کراچی میٹرک بورڈ امتحان،عجب کرپشن غضب داستان

402

لیجیے جناب! کراچی میں میٹرک کلاس کے سالانہ امتحانات شروع ہوگئے ہیں۔ میٹرک بورڈ کے تحت شروع ہونے والے ان امتحانات میں 3 لاکھ 65 ہزار ایک سو 3 طلبہ و طالبات نے سائنس اور عام گروپوں میں اندراج کروایا جبکہ 504 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ چیئرمین میٹرک بورڈ نے اس سال ہونے والے امتحانات میں نقل کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے، ان کے مطابق موبائل فون کے استعمال پر سختی سے پابندی اور اسکول سے متصل فوٹو کاپی کرنے والی دکانوں پر نہ صرف نظر رکھی جائے گی بلکہ ایسی تمام دکانوں کو بند کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی تھی، یعنی اِس مرتبہ طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر فیصلے کیے گئے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہاں تک سب ٹھیک رہا، پھر وہی کچھ ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ہزاروں طلبہ و طالبات ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے کے باعث بورڈ کی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے دکھائی دیے، گو کہ اس مرتبہ آن لائن ایڈمٹ کارڈ حاصل کرنے کی سہولت موجود تھی، لیکن یہ سسٹم بھی دباؤ برداشت نہ کرسکا، یعنی یہاں بھی آر ٹی ایس بیٹھ گیا، جبکہ پہلے دن ہی شہر کے مختلف علاقوں میں قائم امتحانی مراکز میں کمپیوٹر کا پرچہ تاخیر سے پہنچنے کی خبریں صبح سے ہی موصول ہونے لگیں۔ جن امتحانی مراکز پر پرچہ بروقت پہنچا وہاں سے بذریعہ واٹس ایپ شہر بھر کی فوٹو کاپی کی دکانوں پر موجود تھا جس کی نشاندہی پر چیئرمین میٹرک بورڈ نے عجیب منطق پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ پرچہ میٹرک بورڈ سے نہیں بلکہ امتحانی مرکز سے آؤٹ ہوا ہے جس کی ذمہ داری کسی بھی صورت کراچی میٹرک بورڈ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ اس منطق کو سن کر آپ نہ صرف حیران ہوں گے بلکہ پریشانی کے کچھ اثرات آپ کے چہرے پر بھی نمایاں ہوں گے۔ چلیے ہم اس منطق کو مان لیتے ہیں کہ کمپیوٹر کا پرچہ امتحانی مراکز سے لیک ہوا، تو پھر حیاتیات کے پرچے کو کہاں سے پَر لگے جو امتحانی مراکز پر پہنچنے سے آدھا گھنٹہ قبل ہی واٹس ایپ گروپوں پر شیئر کیا جانے لگا؟ خیر یہ تو ہوتا ہے، میرا مطلب ہے کہ امتحانی مراکز پر ہونے والی بدانتظامی اور کراچی بورڈ کی جانب سے کی جانے والی بے ضابطگیوں کی تاریخ نئی نہیں، یہاں گزشتہ تیس برسوں سے یہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ میٹرک بورڈ سے لے کر امتحانی مراکز تک ہونے والی بے ضابطگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کرپشن اور اقربا پروری کے باعث زمیں بوس ہوچکا ہے، اپنے من پسند امتحانی مراکز بنوانے کے لیے باقاعدہ بولیاں لگائی جاتی ہیں، جو جتنی بڑی آفر کرے اُسے اس کی حیثیت سے بڑھ کر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ سے لے کر نجی اسکولوں کے مالکان تک سب کے سب پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ بعض امتحانی مراکز کی حالت تو انتہائی دل خراش ہوتی ہے، جہاں چند درجن طلبہ کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں ایک ایک ڈیسک پر تین بچوں کو بٹھاکر گھر جیسے ماحول میں پرچے لیے جاتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ یعنی میٹرک بورڈ کی جانب سے رقم لے کر مخصوص امتحانی مراکز بنانے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چاند رات تک میرا مطلب ہے امتحانات شروع ہونے سے ایک روز قبل تک امتحانی مراکز کی تبدیلی کا بازار گرم رہا، جبکہ شدید گرمی کے باوجود امتحانی مراکز کے باہر والدین کے بیٹھنے کے لیے شامیانے لگائے گئے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام تھا۔ میں نے خود مختلف سرکاری و نجی اسکولوں کے باہر دھوپ میں بیٹھے متعدد ایسے عمر رسیدہ افراد دیکھے جو شدید گرمی میں پانی نہ ملنے کے باعث نیم بے ہوش دکھائی دیے۔ امتحانی مراکز کے اندر کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ امتحانی مراکز سے باہر آنے والی طالبات بھی بجلی اور پینے کا پانی نہ ملنے کا رونا روتی دکھائی دیں۔ فائزہ نامی ایک بچی نے اسکول کے اندر کی صورتِ حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’دورانِ امتحان مجھے اِس کلاس تو کبھی اُس کلاس میں بٹھایا گیا۔“ فائزہ کے مطابق ’’ایک طرف مجھے یوں ذہنی اذیت دی جاتی رہی تو دوسری جانب اسکول انتظامیہ کے کارندے اپنی جاننے والی لڑکیوں کو موبائل فون کے ذریعے نقل کروانے میں مصروف تھے، اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ برسوں کی طرح اِس مرتبہ ہونے والے امتحانات بھی شروع ہوتے ہی انتہائی متنازع رہے تو غلط نہ ہوگا۔“

ظاہر ہے جب کمپیوٹر کا پرچہ ایک سینٹر میں صبح ساڑھے نو بجے پہنچے اور چند منٹوں میں وہی پرچہ سارے شہر میں گردش کرنے لگے، اور یہی مشق حیاتیات کے پرچے میں بھی دہرائی جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس جدید دور میں واٹس ایپ باکمال کا یہ خوب کمال ہے۔ اس پر حیرت کی بات تو یہ کہ اس بدانتظامی پر چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ نے سارا ملبہ امتحانی مراکز پر ڈال دیا۔ اُن کی جانب سے دیا جانے والا بیان صاف بتاتا ہے کہ چیئرمین بورڈ مبینہ طور پر اپنی ساری توانائیاں منظورِ نظر افراد کو بچانے میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن منظورِ نظر افراد کو بچانے میں، جن کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کراچی میٹرک بورڈ کو دودھ دینے والی گائے سمجھتے ہیں یا پیسہ بنانے کا وہ ادارہ جس میں سرمایہ کاری کیے بغیر لاکھوں روپے کمائے جارہے ہیں۔ کراچی میٹرک بورڈ میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے حوالے سے جب میں نے اپنے ذرائع جو کہ کراچی میٹرک بورڈ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، سے معلومات لیں تو ایسے ایسے راز افشا ہوئے جنہیں تحریر کرنا میرے لیے انتہائی دل خراش تھا۔ خیر، بورڈ میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور کرپشن سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:

’’یہ نئی بات نہیں، اِس مرتبہ بھی کسی اسکول کو امتحانی مرکز بنوانے کے لیے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے، جبکہ اپنی خواہش کے مطابق اس مرکز میں اسکول بھیجنے کے لیے تیس سے چالیس ہزار روپے کا ریٹ تھا۔ واضح رہے کہ یہ ایک کوڈ کے ریٹ ہیں، جبکہ طلبہ وطالبات دونوں کے 80ہزار روپے تھے۔“

انہوں نے بتایا کہ ’’دیکھنے میں تو یہ رقم کچھ نہیں، لیکن یہ کس طرح کروڑوں روپے بن جاتی ہے اس کا کلیہ سیدھا سا ہے، دیکھیں کراچی میں 504 امتحانی مراکز بنائے گئے، اب یہ رقم 504 مراکز سے ضرب کرلیں اصل رقم سامنے آجائے گی۔ یہ تو کمانے کا ایک گھر ہے، ایسے کئی راستے ہیں جن کی بدولت بورڈ کی چھوئی سی پوسٹ پر بیٹھنے والوں نے پوش علاقوں میں مکانات بنالیے ہیں۔ اصل کام تو امتحانات کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی اپنی مرضی کا رزلٹ حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی بولیاں لگائی جاتی ہیں“۔

