’’ناظرین! آج ہم موجود ہیں اسپیشل نوجوانوں کے درمیان، جو اپنی ہمت اور محنت کے بل بوتے پر معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ کارآمد فرد ہیں۔‘‘
’’ ناظرین ان اسپیشل افراد میں کوئی ایک ہاتھ سے معذور ہے تو کوئی دونوں ہاتھوں سے۔کوئی پیر سے معذور ہے تو کوئی…‘‘
’’پاکستان کے بیشتر علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں مگر ابھی تک اس کی شدت کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔‘‘
’’ناظرین! آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ معذور افراد کو ہنرمند بنانے کا ادارہ ہے جہاں سے یہ افراد کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کر اپنے کاروبار کا آغاز کررہے ہیں۔‘‘
اشعر جو بے خیالی میں ٹی وی کھولے بیٹھا تھا اور اس کا دھیان بھی اس طرف نہیں تھا کہ ٹی وی پر کون کیا کہہ رہا ہے مگر اچانک ہی اس کی توجہ اسکرین کی طرف ہوگئی۔
’’ناظرین! بہت معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے صحت مند نوجوان ڈگریاں لیے بہت اچھی نوکری کی تلاش میں ہیں، ان سے اچھے تو یہ نوجوان ہیں جو اپنی معذوری کو بہانہ بنا کر نوکری کی تلاش نہیں بلکہ اپنا کاروبار شروع کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘‘
’’ امید ہے ناظرین… ‘‘ نیوز کاسٹر اور بھی کچھ کہہ رہی تھی مگر اشعر کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
’’میرے تو ہاتھ بھی سلامت ہیں، میں تو چل پھر بھی سکتا ہوں، پھر میں کس بات کا انتظار کررہا ہوں؟‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچتا گیا۔ اور پھر ایک عزم سے اٹھا۔
’’لیکن کاروبار کے لیے پہلے پیسہ چاہیے، کیوں کہ پیسہ ہی پیسے کو کھینچتا ہے… پیسہ کہاں سے آئے گا؟‘‘
اس نے کچھ لمحے سوچا ’’اچھا اس کا مطلب ہے لانگ ٹرم پلاننگ کرنی پڑے گی۔‘‘
اشعر نے اپنے کچھ دوستوں سے مشورہ کیا کہ جاب کہاں اور کیسے فوراً مل سکتی ہے، چاہے کم تنخواہ ہی کیوں نہ ہو… اور پھر سب کے رائے سننے کے بعد فیصلہ کیا اور فوراً ہی ایک کال سینٹر میں جاب شروع کردی۔ ٹریننگ کے دوران ہی اس کو تنخواہ بھی ملنا شروع ہوگئی جس میں سے وہ کچھ اپنے خرچ کے لیے نکالتا اور آدھی سے زیادہ رقم کی اس نے بی سی(کمیٹی) ڈال دی اور 5 ماہ میں ہی اس کی کمیٹی نکل آئی، ان پانچ ماہ میں ہی اس نے اپنی دکان کی (جو کہ ابھی لی بھی نہیں تھی) خوب پبلسٹی کردی کہ میں جیولری کی شاپ کھولنے والا ہوں، اور ایک مارکیٹ میں چھوٹی سی دکان کرایہ پر لے لی۔ اپنی محنت سے گاہکوں کو راغب کیا اور ایک کامیاب کاروبار شروع کردیا۔ گو کہ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا لیکن اُس نے نوکری پیسے جمع کرنے کے لیے کی۔ دوسرے اس کے پاس یہ آپشن تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا، ابھی شادی نہیں ہوئی تھی، بیوی بچوں کی ذمہ داری نہیں تھی۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ کاروبار کرنا ہے تو اس کے لیے خود پیسے جمع کرنے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ماں، باپ آپ کی پڑھائی پر خرچ کرچکے تو کاروبار کے لیے بھی پیسے دے سکیں، یا میں صرف اچھی نوکری کے انتظار میں ہی وقت ضائع کرتا رہوں۔ خود کچھ کر گزرنے کا عزم ہی سب کچھ کروا دیتا ہے۔
اس لیے نوجوان نسل کو چاہیے کہ اپنا ٹائم ضائع نہ کریں، چھوٹے پیمانے پر ہی نوکری یا کاروبار شروع کریں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ہر کوئی ایسے ہی عروج پر نہیں پہنچ جاتا، بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور نوجوانی کی عمر طاقت اور جذبے کی عمر ہوتی ہے، اس میں انسان بہت کچھ کر سکتا ہے… وقت ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر صرف مایوسی رہ جاتی ہے۔
ایسے ہی تو شاعر نے نہیں کہا کہ
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے