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔

مالمو میں انتفادہ کی گونج:
انتفادہ کا مطلب ’مزاحمت‘ لیا جاتا ہے جو دینی پس منظر رکھتا ہے۔ سوئیڈن کے شہر مالمو میں یورپ کا سب سے بڑا موسیقی کا مقابلہ اس ہفتے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ مقابلہ ’یورو وژن‘ کی وجہ سے موضوع بنا رہا۔ اسرائیل کے خلاف یورپ کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجEurovision Song Contest میں اسرائیلی گلوکارہ کی شرکت پر ہوا۔ اس میں سوئیڈن ہی نہیں بلکہ یورپ بھر سے ہزاروں افراد نے سوئیڈن کے شہر مالمو کا رخ کیا۔ سوئیڈن کی فضائیں There is only one solution! Intifada revolution! کے نعروں سے گونجنے لگیں۔ مالمو شہر کی سیکورٹی کے لیے سوئیڈش پولیس نے ناروے اور ڈنمارک کی پولیس سے مدد طلب کرلی۔ اس مقابلے میں اسرائیلی گلوگارہ کی شرکت پر عوام نے Eurovisionکے بائیکاٹ کی مہم چلائی، سوشل میڈیا کو بھی خوب استعمال کیا گیا۔ اس کی وجہ بھی مغرب کا ایک تضاد ہی تھا۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ جس طرح روس اور یوکرین جنگ کے باعث روس کے گلوکار کو Eurovision میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی بالکل اسی طرح اسرائیل کی گلوکارہ کو بھی شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ تصور کریں کہ کتنی مضبوط دلیل ہے، کتنی پرفیکٹ مثال ہے، کتنا جامع موازنہ ہے۔۔۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے تمام نعرے، اقدار، نظریات جھوٹ، دھوکے، فریب پر مبنی ہیں۔ جو لوگ یورپ کی اقدار کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، جو لوگ یہ شرمناک دلائل دیتے نہیں تھکتے کہ وہاں تو بس ’’کلمہ پڑھنے کی دیر ہے، باقی سب اخلاقیات اُن کی ہم سے بہت اچھی ہیں‘‘ وہ اب جواب دیں کہ کون سی اخلاقیات ہیں، کون سی جمہوریت ہے کہ پورا امریکا، یورپ احتجاج کررہا ہے مگر مجال ہے جو کان پر جوں بھی رینگ رہی ہو۔ روس اور یوکرین کی جنگ میں یورپ کے حکمران یوکرین کی حمایت میں روسی گلوکار کی شرکت پر پابندی لگا سکتے ہیں مگر عوام کے کہنے پر اسرائیل پر نہیں۔ سوئیڈن میں اس مقابلے کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑتی گئی مگر اسرائیل کی گلوکارہ کو مقابلے سے باہر نہیں کیا گیا جس پر سیمی فائنل سے قبل مالمو شہر میں ایک تاریخی احتجاج ہوا۔ میں سوشل میڈیا پر مظاہرے کی تصاویر اور وڈیوز دیکھ کر حیران ہوگیا۔ تاحد نگاہ فقط فلسطینی پرچم اور عوام کا جم غفیر نظر آیا۔ ہر عمر کے افراد خواتین، مرد، بوڑھے، بچوں سمیت معذور افراد نے بھی شرکت کی۔ مالمو شہر میں 50ہزار کے قریب مسلمان بستے ہیں، لیکن یورپ کے کئی شہروں سے لوگ سفر کرکے یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت سے بھی قافلوں کی شکل میں ہزاروں افراد مظاہرے میں شریک ہوئے۔ عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبیری بھی اس مظاہرے میں شریک تھیں۔ یہ مظاہرہ مالمو شہر کے اہم چوراہے سے شروع ہوا اور شہر کی اہم شاہراہوں پر مارچ کی صورت میں کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ ڈھول اور نقاروں کی چوٹ پر فلسطین کے حق میں نعرے بلند کیے گئے۔ یورپ کے مسلم بغض، نفرت و تعصب کی ایک اور جھلک مقابلے کے اندر نظر آئی جب Eurovision میں سوئیڈن کی نمائندگی کرنے والے گلوکار ایرک سادے کی باری آئی۔ ایرک نے اپنے ہاتھ میں فلسطین کی شال پہن کر گانا گایا، ایسا کرنے پر اُس کو انتظامیہ و دیگر عوام کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے مقابلے پر جب اسرائیلی گلوکارہ Eden Golan اسٹیج پر نمودار ہوئی تو شرکا نے فری فلسطین کے نعرے لگائیے۔ Eurovision گیارہ مئی تک جاری رہے گا، اسرائیلی گلوکارہ فائنل میں پہنچ چکی ہے، لگ ایسا ہی رہا ہے کہ اس کو جِتا دیا جائے گا، تاہم جو ردعمل آرہا ہے اگر عوام مشتعل ہوگئے تو سب کچھ لپٹ جائے گا۔ انتظامیہ نے موسیقی کے اس مقابلے کے خلاف احتجاج کو تقسیم کرنے کی خاطر ایک اور ناپاک حرکت کی۔ مقابلے کے آغاز والے دن پولیس نے گزشتہ جمعہ کو ملعون سلوان مومیکا کے ذریعے قرآن مجید کے مصحف کو جلانے کی اجازت دی۔ سلوان یہ کام ہر تھوڑے عرصے بعد کرتا ہے مگر اِس مرتبہ ریاستی منصوبہ بندی تھی اس لیے باقاعدہ قومی میڈیا پر یہ خبر جاری کی گئی تاکہ ’یورووژن‘ کے خلاف احتجاج کا رُخ تبدیل ہوجائے۔ موسیقی کے اس مقابلے میں یورپ بھر سے مہمان گلوکار آرہے تھے اور ایسا احتجاج سوئیڈن کا تاثر خراب کرتا اس لیے مظاہرین کی توجہ ہٹانے کے لیے 3 مقامات پر قرآن مجید کی بے حرمتی کی اجازت دے کر میڈیا پر خبر کو خوب اچھالا گیا۔ مسلم کمیونٹی نے طے کیا ہے کہ فی الحال ملعون ’سلوان‘ اور اس کے ساتھیوں کے کسی عمل کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے کیونکہ یہ سب مسلمان کمیونٹی کو بھڑکانے کے لیے سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ مسلم کمیونٹی نے ساری توجہ فلسطین اور اسرائیل کے خلاف مرکوز رکھی اور عظیم الشان حاضری کے ساتھ مظاہرے کی تاریخ رقم کر ڈالی۔

حصہ