چونکہ میرے ذریعے نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے پر میرے ساتھ تعاون کیا، اس لیے میں اُن کا نام تحریر نہیں کرسکتا۔ کراچی میٹرک بورڈ میں کرپشن کے حوالے سے اُن سے جو معلومات حاصل ہوئیں اس کی تصدیق کے لیے میں نے مختلف اسکول ایسوسی ایشنز سے رابطہ کیا لیکن کسی تنظیم نے بھی میری معلومات پر لب کشائی کرنے کی جرات نہ کی۔ ظاہر ہے جو کچھ بھی میرے علم میں آچکا تھا میں اس کی تصدیق چاہتا تھا۔ خیر کوشش رنگ لائی اور میری ملاقات پیک پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر سے ہو گئی۔ میں نے سارا قصہ کھول کر اُن کے سامنے رکھ دیا جس پر سید شہزاد اختر نے مسکراتے ہوئے کہا:

’’جو معلومات آپ کے پاس ہیں خاصی حد تک درست ہیں، اس قسم کے دھندے عام ہیں، اب تو دل روتا ہے، اسے چھوڑیے، میں آپ کو بد انتظامی سے متعلق ایک ایسی بات بتاتا ہوں جسے سن کر چیئرمین بورڈ کے اطمینان کا اندازہ ہو جائے گا۔ امتحان شروع ہونے ایک روز قبل ایک نجی ہوٹل میں نقل کی روک تھام سے متعلق سیمینار ہوا جس میں کراچی بھر سے تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد نے شرکت کی جہاں چیئرمین بورڈ کے لیے تعریفی کلمات ادا کیے جارہے تھے۔ پروگرام کا انعقاد کرنے والوں کا شاید یہی مقصد تھا۔ ایسا ماحول کہ مغلیہ دور کی یاد آئے۔ ہر کوئی چیئرمین بورڈ سید شرف علی شاہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا تھا، میں نے چیئرمین بورڈ کے خطاب کے دوران اُن کی توجہ اُن ہزاروں طلبہ وطالبات کی جانب کروائی جو امتحانی فارم جمع نہ ہونے کے باعث کراچی میٹرک بورڈ میں دربدر ہورہے تھے، میرے مسلسل بولنے پر چیئرمین صاحب نے بورڈ انتظامیہ سے بذریعہ فون رابطہ کیا جہاں سے سب اچھا ہے کی خبر دی گئی، جس پر چیئرمین صاحب نے دوٹوک فیصلہ سناتے ہوئے کہا: سب کے فارم جمع ہوچکے ہیں، اب مزید کسی کا فارم وصول نہیں کیا جائے گا۔ میں چونکہ ان طلبہ سے رابطے میں تھا لہٰذا مستقل اپنی بات پر زور دیتا رہا، میں چیئرمین بورڈ سے بورڈ آفس جانے کی درخواست کرتا رہا۔ بچوں کا سال ضائع نہ ہو بس یہی سوچ کر میں بورڈ آفس جا پہنچا جہاں کنٹرولر امتحانات خالد احسان اور سیکرٹری بورڈ نوید گجر سے پانچ گھنٹے کے طویل مباحثے کے بعد ان افراد نے چیئرمین بورڈ سے رابطہ کیا، ہماری بات پر انہیں قائل کردیا گیا جس پر ہم سیکرٹری بورڈ کی کاوشوں کے شکر گزار ہیں۔ اس میٹنگ کے دوران ہمارے ساتھ نصیرالدین،پرویز ہارون، انور، مرتضیٰ شیرازی، رضا آفریدی اور رہنمائی کے لیے غلام عباس بلوچ موجود تھے۔ یہ مسئلہ تو حل ہوگیا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے عدالتی حکم نامے کے تحت ہٹادیا گیا ہے اسے کیوں کر کنٹرولر امتحانات جیسی اہم ذمہ داری دی گئی ہے؟ میں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ تعلیم کے ساتھ کھلواڑ بند کیجیے، خاص طور پر وزیر تعلیم سردار علی شاہ سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا کراچی میٹرک بورڈ جو کہ سندھ کا سب سے بڑا تعلیمی بورڈ ہے، اسے بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں، سفارش نہیں اہلیت کی بنیاد پر تقرریاں کی جائیں، ایسے اقدامات سے ہی کراچی میٹرک بورڈ کو جو کہ غریب بچوں کی تعلیم کا واحد ادارہ ہے، بچایا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر تعلیم کو اشرافیہ کی گود میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔“

