میرا من پسند صفحہ

260

کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک مع اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔

یوں تو اخبار سارے کا سارا اچھا ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیے اخبار کا ہر صفحہ اتنی دل چسپی نہیں رکھتا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اخباروں میں صرف ریس کا نتیجہ دیکھتے ہیں یا وہ صفحہ جس پر روئی، تلی، پیتل، لوہا، تانبا، پٹ سن، سونا، چاندی، گڑ، پاپڑ اور آلوؤں کے سوکھے قتلوں کے بھاؤ درج ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو اخبار کا پہلا صفحہ ہی پڑھتے ہیں جس پر بڑی وحشت ناک خبریں موٹے موٹے حروف میں درج ہوتی ہیں۔ روز قتل اور ڈاکہ اور بد دیانتی اور خون خرابے کے واقعات کو بڑی بڑی سرخیوں میں چھاپا جاتا ہے۔ بعض لوگ اخبار کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کا اداریہ کھول کے پڑھتے ہیں جس پر آج ایک چیز کے حق میں لکھا گیا ہے تو کل اُسی ذمہ داری سے اُس چیز کے خلاف لکھا جائے گا اور اگر پہلے دن آپ اس چیز کے حق میں ہوں گے تو دوسرے دن اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ یار لوگوں نے اس صورت حال کا نام رائے عامہ رکھ چھوڑا ہے۔ خیر اپنی اپنی سُوجھ بُوجھ۔

سچ پوچھیے تو مجھے اخبار کے ان صفحوں میں سے کوئی صفحہ پسند نہیں۔ ریس کے ٹپ اکثر غلط نکلتے ہیں۔ میں کئی دفعہ غپّا کھا چکا ہوں اور ریس کے اخباری ماہر کی جان کو روچکا ہوں، روٹی، پٹ سن اور پاپڑ کے بھاؤ بدلتے دیکھے ہیں، سونا تو خیر سونا ہے لیکن چاندی کا بھاؤ بھی آج کل یوں بڑھ رہا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سی دھات اچھی ہے، سونا یا چاندی؟ یہی حال ملوں، کارخانوں اور بینکوں کے حصّوں کا ہے۔ ان میں اس قدر تیزی مندی دکھائی دیتی ہے کہ میں نے تو اب یہ صفحہ پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پہلا صفحہ بھی میں نے پڑھنا چھوڑدیا ہے۔ کبھی یہ میرا من پسند صفحہ تھا، لیکن متواتر دوسال تک اس صفحہ کی خونیں اور تھرا دینے والی چیزیں پڑھ کر مجھے اختلاجِ قلب ہوگیا ہے اور اب ڈاکٹروں نے مجھے اس صفحہ کے پڑھنے سے منع کردیا ہے اور جو لوگ کہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے دل کی حرکت اک دم بند ہوجائے ان کے لیے بھی پرہیز مفید رہے گا۔

آج کل میرا من پسند صفحہ وہ ہے جو پہلا صفحہ اُلٹنے کے فوراً بعد آتا ہے۔ میں دوسرا صفحہ جس پر صرف اشتہار ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اخبار کا سب سے سچا، سب سے عمدہ اور سب سے دلچسپ صفحہ ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لین دین اور تجارتی کاروبار کا صفحہ ہے۔ ان کی ذاتی مصروفیتوں اور کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی کی ٹھوس سماجی حقیقتوں کا ترجمان ہے۔ یہاں پر آپ کو کاروالے اور بے کار ٹائپسٹ اور مل مالک مکان کی تلاش کرنے والے اور مکان بیچنے والے، گیراج ڈھونڈنے والے اور ذاتی لائبریری بیچنے والے، کُتے پالنے والے اور چوہے مارنے والے، سرسوں کا تیل بیچنے والے اور انسانوں کا تیل نکالنے والے، پچاس لاکھ کا مِل خریدنے والے اور پچاس روپے کی ٹیوشن کرنے والے سبھی بھاگتے دوڑتے، چیختے چلاتے، روتے ہنستے ، نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے جیتا جاگتا صفحہ ہے جس کا ہر اشتہار ایک مکمل افسانہ ہے اور ہر سطر ایک شعر۔ یہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی سیرگاہ ہے جس کی رنگا رنگ کیفیتیں مجھے گھنٹوں مسحور کئے رکھتی ہیں۔ آئیے آپ بھی میرے اس من پسند صفحہ کی دلچسپیوں میں شامل ہوجائیے۔ دیکھئیے یہ ذاتی کالم ہے۔

نائیلان جرابوں کا اسٹاک آگیا ہے، بیوپاری فوراً توجہ کریں۔ آپ کہیں گے یہ تو کوئی ذاتی دل چسپی کی چیز نہیں ہے۔ بھئی ہمیں نائیلان جرابوں سے کیا لینا، یہ صحیح ہے لیکن ذرا صِنفِ نازک سے پوچھیے، جن کے دل یہ خبر سُن کر ہی زور سے دھڑک اُٹھے ہوں گے اور ٹانگیں خوشی سے ناچنے لگی ہوں گی۔ آج کل عورت کے دل میں نائیلان جراب کی وہی قدر وقیمت ہے جو کسی زمانے میں موتیوں کی مالا کی ہوتی تھی۔ آگے چلیے۔