سید شہزاد اختر کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ کو یہ بات ماننا ہوگی کہ اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ صرف خرابیوں میں مزید اضافہ ہوا بلکہ اُن کے ادارے نے ثابت کردیا کہ یہ کام اب اس کے بس کا نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امتحانات اور رجسٹریشن کی مد میں غریبوں سے کروڑوں روپے بٹورنے والا کراچی ثانوی بورڈ امیدواران کو پُر سکون امتحانی ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ثانوی بورڈ کراچی اپنی اصل ذمہ داریاں پسِ پشت ڈال کر میٹرک بورڈ آف ریونیو بن چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اور آگے بڑھتی ہے، اگر دیکھا جائے تواس کی ذمہ داری ہمارے اُن حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے بجائے پیسے کی خاطر ایسے کاروباری لوگوں کو نجی درسگاہیں بنانے کے اجازت نامے جاری کیے جنہوں نے خود کبھی اسکول کا دروازہ تک نہ دیکھا ہو، بلکہ اجازت نامے دیتے وقت اسکول مالکان کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت دیکھنا تو درکنار،دودھ والوں سے لے کر گٹکا فروشوں تک کو تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔میں نے خود کئی ایسی سڑکیں دیکھی ہیں جن کے اطراف رہائشی مکانات میں اتنی زیادہ تعداد میں اسکول قائم ہیں جو کسی جمعہ بازار کا منظر پیش کرتے ہیں،ظاہر ہے جو کروڑوں روپے لگا کر اونچی اونچی عمارتیں بنائے گا وہ امتحانات میں اپنے مرضی کے نتائج لینے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض پرائیویٹ اسکول مالکان نے پیسے کی بدولت میٹرک بورڈ کراچی میں اپنا اثر رسوخ قائم کیا ہوا ہے جس کے باعث وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ بات اس گھنائونے دھندے سے منسلک چند کرپٹ عناصر سے متعلق کی گئی ہے جبکہ کچھ نجی اسکولوں کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی کراچی میٹرک بورڈ کی نااہلی پر۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ امتحانی مراکز سرکاری اور نجی اسکولوں کی عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں جبکہ عملہ بھی انہی کا ہوتا ہے،ان عمارتوں کا میٹرک بورڈ کراچی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یعنی یہ بورڈ کی ملکیت نہیں ہوتیں، جب کہ امتحان لینا بورڈ کا کام ہے تو اس اعتبار سے امتحانی مراکز بنانے کی تمام تر ذمہ داری کراچی میٹرک بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔اب یہ اس ادارے کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ کا بندوبست کرے ورنہ کوئی اور کام کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو امتحانی مراکز بنا کر وہاں کے عملے کو وہ خیرات کی صورت تھوڑی سی رقم ادا کر کے برسوں سے اربوں روپے بٹور رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امتحانات کے نام پر ہونے والے اس کھلواڑ پر سنجیدگی سے توجہ دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو نہ صرف بہترین امتحانی ماحول میسر آ سکے بلکہ تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کی پوری آزادی بھی مل سکے۔ اگر حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو یقیناً ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں بہتری لائی جا سکتی ہے،ورنہ علم کی شمع کو بجھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو تاریکی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

حصہ