ڈارلنگ فوراً خط لکھو، معرفت ایس ڈی کھرونجہ نیلام پور۔ کون ڈارلنگ ہے وہ۔ کسی مصیبت میں ہے وہ۔ وہ کیوں اس کے گھر یا کسی دوست یا سہیلی کے ہاں خط نہیں بھجوا سکتا۔ اخبار میں یہ اشتہار کیوں دے رہا ہے کہ بیچارہ دیکھیے کیسی کیسی مجبوریاں ہوںگی، اس بیچاری لڑکی کے لیے بھی۔ وہ بھی میری طرح ہر روز یہ اخبار کھولتی ہوگی۔ اس میں ذاتی کالم دیکھتی ہوگی اور اپنے لیے کوئی خبر نہ پاکر کیسی اُداس اور رنجور ہوجاتی ہوگی اور آج جب وہ ذاتی کالم میں یہ خبر پڑھے گی تو کیسے چونک جائے گی، خوشی سے اس کاچہرہ چمک اُٹھے گا۔ مسرّت کی سنہری ضیا اس کی روح کے ذرے ذرے کو چمکادے گی اور وہ بے اختیار اخبار اپنے کلیجے سے لگالے گی اور اس کی لانبی لانبی پلکیں اس کے رخساروں پر جھک جائیں گی یعنی اگر اس کی لانپی پلکیں ہوئیں تو ورنہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس کی پلکیں نہایت چھوٹی چھوٹی ہوں ، جیسے چوہیا کے بال ہوتے ہیں اور ماتھا گھٹا ہوا ہو۔ کچھ بھی ہو وہ وایس ڈی کھرونجہ کی ڈارلنگ ہے۔ ایس ڈی کھرونجہ کون ہے؟ اب اس کے متعلق آپ اندازہ لگائیے۔ ممکن ہے وہ کوئی بھڑونجہ ہو یا معمولی کلرک ہو یا ہلاس مونی گولیاں بیچنے والا ہو یا نیلا پور میں رس گلے اور بنگالی مٹھائی کی دوکان کرتا ہو یا کسی بڑے مل کا مالک ہو وہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور اب سوچتے جائیے دیکھیے زندگی کس قدر دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

اس سے اگلا کالم دیکھیے، یہ مکانات کا کالم ہے۔ یہ بھی بے حد دلچسپ ہے کیونکہ آج کل مکان کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن یہاں آپ کو ہر طرح کے مکان مل جائیں گے۔

میرے پاس سمندر کے کنارے ایک بنگلے میں ایک علیحدہ کمرہ ہے لیکن میں شہر میں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب مجھے شہر کے اندر ایک اچھا کمرہ دے سکیں تو میں انہیں سمندر کے کنارے کا اپنا کمرہ دے دوںگا اور ساتھ ہی اس کا کل ساز وسامان بھی جس میں ایک صوفہ دوٹیبل لیمپ اور ایک پیتل کالوٹا شامل ہے۔

لیجیے اگر آپ شہری زندگی سے اُکتا گئے ہوں تو سمندرکے کنارے جاکے رہیے۔ اگر آپ سمندر کے کنارے رہنے سے گھبراتے ہوں تو شہر میں جاکے رہیے۔ پیتل کا لوٹا تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔

یہ دوسرا اشتہار دیکھیے۔

کرائے کے لیے خالی ہے، نیا مکان، آٹھ کمرے، دو کچن پانچ غسل خانے، گراج بھی ہے اور مکان کے اوپر چھت ابھی نہیں ہے۔ مگر اگلے مہینے تک تیار ہوجائے گی۔ کرائے دار فوراً توجہ کریں۔

آپ یہ پڑھ کر فوراً توجہ کرتے ہیں بلکہ کپڑے بدل کر چلنے کے لیے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے میں آپ کی نظر اگلی سطر پر پڑتی ہے لکھا ہے۔

’’کرایہ واجبی مگر سال بھر کا پیشگی دینا ہوگا۔ سالانہ کرایہ اٹھارہ ہزار۔‘‘

اور آپ پھر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلا اشتہار دیکھتے ہیں، لکھا ہے عمدہ کھانا، بہترین منظر، کھلا کمرہ، فرنیچر سے سجا ہوا بجلی پانی مفُت۔ کرایہ سب ملا کے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ۔

آپ خوشی سے چلّا اُٹھتے ہیں مِل گیا، مجھے ایک کمرہ مل گیا اور کس قدر سستا اور عمدہ اور کھانا ساتھ میں۔ واہ واہ آپ فوراً خط لکھنے کی سوچتے ہیں اور پھر کلیجہ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ آگے لکھا ہے؛

’’دل کُشا ہوٹل دار جلنگ‘‘

ظاہر ہے کہ آپ بمبئی میں نوکر ہیں۔ دلکشا ہوٹل۔ دارجلنگ میں رہ کر بمبئی کی نوکری نہیں کرسکتے۔

اگلا کالم دیکھیے یہ اگلے دو کالم ’’ضرورت ہے‘‘ کے اشتہاروں سے بھرے پڑے ہیں جس میں ایک خوبصورت ٹائپسٹ گرل کی ضرورت ہے۔ ایک بڈھے مدراسی اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے جو کناری زبان کے علاوہ تامل، تلنگو، ملیالم، شہنائی اور عربی بھی جانتا ہو، تنخواہ ستر روپے ماہوار۔ ایک کمپونڈر کی ضرورت ہے جو کم از کم ایم بی بی ایس ہو اور اگر ولایت سے ایل آر سی پی اور ایف آر سی ایس بھی ہو تو اسے پانچ روپے سالانہ ترقی بھی دی جائے گی۔ ایک چپراسی کی ضرورت ہے جسے چالیس روپے تنخواہ دی جائے گی۔ اُردو اخبار کے لیے ایک ایڈیٹر کی ضرورت ہے جسے تیس روپے ماہوار تنخواہ دی جائے گی۔ ایک صاحب کو سکریٹری کی ضرورت ہے جو ان کے لیے تقریریں لکھ سکے۔ ایک جادوگر کی ضرورت ہے جوان کا دل بہلا سکے۔ ایک لیڈی کمپنین کی ضرورت ہے جو گھوڑے کی سواری جانتی ہو اور گلمرگ کے ہوٹلوں سے واقفیت رکھتی ہو۔ ایک فٹر کی ضرورت ہے جو بڑے سوراخ میں چھوٹی کیل گاڑ سکے۔ ایک انجینئر کی ضرورت ہے جو چھوٹی کیل کے لیے بڑا سوراخ کرسکے ایک باورچی کی ضرورت ہے جو گوشت کے بغیر شامی کباب بناسکے۔ ایک دھوبی کی ضرورت ہے جو قمیص پھاڑ دے لیکن بٹن سالم رکھے اور علی ہٰذا القیاس یہی وہ کالم ہے جسے پڑھ کر مجھے اپنے سماج کی نیرنگیوں اُس کی پستیوں اور بلندیوں اور چیرہ دستیوں کا اندازہ ہوتا ہے جو کچھ دنیا میں آپ کے ارد گرد ہورہا ہے۔ اس کی سچی تصویر آپ کو انھیں کالموں میں ملتی ہے۔ اخبار کے باقی صفحے تو خواہ مخواہ بے کار، جھوٹ بول کر ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں۔

اس کا اگلا کالم موٹروں کتابوں اور کتوں کا ہے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ ایک ہی ماڈل کی نئی گاڑی ہے مگر وہ دو مختلف داموں میں بک رہی ہے۔ سیٹھ حُسن لال کی گاڑی سات ہزار میں بکاؤ ہے، کیونکہ وہ اسے بیچ کر کوئی دوسرا ماڈل لینا چاہتے ہیں اور وہی گاڑی مسٹر مکڈانلڈ کے پاس ہے اور وہ اسے دو ہزار میں بیچے دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر مکڈانلڈ ولایت جارہے ہیں۔ ایک خوب صورت کتّا ہے جو ڈیڑھ سو میں بکتا ہے۔ شکسپیئر کے ڈراموںکا باتصویر سٹ ہے جو دس روپے میں جارہا ہے۔ یہ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کتوں کے دام کتابوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ اس کالم میں موٹروں اور کتوں کے خریدنے اور بیچنے والے تو بہت ملتے ہیں، لیکن کتابوں کے صرف بیچنے والے تو نظر آتے ہیں خریدنے والا کوئی نہیں۔ جتنے اشتہار ہیں اس سے ہمیں اپنے ملک کے عظیم کلچر کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس صفحے کا آخری کالم جسے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں، شادی کا کالم ہے۔ بر کی ضرورت ہے، ایک نوجوان حسین اٹھارہ سالہ گریجویٹ لڑکی کے لیے۔

بر کی ضرورت ہے، ایک خوش رو خوش خو اور خوش قامت تعلیم یافتہ بے حد حسین لڑکی کے لیے جو ناچنا گانا بھی جانتی ہے اور ادبی ذوق بھی رکھتی ہے۔

بر کی ضرورت ہے، ایک خوبصورت خاندانی لڑکی کے لیے جس کا باپ ایک مل کا مالک ہے، لڑکا اچھا ہونا چاہیے، ذات پات کی کوئی تمیز نہیں۔

اور میں بھی ذات پات کی پرواہ کیے بغیر ہر جگہ عرضی بھیجنے کی سوچتا ہوں کہ اتنے میں میری بیوی میرے سرپرآن کے کھڑی ہوجاتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کیا پڑھ رہے ہو؟ اور میں ایک حزیں مسکراہٹ سے اپنا من پسند صفحہ بند کردیتا ہوں۔

حصہ